27سالہ صحافتی سفر میں پاکستان پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ
(ن)اور تحریک انصاف جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کے ادوار دیکھے ہیں اور ان کے
دور حکومت میں انسانوں کو ’’روٹی ‘‘کے لیے بلکتے ،تڑپتے ،سسکتے دیکھا ہے
۔وطن عزیز کی ان تین بڑی سیاسی جماعتوں کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو
ایک چیز Commonہے اور وہ ہے ’’ذاتی مفادات‘‘کا حصول جس کے لیے اگر ان سیاست
دانوں اور سیاسی جماعتوں کواپنی دھرتی ماں بھی گروی رکھنی پڑے تو یہ لوگ
گریز نہیں کرینگے ۔پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے اس اعتبار سے اس
ریاست کی نگرانی اور نگہبانی کا پہلا حق علمائے کرام کو ہونا چاہیے تھا مگر
افسوس کہ ملک میں جو چند مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں انہوں نے پیٹ اور پلیٹ کے
چکر میں ان سیاست دانوں کی غلامی کو قبول کرتے ہوئے ان کی خوشامد اور
چاپلوسی میں اپنی زندگیا ں گزار دی ہیں 75سالوں میں ان سیاست دانوں نے ملک
لوٹنے اور اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔یہ حقیقت ہے کہ قائد
اعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد اس ملک کو کوئی مخلص اور بے لوث قیادت نصیب نہ
ہوسکی ۔پچھلے انتخابات میں ’’اﷲ اکبر تحریک ‘‘منظر عام پر آئی جن کے قائدین
کو دیکھ کراس بات کا اطمینان قلبی ہوا کہ کہ اگر ’’اﷲ اکبر تحریک‘‘کامیاب
ہوجاتی ہے توواقعی ملک کی تقدیر بدل دے گی ملک میں ایک انقلاب آئے گا مگر
اس انقلاب میں کسی جان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ملکی املاک کو توڑا
پھوڑا اور جلایا نہیں جائے گا ،شاہراؤں کو بند نہیں کیا جائے گا ،کسی بھی
مذہبی عبادت گاہ کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا یہ انقلاب فتح مکہ کی طرز
کا ہوگا اور پھر یہاں کوئی شخص بھوکا نہیں سوئے گا ،یہاں ایک ماں کو اپنے
بچوں کی بھوک کو مٹانے کے لیے اپنا جسم نہیں بیچنا پڑے گا ،افلاس کے ہاتھوں
مجبور کسی باپ کو اپنے بچوں کو اپنی قسم دیکر زہر کا پیالہ نہیں پلانا پڑے
گا،قاضی کاقلم نہیں بکے گا،کوئی ڈاکٹر انسانوں کے اعضاء کی خرید وفروخت کا
مکروہ دھندہ نہیں کرے گا،علماؤں کے فتووں میں شریعت کا کاروبار نہیں ہوگا
،کسی بھی شوہر کے سامنے اسکی بیوی کی عزت نہیں لوٹی جائے گی،کوئی پولیس
والا کسی وڈیرے کے کہنے پر کسی مظلوم پر کوئی جھوٹا مقدمہ درج نہیں کرے
گا،کسی جعلی پولیس مقابلے میں کسی ماں سے اس کا جوان سالہ واحد سہارا بیٹا
نہیں چھینا جائے گا،کوئی بااثر کسی باپ ،بھائی کے سامنے اسکی بیٹی اور بہن
کے منہ پر تیزاب نہیں پھینکنے گا نہ ہی اٹھا کرلے جائے گا ،کسی ماں کو قبل
قیام پاکستان کی طرح اپنی بیٹی کی حفاظت کے لیے رات رات بھر جاگنا نہیں پڑے
گا،کوئی وحشی قبروں میں مردہ خواتین کی عصمت دری نہیں کرے گا ،کوئی درندہ
کسی معصوم بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر پھر اسے مار کر کوڑے کے ڈھیر
میں نہیں پھینکنے گا ،کسی بھی نبی بالخصوص پیغمبر آخرالزمان ؐ اور کسی بھی
صحابیؓ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی جائے گی ،وڈیرہ اور جاگیردارانہ
نظام کا خاتمہ ہوگا،اﷲ اکبر کی صدائیں ڈھول کی تھاپ میں گم نہیں
ہونگیں۔’’اﷲ اکبر تحریک‘‘کے قائدین میں سب سے معتبر اور بڑا نام حافظ طلحہ
سعید کا ہے جن کے متعلق یہ الفاظ کہے جاسکتے کہ سیاست میں شرافت کا
امین،ماؤں ،بہنوں اوربیٹیوں کی عزتوں کا محافظ،اﷲ تعالیٰ کی زمین پر اﷲ
تعالیٰ کی حاکمیت کے لیے سرگرم عمل ،بے داغ ماضی اور حال ،بے ضرر اور
نفیس،باکردار اور گفتار کا غازی ،مجاہد ابن مجاہد ،اﷲ تعالیٰ کی مخلوق سے
پیار کرنے والا ایک پکا مسلمان،سچا پاکستانی ،حق کا راہی اور اﷲ کا سپاہی
ان کے بعد سیف اﷲ خالد اور حافظ عبدالروف جیسے انبیاء کرام ؑ کے وارث
