ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی مکمل بحالی۰۰۰ فلسطینیوں کیلئے فائدہ مند ترکیہ!

ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان گذشتہ کئی سال سے جاری کشیدہ تعلقات کے بعد دونوں ممالک نے اپنے سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپڈ نے اس سفارتی پیشرفت کو ’علاقائی استحکام کیلئے ایک اہم اثاثہ اور اسرائیل کے شہریوں کیلئے انتہائی اہم اقتصادی خبر‘ قرار دیا ہے۔بتایا جاتا ہیکہ یائر لاپڈ کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہیکہ سفارتی پیشرفت کے نتیجے میں دونوں ممالک میں ایک بار پھر سفیر اور قونصل جنرلز تعینات کیے جائیں گے۔یہ اعلان اعلیٰ حکام کے باہمی دوروں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے کئی مہینوں کی دو طرفہ کوششوں کے بعد کیا گیا ہے۔ترک وزیر خارجہ مولود جاؤش اوغلو نے کہا کہ سفیروں کی واپسی 'دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اہم ہے لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کو انقرہ کے ’فلسطینی کاز سے دستبردار ہونے‘ سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے۔رواں سال مئی میں جاؤش اوغلو 15 برسوں میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ترک وزیر خارجہ بن گئے، اس دورے کے دوران انہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی قیادت سے بھی ملاقات کی۔واضح رہیکہ دو ماہ قبل اسرائیلی صدر آئزیک ہرزوگ نے انقرہ کے تاریخی دورے کے دوران صدر ترک رجب طیب اردغان سے ملاقات کی تھی اس سلسلہ میں وزیر خارجہ اوغلو کا کہنا ہیکہ دونوں کی ملاقات ’’ہمارے تعلقات میں ایک اہم موڑ‘‘ ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں 2008 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے بعد تناؤ شروع ہوا تھا۔بعدازاں 2010 میں غزہ میں امداد لے کر ناکہ بندی کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کرنے والے ترکیہ کے بحری جہاز پر اسرائیلی حملے میں 10 شہریوں کی ہلاکت کے بعد تعلقات منجمد ہو گئے۔سال 2016 سے 2018 تک ایک مختصر مفاہمت جاری رہی، جب فلسطینیوں کے قتل پر ایک بار پھر سفیروں کو واپس بلا لیا گیا۔سال 2018 سے 2019 تک غزہ کے 200 سے زائد شہریوں کو اسرائیلی فورسز نے سرحدی احتجاج کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔بتایا جاتا ہیکہ دونوں ممالک کے درمیان جولائی 2021 میں آئزیک ہرزوگ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے عوامی سطح پر مفاہمت شروع ہوئی۔اسرائیلی صدر نے کہا کہ تعلقات کی مکمل تجدید سے ’عظیم تر اقتصادی تعلقات، باہمی سیاحت اور اسرائیلی اور ترک عوام کے درمیان دوستی کو فروغ ملے گا‘۔تاہم دونوں کے مابین حالیہ برسوں میں سفارتی اختلافات کے باوجود تجارت جاری تھی اور ترکیہ اسرائیلی سیاحوں کیلئے ایک مقبول مقام بنا ہوا رہا۔ ترکیہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پر آنے سے فلسطینیوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ جاؤش اوغلو نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے، ہم فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع جاری رکھیں گے۔مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات کے ساتھ ساتھ، ترکیہ نے غزہ پر حکومت کرنے والے اسلامی گروپ حماس کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ سیکیورٹی کے صدر ایفرائیم انبار نے کہا کہ مبصرین کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ دو طرفہ تعلقات اتنے ہی اچھے ہونگے جتنے وہ نوے کی دہائی میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک رجب طیب اردغان اقتدار میں ہیں ان کے اسلامی روابط کی وجہ سے ترکیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ایک خاص حد تک دشمنی رہے گی، مثال کے طور پر وہ حماس کی حمایت جاری رکھیں گے۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے 2007 سے غزہ کے 23 لاکھ باشندوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔اس طرح اب دیکھنا ہیکہ ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں مکمل بحالی سے فلسطینی عوام کوواقعی فائدہ ہوگا یا نہیں۰۰۰

