وہ لمبی قطار ------
(Munir Bin Bashir, Karachi)
’ ایسی سائنسی معلومات کا مہیا کرنا جو عملی طور پر کسی چیز کو بنانے میں معاون ثابت ہوں ٹرانسفر آ ف ٹکنالوجی کہلاتا ہے ‘ |
|
میرے سامنے ایک وسیع و عریض کھیت تھا ۔۔ اس میں شاید گنے کی فصل اگی ہوئی تھی کیوں کہ اس کے ڈنڈے سے نظر آرہے تھے ۔۔ ایک طرف ایک کمرہ سا بنا ہوا تھا اور اسمیں ایک پائپ لگا ہوا تھا جس میں سے چھک چھک کی آواز سنائی دے رہی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد دھواں بھی نکل رہا تھا ۔ یہ چالیس پچاس برس پہلے کی بات ہے ۔۔ پھربہت سے دیہاتی نظر آئے جو ایک منڈیر پر قطار میں چلے جارہے تھے ۔۔ ان کے چہروں سے مایوسی ٹپک رہی تھی --غالباً اسی سبب سے وہ بغیر بات کئے خاموشی سے چلے جارہے تھے ۔۔ کچھ کی گودوں میں بچے تھے اور ایک دو نے بچوں کو کندھے پر اٹھا رکھا تھا ۔۔ لیکن یہ کسان نہیں لگ رہے تھے ۔ کسی کے ہاتھ میں بیلچہ ‘ درانتی یا پھاوڑا نہیں تھا ۔۔ ان کے کپڑے میلے تھے اور ان پر تیل کے داغ دھبے لگے ہوئے تھے ۔ کچھ کے چہروں پر کا لک لگی نظر آرہی تھی - آخر کھیتوں کا سلسلہ ختم ہوا تو یہ لوگ ایک بڑے سے گھر کے سامنے جاکر رک گئے اور دروازے کے باہر ہی بیٹھ گئے ۔۔ کچھ بچے سو گئے تھے انہیں زمین پر ہی لٹا دیا ۔۔ دروازہ کیا تھا بلکہ ایک بہت بڑاسا احاطہ سا تھا جس میں ایک طرف گیٹ بنا ہوا تھا ۔۔
یہ ایک ٹی وی ڈرامے کا منظر تھا ۔۔ اس زمانے میں ایک ہی ٹی وی چینل چلتا تھا ۔۔۔۔۔ پی ٹی وی ۔۔ مجھے یاد نہیں کلر ٹی وی اس زمانے میں آچکا تھا یا نہیں کیوں کہ میں تو بلیک اینڈ وہائٹ میں دیکھ رہا تھا ۔۔ہوسکتا ہے ڈرامہ کلر میں ہی ہو لیکن اس وقت تک ہم نے رنگیں ٹی وی نہیں لیا تھا ۔۔
گھر کے اندر سے چوکیدار نکلا اور ان سے بات کی ۔پتہ چلا کہ وہ ارد گرد کے چکوں اور دیہاتوں سے آئے تھے اور لوہار کا کام کرتے تھے یا خراد مشینوں پر کام کرنے والے تھے ۔۔ اور یہ گاؤں کے بڑے چودھری کی کی کوٹھی تھی ۔۔ ایک بڑی سی کرسی لگائی گئی اور تھوڑی دیر بعد چودھری صاحب آئے اور نہایت تمکنت سے کرسی پر بیٹھ گئے --
ایک بوڑھا اٹھا ۔۔پہلے ہاتھ جوڑے پھرچودھری صاحب کی حمد کی اور اس کے بعد کہنا شروع کیا ’ ہم آس پاس کے پنڈوں اور دیہاتوں کے لوہار اور خرادئیے ہیں ۔۔ لوگوں کے پھاوڑے ‘ بیلچے وغیرہ صحیح کر تے ہیں ۔ ٹریکٹروں کے اندر چھوٹی موٹی مرمت کا کام بھی کر دیتے ہیں ۔۔ چھوٹے موٹے پرزے بھی بنا لیتے ہیں ۔۔ اس کے لئے اپنی سمجھ کے مطابق جگاڑ اور سانچے بھی بنالئے ہیں ۔۔ بس اللہ سائیں کی مہربانی سے آپ کے سائے تلے پیٹ بھرنے کا انتظام ہو رہا ہے ۔۔ اب سنا ہے کہ آپ نے شہر میں کوئی کاروبار شروع کیا ہے ۔۔ اللہ سائیں آپ کو اور اونچا کرے ۔۔ پتہ چلا ہے کہ آپ ہمارے علاقے کے لئے دوسری قسم کے ٹریکٹر منگا رہے ہیں ۔۔ سرکار اس سے ہمارا بہت نقصان ہو گا ۔۔ ہم نے پچھلے پانچ چھ سال میں جو کام اس ٹریکٹر کا سیکھا ہے وہ بے کار ہو جائے گا ۔۔ ہم نے کئی سانچے اور جگاڑ بہت دماغ لگا کر بنائے ہیں وہ سب ضائع ہو جائیں گے ۔۔ یہ میرا پوتا ہے ۔۔۔۔ 16 سال عمر کا ۔۔ بوڑھے نے اپنے پوتے کو آگے کرتے ہوئے کہا ۔۔ اس کا والد فوت ہو چکا ہے ۔۔ ہل لگانے والے جوڑ بنانے میں مہارت حاصل کر لی ہے ۔۔ بالکل اصلی کی طرح ۔۔۔ اس کی ساری کاری گری رل جائے گی ۔۔۔ اس کی بیوہ ماں کا گزارہ اسی سے ہو رہا ہے ۔۔۔ وہ عزت سے رہ رہی ہے ۔۔ وہ بالکل تباہ ہو جائے گی ۔۔ آ پ ٹریکٹر نئی کمپنی والے نہ منگوائیں وہی پرانی کمپنی والے ٹریکٹر منگائیں ۔۔ہم دوسرے پرزے بنانا بھی سیکھ رہے ہیں ۔۔ چودھری ان کے مکالمے سنتا رہا ۔۔ اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ ظاہر ہوئی ۔۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں کمیشن کی وہ رقم جو نئی والی کمپنی اسے دے رہی تھی اس کی نظروں کے سامنے گھوم گئی ۔۔۔۔ اسے وہ دورہ بھی یاد آگیا جو نئی کمپنی والے اپنے ملک کا کروانے والے تھے ۔۔۔۔ ایک سال تک اسپیئر پارٹ مفت مہیا کر نے کا وعدہ کیا تھا جو کہ اس نے آگے مارکیٹ میں مہنگے داموں بیچنے تھے ۔۔ اس نے میٹھے لہجے میں پچھلی کمپنی کے جھوٹے سچے فراڈ بتائے جس کے سبب بقول اس کے اسے نقصان برداشت کر نا پڑا تھا ۔۔ حکومت کی پالیسی کی وضاحت غلط طریقوں سے کی جو ان ان پڑھ دیہا تیوں کی سمجھ میں نہیں آنی تھی اور نہیں آئی ۔۔ مجبوری بتاکر چودھری اٹھ گیا ۔۔ دیہا تیوں نے مایوسی سے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔ دن ابھی ڈھلا نہیں تھا لیکن انہیں ابھی سے شام کے اندھیرے پھیلتے محسوس ہو ئے ۔۔ درختوں کے سائے لمبے اور مزید لمبے ہو کر انہیں بھوت بن کر ڈراتے ہوئے لگے ۔۔ ماتھوں پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے ان اندھیروں کے سبب ان کی چمک ماند پڑ گئی ۔۔ زمین پر بچے جو سو رہے تھے انہوں نے اٹھائے انہیں سینے سے لگایا اور ناکام ہو کر واپسی کاراستہ لیا ٹی وی کا ڈرامہ یہاں ختم ہو گیا -------------------------------- باہر سے درآمد کردہ مشینوں اور ان کی ٹوٹ پھوٹ کو ٹھیک کرنا اور اپنے طور پر سوچ بچار کر کے انہیں چالو حالت میں رکھنا جب کہ مشین مہیا کر نے والا کچھ معلومات بھی نہیں دے رہا ہو ۔۔۔۔۔۔ بھی ایک فن ہے اس زمانے میں میں نے نئی نئی انجینیئرگ پاس کی تھی ان گورکھ دھندوں کا اتنا علم نہیں رکھتا تھا حالانکہ میں پاکستان آٹو موبائیل کارپوریشن کے ایک یونٹ میں ہی کام کر رہا تھا ۔۔۔ تب وہیں پر کسی نے ایسے ہی چلتے پھرتے بتایا ان معلومات کا مہیا کرنا ٹکنالوجی کا ٹرانسفر کہلاتا ہے ۔۔۔۔ اس زمانے میں گوگل وغیرہ تو تھا نہیں ورنہ گوگل صاف صاف بتاتا “ ’ ایسی سائنسی معلومات کا مہیا کرنا جو عملی طور پر کسی چیز کو بنانے میں معاون ثابت ہوں ٹرانسفر آ ف ٹکنالوجی کہلاتا ہے ‘ ٹرانسفر آف ٹکنالوجی میں تیسری دنیا کو تلخ تجربات ہی ہوئے ہیں ۔۔ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہا تیر محمد جنہوں نے اپنے ملک کو ترقی دے کر بام عروج پر پہنچایا اور بتایا کہ کم ترقی یافتہ ملک بھی چاہیں تو جہد پیہم سے اپنے ملک کو کرہ ارض پر ایک ممتاز مقام دلا سکتے ہیں - اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جاپان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹکنالوجی منتقل نہیں کرتا ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کچھ حد تک صحیح ہو لیکن دیگر مغربی ممالک تو اتنا بھی نہیں کرتے جتنا جاپان کرتا ہے ۔۔۔۔ وہ اس سلسلے میں مغربی ملکوں کے روییوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں چاہییے کہ وہ مچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنے کا کانٹا دیں ۔۔ کانٹا دیں سے ان کی مراد ’ٹکنالوجی دیں ‘ ہے ۔۔ تا کہ وہ خود مچھلی پکڑنے کے قابل ہو جائیں - اس بحث کو مزید آگے بڑھائیں تو کہہ سکتے ہیں کہ مچھلی کا کانٹا اگر نہیں دیا جا رہا تو کیا حربے استعمال کئے جائیں ۔۔۔۔ کیا داؤپیچ لگائے جائیں کہ مچھلی کا کانٹا (یعنی مختلف پرزہ جات ) خود بنا سکیں -- اس سلسلے میں مجھے بھارت میں سوزوکی گاڑی بنانے کا قصہ یاد آرہا ہے ۔ پاکستان اور بھارت میں سوزوکی کمپنی والوں نے تقریبآ ایک ساتھ ہی اپنا اسمبلی پلانٹ لگانے کا ارادہ کیا - بلکہ بھارت میں غا لباً پہلے سے گفت و شنید چل رہی تھی --لیکن پاکستان میں ان کا پلانٹ پہلے لگا اور بھارت میں بعد میں -اسے پاکستان کی کامیابی سمجھا گیا اور کچھ مقامات پر اس کی تعریف بھی کی گئی - کسی نے سوزوکی کمپنی جاپان کے مالک سے اس بابت پوچھا بھی کہ پاکستان کیوں جلدی کامیاب ہوا - اوسامو سوزوکی نے جو جواب دیا وہ مجھے تسلی بخش نہیں لگا تھا - اور ایسا ہی تھا---- ایک اور صاحب نے اس بارے میں کچھ معلومات حاصل کر نے کی کوششیں کیں اور جو معلومات حاصل ہوئیں اس زمانے کے کراچی کے ایک انگریزی اخبار میں چھاپ دیں - اس اخبار کے مطابق بھارت والوں نے کہا تھا کہ جو سوزوکی ایف ایکس (ماروتی ) گاڑی بھارت کو سپلائی کریں گے آپ اس کے ڈیزائن میں اگلے اتنے برسوں تک ( ایک خاص مدت دی گئی تھی ) بھارت کی حد تک اس کے ڈیزائن ' شکل و شباہت میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے - اور کچھ پرزوں کے بارے میں کہا کہ چاہے آپ کے ہاں اس کی پروڈکشن بند ہو جائے اور آپ بنانا بند بھی کردیں لیکن ہمیں یہ مہیا کرتے رہیں گے -- اس کے پیچھے بھارت کا یہ ارادہ کار فرما تھا کہ اس ( اس خاص مدت کے دوران میں ) بھارت خود اس کے اسپئر پارٹس بنانے کے قابل ہو جائے اور خود کفالت حاصل کر لے تا کہ اس کا سوزوکی کمپنی پر انحصار کم ہو جائے اور اس کے عوام کو اس کے پرزے بنانے کا ایک روزگار میسر آجائے -- اخبار نے پاکستان کے ایک کارخانے غالبآ ری پبلک موٹرز یا نیا دور موٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہاں پر ایک دوسری جاپانی کمپنی اسوزو جاپان کے ٹرک بنتے تھے - بڑی مشکل سے اس کا ھوڈ یا بونٹ کا سانچہ (ڈائی) ڈیزائن کر کے پاکستان میں بونٹ بنانا شروع کئے تھے کہ اسوزو جاپان والوں نے اپنے انجن کا ڈیزائن تبدیل کر دیا -اب یہ پرانا بونٹ یا ھوڈ اس نئے ٹرک پر نہیں لگ سکتا تھا ---اللہ اللہ ---خیر صلا ---پاکستان کے انجینئروں کی ساری محنت اکارت گئی -اس کے علاوہ دور دراز علاقوں میں کچھ لوگوں نے اپنے طورپر جو محنت کرکے اس کے لئے کچھ انتظامات کئے تھے وہ بھی مٹی میں مل گئے
