کھوکھلا نعرہ خود مختاری

سیاستدان قوموں کی نمائندگی ، فوجیں سرحدوں کی حفاظت اور عدالتیں نہتے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لے جاتی ہیں ، ہم آزاد ملک کے آزاد شہر ی بھی خود مختاری کا حق رکھتے ہیں ، ترقی یافتہ ممالک تین بڑی چیزوں سے پہچانے جاتے ہیں ایک تو ملک کی بقاءاور سلامتی دوسرا ملک کی خوشحالی اور تیسر ا خود مختاری، میں آج تک خود مختاری کے معنی پڑھتا اور سمجھتا رہا لیکن آج پتا چلا کہ کتابیں جھوٹ بولتی ہیں ، فلسفی من گھڑت باتیں بناتے ہیں پچھلے دس سالوں نے کیا خوب خود مختاری کے معنی سمجھا دیے ہیں ۔

یہ ملک جو جناح کی قائدانہ صلاحیتوں سے اور اقبال ؒ کے پیغام خودی کے نتیجے میں معرض ِ وجود میں آیا آج وہ ملک کہاں کھڑا ہے ؟ پہلے روشن خیالی اور اب خود مختاری ان دولفظوں نے ہمارے ملک کے مورال کو پائمال کر کے رکھ دیا ہے ۔ امریکہ جس نے پہلے افغانستان پھر عراق کو نشانہ بنایا اور آج تک وہ بلاجھجک بیان دیتا آرہا ہے کہ ہم دنیا میں سے دہشت گردی کو ختم کر کے امن کی شمعیں روشن کر رہے ہیں ، بڑی عجیب سی بات ہے کیا خون کی ندیاں بہانا ، کیاآگ کے شعلے بھڑکانا ، کیا گلیوں اور سڑکوں پر انسانی جانوں کے چیتھڑے بکھیرنا ، اگر اس کا نام امن ہے تو معذرت کے ساتھ کہ یہ ان کی حوس اور آوارگی ہے ، عراق پر حملے کے بعد ایک پانچ سو ستر صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ شائع کی گئی جس میں انہوں نے اقرار کیا کہ ہم نے غلط فیصلہ کیا تھا کہ اگر کوئی ملک غلط مشاہدات اور فیصلوں کی بنیاد پر کسی ملک پر حملہ کر تا ہے تو ان حالات میں اس ملک کا اتحادی ہونا میرے خیال میں خود دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے ، دہشت گردی بڑا اہم مسئلہ ہے لیکن میرے خیال میں سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی تاریخ بھی سب کو یاد ہوگی آخر کار اس ملک نے اپنے بل بوتے پر دہشت گردی جیسی لعنت سے چھٹکارا پا ہی لیا ، لیکن مجھے اپنے اس ملک کی دہشت گردی اور اس سے بڑھ کر دہشت گرد بڑے عجیب سے لگتے ہیں کہ ایک ڈرونز جو دوسرے ملک کی سرحد میں گھس کر مساجد پر بمباری کرنے کے بعد سات سال کے بچوں اور بے گناہوں کو شہادت کا لباس پہنا کر چلا جا تاہے اور اس کے بعد بیان دیا جاتا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا ہے ، میں قارئین سے معذرت خواہ بھی ہوں کہ حقیقت کی طرف جانے کے لیے بہت بڑی دلیل کو لے کر اصل نقطہ سے میراقلم دوری اختیار کر رہا ہے لیکن کیا کریں ہمارے حکمران بھی تو بڑی بڑی غلطیاں کرنے کے بعد میڈیاپرپھر بھی بیان دیتے ہیں کہ ہم خود مختار ہیں اور آج کا یہ کالم بھی اسی خود مختاری کی عکاسی کر رہا ہے ، اب میں دو مئی کے واقعہ کے چند نکات بیان کر وں گا ، جب اسامہ کو قتل کر دیا گیا جس کے لیے امریکہ کم و بیش آٹھ سال سے افغانستان میں موجود ہے ۔میرے خیال میں تو اتنی بڑی کا میابی کے بعد ڈرونز حملوں میں کمی آجاتی لیکن بروز منگل سترہ مئی کو نیٹو کے ہیلی کاپٹرز نے ایک بار پھر سرحدوں کی خلاف ورزی کر تے ہوئے شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں پانچ سو میٹر پاکستانی حدود کے اندر داخل ہو کر سیکیورٹی چیک پوسٹ پر شیلنگ کی ، دریں اثناءپاک فوج کی طرف سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر شدید احتجاج کیا اور اس معاملہ میں ہمارے سیاستدان بھی احتجاج کرتے آرہے ہیں اور جب یہ مذمت کرتے ہیں تو امریکی ٹی وی پر بیان دیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ سب پاکستانی حکومت کے تعاون سے کیا ، اس دوستی کی نذر چند اشعار
کس نے دیکھی ہے وفا کی اس قدرروشن مثال
دوستوں کو دوستی کا دے رہے ہم خراج
وہ کریں حملے ہماری زمین پر بے دریغ
ہم لہو بہنے پر فقط کرتے ہیں احتجاج

