میں نے جہاز کا پہلا سفر 20 فروری 1997 کو سعودی ائیر
لائنز سے کراچی سے ریاض کا کیا تھا۔ اور اس کے بعد سے 25 یا 26 مرتبہ بین
الاقوامی پروازوں میں سوار ہونے کا موقع ملتا رہا۔ اندرون ملک پروازوں میں
سفر اس کے علاوہ ہیں۔ مگر ہر مرتبہ ائیر پورٹ پر پہنچ کر ایک ہول سوار
ہوجاتی (دہشت طاری ہوجاتی) ہے۔بین الاقوامی سفر کی ساری خوشیاں ائیرپورٹ
پہنچ کر غائب ہوجاتی ہیں۔ ائیر پورٹ پر سب سے بُری چیز سیکورٹی چیکنگ ہوتی
ہے۔ سیکورٹی اور امیگریشن افسران کا کرخت اور روکھا انداز بہت برا لگتا
ہے۔سعودی عرب میں زمانہ طالب علمی کےدوران ریاض ائیرپورٹ پر سال میں دو
مرتبہ کرخت اور بدتمیز سعودی سیکورٹی اہلکاروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اور
آٹھ سال یہ مشکل مراحل طے کرنے پڑتے رہے۔ یہی معاملہ کراچی ائیرپور ٹ پر
بھی ہوتا تھا۔البتہ میں نے ملائشیا اور جاپان کے ائیرپورٹ کے سیکورٹی
اہلکاروں کو بہت مؤدب اور مہذب پایا۔ وہ بہت ادب سے بات کرتے ہیں۔ میرے لیے
لاہور ائیر پورٹ پر پہلا وحشت طاری کرنے والا مرحلہ بیرون ملک روانگی کے
گیٹ پر تفیتیش تھی۔ سیکورٹی افسر ٹکٹ اور پاسپورٹ چیک کرتا ہے اور اگر چاہے
تو وہی پر روک بھی سکتا ہے۔ وہ کسی مسافر کے ساتھ بدتمیزی بھی کر سکتا ہے۔
سیکورٹی اہل کار سے بخیر خوبی گزر جانے کے بعد دوسرا مرحلہ سامان کا معائنہ
ہوتا ہے۔ فوجی لباس میں ملبوس سول ایوی ایشن کے افسران جس کو چاہتے ہیں ،
اس کا سامان کھلوادیتے ہیں۔ میرےکپڑے اور دیگر سفری ضرورت کا سامان اتنی
محنت سے تہ کرکے رکھے بیگم نے رکھا ہوتا ہے ۔ ان کو وہ بڑی بدتمیزی سے الٹ
پلٹ کر دیتے ہیں۔ یہ افسران سامان چیک کرنے سے پہلے مسافر کے چہرے کو پڑھتے
ہیں، اگر مسافر" میری طرح" گھبرایا ہوا ہو، تو اس کا سامان کھلوا لیتے ہیں۔
ان کے ایک ہاتھ میں مسافر کا پاسپورٹ ہوتا ہے اور جبکہ نظریں مسافر کےچہرے
پر ہوتی ہیں۔ اگر تو پاسپورٹ ویزوں سے بھرا ہوا ہو تو وہ مسافر کے رعب میں
آجاتا ہے۔ اور اگر ویزوں سے خالی ہو یا چند ایک ویزے لگے ہوئے ہیں تو وہ
مسافر پر اپنا رعب ڈالنے کی کوشش میں کامیاب ہوجاتا ہے۔سیکورٹی افسر نے سب
سے پہلا سوال بڑے رعب دار انداز میں یہ داغا کہ " کہا ں جارہے ہیں؟ میں نے
کہا: جاپان، دوم ، پہلی دفعہ جارہے ہیں؟ میرے اثبات میں جواب دینے پر مجھے
سامان چیک کروانے کو کہا گیا ۔ اس کے برعکس جاپان سے واپس آتے ہوئے اور اس
سے پہلے ملائشیا سے واپس آتے ہوئے ، ان مراحل سے اُن ائیرپورٹس پر بالکل
گزرنا نہیں پڑا۔ شاید وہاں امن و امان کی حالت پاکستان سے بہت بہتر ہے۔ اسی