اس سلسلے میں مجھے انجینیئر اظہار احمد صدیقی کا مضمون یاد آرہا ہے جو انہوں نے اردو ڈائجسٹ (اپریل 2004) میں لکھا تھا ٴ۔۔ وہ تیار شدہ مکان ( پری فیبری کیٹڈ مکان ) مکان بنانے کے مختلف سامان مثلاً شہتیر ‘ چھتیں ‘ دیواریں بنانے میں ایک مقام رکھتے تھے ۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹکنالوجی کو ترقی دینا ملک کے لئے منافع بخش کام ہے ۔۔ جن ممالک کو مشینیں اور اس کے پرزے درآمد کرنے کی عادت ہے وہ گھاٹے میں رہتے ہیں ۔۔ وہ کہتے ہیں کہ باہر سے مشینیں منگاؤتو ہمیشہ ایک نئی اختراع (یعنی ڈیزائن ) کے ساتھ آتی ہیں ۔۔ اور ہمارے انجینیئروں کی تمام کوششوں پر جو پرزے بنانے کے بارے میں کی ہوتی ہیں پانی پھیر دیتی ہیں ٴ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مشینوں کو بھی یہاں بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ پاکستان کے لوگ نئی نئی باتوں کو سیکھیں ۔۔ میں ان کی رائے سے متفق ہوں لیکن یہ رائے ہیوی ڈیوٹی مشینوں ( جیسے اسٹیل مل ) پر منطبق نہیں کر سکتے -- ------------------------------ اس کالم کو لکھنے کا محرک دو خبریں ہیں جو بھارت اور پاکستان کے یوم آزادی کے ناطے سےاخبارات میں چھپی تھیں ۔۔ پہلے بھارت سے خبر آئی کہ وہاں پر یوم آزادی کے موقع پر ایک نئی گاڑی منظر عام پر لائی جا رہی ہے جو الیکٹرک یعنی بجلی سے چلتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی تصاویر بھی چھپیں -- پاکستان کے سوشل میڈیا پر طرح طرح کے طنزیہ تبصرے آنے لگے کہ وہ یوم آزادی پر نئی گاڑی پیش کرتا ہے اور ہمارا ملک نیا ترانہ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب دیکھ کر پاکستان میں اس گاڑی کے منصوبے پر کام کر نے والوں نے بھی اس سلسلے میں جلدی جلدی خبر چلادی کہ پاکستان بھی ایک بجلی کی گاڑی بنا چکا ہے اور اسے یوم آزادی پر پیش کی جائے گی ۔۔ اور پاکستان نے بھی ایک گاڑی نمائش کے لئے پیش کردی ۔۔۔۔ پاکستانی گاڑی کی بیٹری این ای ڈی انجینیرنگ یونیورسٹی کالج کے تعاون سے بنائی گئی ہے اور اس کا چارجر بنانے میں سر سید انجینیئرنگ یونیورسٹی کے طلباء نے مدد کی ہے ۔۔ بڑی خوش آئند بات ہے ۔۔ مجھے ان یونیورسٹیوں پر فخر ہے اور اعتماد بھی ہے ۔۔ ایک بات حیرت کی یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اس حالت میں ہیں کہ اسے فوری طور پر مارکیٹ میں نہیں لا سکتے اور دونوں نے دو سال کی مدت مانگی ہے ۔۔
لیکن ان باتوں سے قطع نظرمیرا سوال وہی ہے کہ آیا ہم نے اس کی ٹکنا لوجی پر بھی عبور حاصل کرلیا ہے یا نہیں ۔ ؟ اگر نہیں تو کیا اقدامات کئے جارہے ہیں ؟ ٹی وی کا وہ ڈرامہ بھی اختتام کو پہنچا تھا ۔۔۔ اب یہ کالم بھی اختتام کو پہنچ رہا ہے ۔۔ لیکن ان لوہاروں ، ویلڈروں اور خراد مشین پر کام کرنے والوں کی لمبی قطار اب بھی سامنے جاتی نظر آرہی ہے |