رواں ماہ تین بار یہ واقعات ہوئے اور ہماری حکومت نے تینوں بار مذمت ،مذمت اور مذمت کی ، بڑی عجیب سی بات ہے کہ مذمت بس میڈیا کی حد تک بیان بازی کا نام اور کیا خود مختاری صرف زبان چلانے تک محدود ہے ، مجھے تو یہ سب آنکھ مچولی کا کھیل لگ رہا ہے ، قارئین کو باور کراتا چلوں کہ ہم نے دہشت گردی کی مد میں کم و بیش 68 ارب کا نقصان جھیلا اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف سے بھیک لے کر بھکاری بن چکے ہیں اور ایسے بھکاری جن کا کشکول ہر وقت ہاتھ میں ہے ، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کر کے عجیب صورتحال سے دوچا ر ہو گیا ہے ، پہلے ہمیں صرف بھار ت کی طرف سے خطرہ رہتا تھا اور ہماری افواج کی توجہ ایک طرف رہتی لیکن اب افغانستان کی طرف سے بھی سرحدی خلاف ورزیاں معمول بنتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ہمیں بہت سے سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے ، ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ پاکستان امریکہ اور نیٹو کا اتحادی ہے مگر یہ لوگ ا پنے اتحاد ی کے ساتھ بھی دشمنوں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں ، یہ قوم جو ہمیشہ ہر حکومت کے آنے پر امیدوں کی آس لگائے ٹکٹکی باندھ کر تکتی رہتی ہے لیکن آج یہ قوم غربت اور افلاس جیسی بیماریوں کی زد میں آچکی ہے ، مہنگائی ، افراط ِ زر عروج پر ، لوگ اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ، یہاں سانس کی قیمت اور زندگی ادھار بنتی جار ہی ہے ، سرحدوں کی خلاف ورزی اور ہم پھر بھی بڑے مزے سے ٹائی کوٹ لگا کر بیان دیتے ہیں کہ ہم خود مختار ہیں ۔ خود مختار تو ہم ہیں ، وسائل ہمارے اور مالک کوئی ا ور ، بجلی نے دن کو رات اور رات کو دن بنا کر رکھ دیا ہے ، تعلیم کابراحال ، ماہر فن ملک چھوڑ کر جارہے لیکن ان حالات میں ایک تسلی بخش بات یہ ہے کہ اب ہم کشکول اٹھائے پھر دنیا کے آگے بھیک مانگنے چل پڑے(don,t take any tension) ، اگر ہم کسی بھی قسم کی خود مختاری کے روا ہیں تو ہمیں اپنے زور بازو پر بھروسہ کر نا ہوگا اور ملکی سلامتی کو اولین ترجیح دینا ہوگی اور آج کل جو امریکہ کی پاکستان میں بلاجھجک دخل اندازی ہو رہی ہے اس معاملہ پر حکومت پاکستان کو سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر اس طرح کی چھیڑ چھاڑ روکی نہ گئی اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ، محض مذمتیں اور احتجاج صرف آنکھ مچولی کھیلنے کے لیے کرتے رہے تو خدا نہ کرے کہ ہماری حالت عراق ، افغانستان کی طرح ناگفتہ بہ ہو جائے ، چند روز قبل پنجاب حکومت نے ایک قرار دا دا منظور کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پنجاب حکومت اپنے وسائل کو خود بروئے کار لا کر اغیار کی بھیک کو رد کرے گی بہت ہی قابل ستائش عزم ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کہ اس عزم کی تکمیل کہاں تک ممکن بنائی جا سکے گی ۔۔۔ٍ۔؟

نوٹ: ہمارے محسن عباس ظفر صاحب کی والدہ محترمہ کی مغفرت کے لیے دعا فرما دیں۔۔۔خدا جنت نصیب کرے۔۔آمین
Khalid Iqbal Asi
About the Author: Khalid Iqbal Asi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.