فلسطینی صدر کے ریمارکس پر جرمن اور اسرائیل چراغ پا
اصلیت کا چہرہ دکھانے پر جرمن چانسلر اولاف شیولز فلسطینی صدر محمود عباس سے ناراض ہوگئے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمن چانسلر اولاف شیولز نے چہارشنبہ 17؍ اگست کو فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے ہولوکاسٹ کے بارے میں دیئے گئے ریمارکس پر ناگواری اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ ہولوکاسٹ کی اہمیت کم ہو گئی ہے جب کہ اسرائیل نے فلسطینی صدر محمود عباس پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے غلط بات کی ہے۔جرمن چانسلر نے چہارشنبہ کو ٹویٹ کیا کہ خاص طور پر ہم جرمنوں کیلئے ہولوکاسٹ پر بیان ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے اور میں فلسطینی صدرمحمود عباس کے انتہائی سخت ریمارکس کو ناپسند کرتا ہوں۔برلن کے دورے کے موقع پر محمود عباس نے فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے 1972 کے میونخ اولمپکس میں اسرائیلی ٹیم پر حملے کی 50ویں برسی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اسرائیل پر '50 ہولوکاسٹ' کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا ۔دوسری جانب اسرائیل کے وزیراعظم یائر لیپڈ نے بھی ان تبصروں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بے عزتی‘ قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ نازی جرمنی کے ہولوکاسٹ میں ساٹھ لاکھ یہودی مارے گئے تھے۔ہولو کاسٹ ایک منظم ، سرکاری سرپرستی میں ہونے والا ظلم اور قتلِ عام تھا جسمیں نازی جرمن حکومت اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں کی جانب سے چھ ملین (60لاکھ) یورپی یہودیوں کو ہلاک کیا گیا۔ ہولوکاسٹ ایک ارتقائی عمل تھا جو 1933اور1945ء کے دوران پورے یورپ میں واقع ہوا تھا۔ ہولوکاسٹ کی بنیادی وجہ یہود دشمنی تھی یعنی یہودیوں کے خلاف نفرت یا تعصب، نازی نظریہ کا بنیادی اصلو تھا۔ یہ تعصب بھی پورے یورپ میں پھیل چکا تھا۔ اسی کے حوالے سے فلسطینی صدر محمود عباس نے جرمن چانسلر کے ساتھ کھڑے ہو کر تاریخی واقعات کی ایک سیریز کا حوالہ دیا جن میں1948 کی جنگ میں فلسطینیوں کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں قتل کیا گیا تھا۔فلسطینی صدر نے کہا کہ1947 سے لے کر آج تک اسرائیل نے فلسطینی دیہات اور شہروں دیر یاسین، طنطورہ، کفر قاسم اور بہت سے دیگر علاقوں میں 50 قتل عام،50 ہولوکاسٹ کیے ہیں۔جرمن اور اسرائیل کی جانب سے ناراضگی کے اظہار کے بعد فلسطینی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ قابض قوت روزانہ اور مسلسل بنیادوں پر ان جرائم کے ارتکاب سے مطمئن نہیں لیکن وہ ایسی کسی بھی بات یا بیان کو بھی برداشت نہیں کرتی اور اسے مسترد کرتی ہے جو اسرائیلیوں اورعالمی برادری کو ان کے جرائم کی یاد دلاتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ محمود عباس کا یہ تبصرہ اسرائیل کی جانب سے رواں ماہ غزہ کے علاقے میں فضائی حملوں کے دوران 49 فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا ہے۔

پاکستانی فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کو یو اے ای کا دوسرا اعلیٰ ترین اعزاز
متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانی فوجی سربراہجنرل قمر جاوید باجوہ کومتحدہ عرب امارات کا دوسرا اعلیٰ ترین اعزاز "آرڈر آف دی یونین " سے نوازا گیا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جو متحدہ عرب امارات کے سرکاری دورے پر پہنچے جہاں انکا استقبال یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے کیا،ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر یو اے ای اور پاکستانی فوجی سربراہ کے درمیان ملاقات کے دوران باہمی مفادات کیلئے دفاع کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون اور مشترکہ کارروائی پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ دونوں ممالک کے مابین دیرینہ تعلقات کو مختلف سطحوں پر مستحکم کرنے کے بارے میں باہمی دلچسپی کا اعادہ کیا گیا۔ اس موقع پر قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ یہ اعزاز دونوں ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات کی مضبوطی کا عکاس ہے۔

