جنید اکمل کے نام

زندگی سے بھرپور بارہ تیرہ سال کا بچہ جسے ہر چیز میں تفریح چاہئے ہوتی تھی ۔ شرارتی ، من موجی سا ، پر با ادب بچہ ۔ جس نے اپنی شرارتوں سے ٹیچرز کی ناک میں دم کر رکھا تھا پر اس کی کوئی بھی شرارت بدتمیزی کے زمرے میں نہیں آتی تھی ۔ اس کی شرارت سے بھرپور آنکھوں سے تربیت جھلکتی تھی۔ ذہانت اس کی باتوں اور شرارتوں میں نظر آتی تھی ۔ پر وہ اس ذہانت کو رٹے لگانے پر ضائع کرنے کا قائل نہیں تھا۔ بس پاسنگ نمبر اس کے لیے بہت کافی تھے ۔ ہم جماعت دوستوں کا دوست اور جن سے اختلاف ہو جا ئےان کو خوب ٹف ٹائم دینے وال جنید اکمل۔

یہ کہانی ہے 2015 سے لے کر 2019 کی جب میں ایک نجی تعلیمی ادارے انتظامی امور سر انجام دے رہی تھی ۔ جنید کا داخلہ میں نے ہی کیا تھا ۔ وہ اندرونی پنجاب کے کسی شہر سے اسلام آباد شفٹ ہوا تھا ۔ اس وقت وہ سات یا آٹھ سال کا ہو گا ۔ اس کی شخصیت میں کچھ تو خاص تھا ۔ پہلی نظر میں وہ مجھے بہت سنجیدہ ، اپنے آپ میں مگن اور سب سے لا تعلق سا لگا ۔ پر بعد میں معلوم ہو ا کہ وہ شرارتوں کو ایٹم بم تھا ۔ اور شرارتیں بھی ایسی جو کیسی عام بندے کے دماغ میں نہیں آ سکتی تھیں ۔ دورانِ کلاس وہ ٹیچر سے اچانک ایسے سوال کر لیتا کہ وہ حیران رہ جاتیں ۔ اپنی تمام تر شرارتوں کے باوجود جنید سکول کے لاڈلے بچوں میں شامل تھا ۔

پھر میں نے کچھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے مئی 2019 میں نے وہ جاب چھوڑ دی ۔

میرے جاب چھوڑنے کے دو سال بعد اچانک ایک دن مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جنید کو دماغ کا ٹیومر ہے اور آج اس کا آپریشن ہے ۔ اس کے لیے دعا کریں ۔ میں شاک میں رہ گئی۔ میرے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ جنید بیمار تھا وہ بھی اتنی مہلک بیماری میں ۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ جنید اکثر اپنے والدین سے شکایت کرتا کہ مجھے آنکھوں میں درد ہے ۔ مجھے لفظ الٹے نظر آتے ہیں ۔ایک دو بار مختلف ڈاکٹروں کے پاس لے کر کئے اور ہر بار ڈاکٹر نے کہا یہ بالکل ٹھیک ہے ۔ پھر وہ چلتے چلتے اچانک گر جاتا ۔ ایسا کافی بار ہوا۔ پھر شاید ڈاکٹروں نے سنجیدہ لیا اور کافی جانچ کے بعد معلوم ہوا اس کے برین میں ٹیومر ہے ۔ اسے آپریشن کی ضرورت ہے ۔

والدین کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی ۔ آج وہ بچہ آپریشن کے تقریباً ایک سال سے زیادہ وقت کے بعد بھی سے اٹک اٹک کر بات کرتا ہے ، واکر کے سہارے چلتا ہے ۔ اس کے والد کے مطابق وہ کھانا کھانے کے لیے چمچ ٹھیک سے نہیں پکڑ سکتا ۔ آپریشن کے بعد اس کی آنکھوں کے رخ میں بھی فرق پڑ گیا ہے ۔

وہ زندگی سے بھرپور بچہ جس نے ابھی زندگی کا مطلب بھی نہیں سمجھا تھا ۔ قسمت نے اس کے نصیب میں اتنی بڑی آزمائش لکھ دی۔ اس کے بارے میں لکھتے ہوئے میں خود کو بے بس محسوس کر رہی ہوں ۔ نہیں معلوم اسے اس حال میں دیکھ کر اس کے ماں باپ کا کیا حال ہوتا ہو گا ۔ اور وہ معصوم جو اس زندگی کو جی رہا ہے اس پر کیا گزرتی ہو گی ۔

ربِ باری تعالٰی سے دعا ہے کہ جنید اکمل کی مشکل آسان کرے ۔ اپنے حبیب کے صدقے اس کی زندگی کو پھر سے روشنیوں اور رنگوں سے بھر د ے ۔ اے ربِ کریم رحم فرما ، کرم فرما اپنے اس معصوم بندے کو اپنی رحمت سے مالا مال کر دے ۔ آمین۔ ثم آمین
 

Maryam Sehar
About the Author: Maryam Sehar Read More Articles by Maryam Sehar : 48 Articles with 58844 views میں ایک عام سی گھریلو عورت ہوں ۔ معلوم نہیں میرے لکھے ہوے کو پڑھ کر کسی کو اچھا لگتا ہے یا نہیں ۔ پر اپنے ہی لکھے ہوئے کو میں بار بار پڑھتی ہوں اور کو.. View More