علمائے حق کا ایک خوبصورت گلدستہ کہ جن کی مہک سے پوری ریاست معطر ہوسکتی
ہے ۔ان لوگوں کا میدان سیاست میں آنا ایک نہایت خوش آئندہ بات ہے میرے
نزدیک ان کوبہت پہلے سیاست میں آنا چاہیے تھا مگر دیر آئے درست آئے ۔ ’’اﷲ
اکبر تحریک‘‘ایک الگ سیاسی جمات ہے جس کا اپنامنشوراور مقاصد ہیں ۔بطور ایک
تجزیہ نگار کافی عرصہ سے سوشل میڈیا پر ایک بات جو نوٹ کی ہے کہ ’’اﷲ
اکبرتحریک‘‘کے چند جوشیلے کارکنان عمران خان کی حمایت میں اندھے ،گونگے اور
بہرے ہوچکے ہیں ،اندھی تقلید کا یہ عالم ہے کہ انکو عمران خان کے سواء کچھ
نظر ہی نہیں آتا ان افراد سے بحث ہوئی تو ایک ہی جواب ملا کہ عمران خان
امریکہ کی غلامی سے آزادی کی بات کرتا ہے تو اس کا سادہ ساجواب ہے کہ اگر
نصیحت کافر کی دیوار پر لکھی ہو تو نصیحت نوٹ کی جاتی ہے ناکہ کافر کو اپنا
رہبر ورہنما اور ناصح نہیں مان لیا جائے ۔بحیثیت ایک کالم نگارمیں نے بھی
عمران خان کی سادگی مہم سے لیکر کئی اچھے کا موں پر بے شمار کالمز ،مضامین
لکھے مگر میں نے عمران خان جیسا لاپرواہ سیاست دان نہیں دیکھا جو کہتا ہے
کہ مجھے کسی نے بتایا کہ ڈالر مہنگا ہوگیااور میں آلو اور ٹماٹر کے بھاؤ کے
لیے نہیں آیا جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ وہ آلو ،ٹماٹر کے مہنگے ہونے پر
واویلا کرنے والوں کے ووٹ سے ہی کامیاب ہوا ہے ۔وہ غریبوں اور ظلم زدہ
افراد جو کہ سابقہ سیاست دانوں کے کھوکھلے نعروں،دعووں اور وعدوں سے تنگ
آچکے ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے تھے اور جناب نے تبدیلی کے نام پر مذہب کا بے
دریغ استعمال کیا ،مذہب کا پتا کھیلا ،پاکستان کو ریاست مدینہ کی بات کی
کیا نعوذباﷲ کیا ریاست مدینہ ایسی تھی ؟کہاں ہے وہ انصاف جسے آپ نے گھروں
کی دہلیز پر پہنچانے کی بات کی تھی ؟کہاں ہیں وہ نوکریاں؟کہاں ہیں وہ گھر
؟کہاں گئی وہ آپ کی سادگی مہم کہ بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس ہیلی کاپٹر کا
استعمال ،جناب اگر سابق حکمران چور تھے تو صادق وامین تو آپ بھی ثابت نہ
ہوسکے ۔عمران خان کی سیاسی بصیرت کا عالم تو یہ ہے کہ ہربات پر U Turnاور
پاکستان کا اہم صوبہ پنجاب ایک ناتجربہ کار عثمان بزدار کے ہاتھوں میں
دیدیا جس کا پنجاب کو وزیراعلیٰ بننا ہی صوبہ کی بدقسمتی کے لیے کافی تھا
۔’’اﷲ اکبر تحریک‘‘کے قائدین کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنان کی اعلیٰ سطح پر
تربیتی نشستوں کا اہتمام کریں اور انکو بتائیں کہ ’’اﷲ اکبرتحریک ‘‘کسی بھی
سیاسی جماعت کی اتحادی نہیں بلکہ ایک آزاد سوچ وفکر رکھنے والی ایک نظریاتی
عوامی سیاسی جماعت ہے ۔سوشل میڈیا پر ’’اﷲ اکبرتحریک‘‘کے کارکنان کی تحریک
انصاف اور عمران خان کے حق میں پوسٹوں سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ ’’اﷲ
اکبر تحریک‘‘نے تحریک انصاف کی غلامی کو بخوشی قبول کرلیا ہے جس کا اندازہ
اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’اﷲ اکبر تحریک‘‘کے کارکنان سوشل میڈیا کے
دیگرز اکاؤنٹس پر عمران خان کی تصاویر لگارہے ہیں توکوئی امیرالمسلمین تو
کوئی قائد ملت اسلامیہ جیسے القابات سے نوازرہا ہے اگر سمجھانے کی کوشش کی
جائے تو یہ لوگ باقاعدہ طور بدتمیزی پر اتر آتے ہیں ۔باعث تکلیف تو بات یہ
ہے کہ ایک مواحد مانی جانی والی سیاسی جماعت کے کارکنان بھی شخصیت پرستی پر
اتر آئے ہیں جو کہ عنقریب بت پرستی پر پہنچ سکتے ہیں ۔بحیثیت ایک پاکستانی
اور قلمکار اس ملک میں تبدیلی کی خواہش مند ہوں ایسی تبدیلی کہ خواہش مند
ہوں کہ جہاں کسی بھی انسان کے لیے حیات جرم نہ ہو اور زندگی وبال نہ ہو اور
میرے نزدیک وہ تبدیلی ’’اﷲ اکبر تحریک ‘‘لاسکتی ہے مگر حالات واقعات سے یہ
ظاہر ہوتا ہے کہ جلد ہی ’’اﷲ اکبر ‘‘اپنا ذاتی تشخص کھو کر تحریک انصاف میں
ضم
ہوجائے گی اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔۔۔۔ |