کابل کی مسجد میں دھماکہ ۰۰۰ افغان میں دوبارہ خوف و ہراس کا ماحول
افغانستان میں پھر سے خوف و ہراس کا ماحول گرم ہونے لگا ہے ۔ ملک کے دارالحکومت کابل میں چہارشنبہ کی رات مسجد میں نماز کے دوران ہونے والے دھماکے میں کم از کم 21افراد ہلاک اور 27زخمی بتائے جارہے ہیں۔ زخمیوں میں پانچ بچے بھی شامل ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ ہلاکتوں کی زیادہ بھی ہوسکتی ہے جبکہ طالبان کے ایک انٹیلی جنس اہلکار نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ہلاکتیں 35کے قریب ہوسکتی ہیں۔ فوری طور پر کسی نے بھی دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔واضح رہے کہ یہ دھماکہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے ایک سال مکمل ہونے کے بعد ہوا ہے۔ طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہاکہ ’’امارت اسلامی افغانستان کابل کی مسجد میں بم دھماکے کی مذمت کرتی ہے‘‘۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے جرائم میں ملوث اور عام افراد کے قتل کے مجرموں کو جلد گرفتار کرکے سزا دی جائے گا۔ اس حملے سے ایک ہفتہ قبل افغان طالبان کی قریبی مذہبی شخصیت شیخ رحیم اﷲ حقانی کو کابل میں ایک حملہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا تھا۔ جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش کی خراسان شاخ نے قبول کی تھی۔اس طرح دو ہفتوں کے دوران کابل میں کئے گئے دھماکوں کی وجہ سے عوام میں پھر سے ایک مرتبہ دہشت کا ماحول بننے لگا ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ طالبان حکومت کس طرح شدت پسند تنظیم داعش اور دیگر دہشت گردوں سے نمٹتی ہے۔

لبنان میں اسقاط حمل سے انکار پر بیوی جلادی گئی
لبنان میں ظالم شوہر نے اپنی پانچ ماہ کی حاملہ بیوی 21سالہ حنا کو زندہ جلاکر شہید کردیا۔ بتایا جاتا ہیکہ حنا کے شوہر نے انہیں اسقاط حمل کروانے پر زور د ے رہا تھا ، دوران بحث شوہر نے حنا پر تشدد کرکے آگ لگادی ، جنہیں شدید زخمی حالت میں6؍ اگست کو ہاسپتل منتقل کیا گیا تھا جو چہارشنبہ کو علاج کے دوران انتقال کرگئی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق حنا محمد کے شوہر نے ان کو گھر کے گیس سلینڈر سے آگ لگائی تھی جس کے بعد ان کا پورا جسم جل گیا تھا۔واضح رہیکہ لبنان میں شدید معاشی بحران ہے اور اسی کا نتیجہ بتایا جارہا ہے کہ حنا کے شوہر نے جو بچے کی پیدائش کے حق میں نہیں تھااپنی زوجہ کو شدید زخمی کرکے آگ لگادی۔حنا محمد السلام ہاسپتل میں شریک تھی اس وقت ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ’حنا محمد اس وقت آئی سی یو میں زندگی اور موت کی کشمکش سے گزر رہی ہیں۔ جب واقعہ ہوا تو وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھی۔ ان کا بچہ مر چکا ہے اور ہم ان کا آپریشن کر رہے ہیں۔ ان کے بچنے کے چانسز بہت کم ہیں‘۔ آخر کار 17؍ اگست کو موت و زیست کی حالت میں رہنے والی حنا محمد اپنے خالق حقیقی سے جاملی۰۰۰

غسل کعبہ کی رسم میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اور اسلامی ممالک کے سفارکاروں کی شرکت
مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں غسل کعبہ کی سالانہ رسم پیر کے روز ادا کی گئی جس میں اسلامی ممالک کے سفارتکاروں نے شرکت کی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ا سپیشل ایمرجنسی فورس غسل کعبہ کی رسم کے موقع پر تعینات کی گئی تھی۔ حرمین شریفین انتظامیہ کے سربراہ اعلی ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس، علما، شاہی خاندان کے افراد اور منتخب شخصیات نے غسل کعبہ کی سعادت حاصل کی۔ غسل کعبہ عرق گلاب اور اعلی درجے کے عود سے معطر آب زمزم سے دیا گیا۔ کعبہ کی اندرونی دیواروں کو کپڑے سے صاف کیا گیا۔واضح رہے کہ غسل کعبہ کی رسم میں 45 لٹر آب زمزم استعمال کیا جاتا ہے جبکہ طائف کے گلاب کا عرق 50 تولہ اور اعلی درجے کا عود آب زمزم میں ملاکر استعمال کیا جاتا ہے۔مسجد الحرام میں صفائی کے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق غسل کعبہ میں استعمال ہونے والی تمام اشیا پر چاندی کی پرت چڑھی ہوتی ہے۔ اس کام کیلئے چاندی کے داندانوں والی 4 جھاڑو استعمال ہوتی ہیں۔ غسل کعبہ سے قبل جھاڑو سے خانہ کعبہ کی گرد صاف کی جاتی ہے۔غسل کعبہ کی تقریب میں ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی شرکت کی اور خانہ کعبہ کو غسل دیا ہے۔عرب نیوز کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان نے غسل کعبہ کی سالانہ رسم سے قبل طواف کیا اور دعا کی۔ان کے ساتھ سعودی وزیرا سپورٹس شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل بھی تھے۔ان کا استقبال حرمین شریفین انتظامیہ کے سربراہ اعلٰی ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس نے کیا۔

 
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.