لیے پاکستان کے تمام ائیرپورٹ پر مسافروں کو اس کوفت سے گزرنا نہیں پڑتا۔
میرا سفری بیگ کھلوایا گیا اور میری طرح کئی لوگوں کے سفری بیگ کھلوائے
جارہے تھے ۔الغرض میرا سامان کھلوایا گیا ۔ جب ان کو اس میں کوئی مشکوک چیز
نہیں ملی تو انہوں نے مجھے آگے جانے دیا۔ میری جان میں جان آئی۔ لیکن سامان
کی وہ ترتیب پھر دوبارہ نہ بن سکی جو بیگم صاحبہ نے بڑی شائستگی اور محنت
سے دی تھی۔
تیسرا مرحلہ بہت آسان تھا۔کیونکہ اس میں واسطہ عام لوگوں سے تھا۔ کسی فوجی
افسر سے پالا نہیں پڑنا تھا۔ مجھے اپنے سامان کو پلاسٹک کی باریک پرت میں
لپٹوانا (plastic wrapping)تھا۔ فی نگ 240روپے کا یہ ایک فالتو کا خرچہ ہے۔
لیکن سامان محفوظ ہوجاتا ہے۔ اُس وقت تو میرے پاس دو ہی نگ تھے ، ایک میرے
لیپ ٹاپ کا بیگ اور دوسرا میرا سفری بیگ۔ سفری بیگ زپ والا تھا۔ اسے محفوظ
کرنا ضروری تھا۔ اس لیے اس کو پلاسٹک کی باریک پرتوں میں لپیٹ دیا گیا۔جس
سے وہ محفوظ ہوگیا۔ اب پلاسٹک ریپنگ دنیا کے اکثر ائیرپورٹس پر لازمی کر دی
گئی ہے۔ البتہ واپسی کے سفر میں جاپان میں یہ کام کرنا اختیاری تھا۔
چوتھا مرحلہ اپنا بورڈنگ پاس حاصل کرنے کا تھا۔ یہ مرحلہ بھی تسلی بخش
انداز میں ہوگیا۔ یہاں بھی سامنا فوجی افسران سے نہیں ہوا۔ ایک بہت بڑے
مستطیلی طرز کے ہال میں مختلف ائیر لائنز کے کاؤنٹر بنے ہوئے تھے۔ میں اپنا
سامان ٹرالی پر لادھ کر بورڈنگ پاس حاصل کرنے کے لیے اتحاد ائیر ویز کے
کاؤنٹر پر گیا۔ اتحاد ائیرلائینز کے مؤدب افسران مسافروں کی مدد کرنے کے
لیے تیار تھے۔ وہ مسافروں کے بیگوں کا وزن کرکے ان کو بورڈنگ پاس جاری کر
رہے تھے۔ وہ مسافروں کو عموما تنگ نہیں کرتے ہیں۔ صرف مسئلہ اس وقت ہوتا ہے
جب سامان کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہو۔ جاپان سے واپسی پر نریتا ائیرپورٹ
(Narita Airport) پر سامان کے وزن کو چیک کرنے اور سامان کھول کر دوبارہ سے
ترتیب دینے کے لیے مخصو ص جگہیں بنی ہوئی تھیں۔ اِس سفر میں ایک چیز میرے
لیے حیران کن تھی۔ کاؤنٹر پر بیٹھے افسر نے مجھ سے میرے ٹکٹ کی کاپی مانگی
، نہ ہی پی این آر (PNR) پوچھا۔ بلکہ اس نے میرے پاسپورٹ کی معلومات اپنے
کمپیوٹر میں ڈال کرمیرے لیے دو بورڈنگ پاس جاری کردیے۔ اب مسافر کی ساری
معلومات اس کے پاسپورٹ نمبر کے تحت ائیر لائنز کے پاس آجاتی ہیں۔ میرا پہلا
بورڈنگ پاس لاہور سے ابوظبی تک کا تھا اور دوسرا بورڈنگ پاس دبئی سے نریتا
ائیرپورٹ تک کا تھا۔ نریتا ائیرپورٹ ٹوکیو سے 77 کلومیٹر کی مسافت پر واقع
ہے۔ ٹرین میں تقریبا ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔
بورڈنگ پاس حاصل کرنے کے بعد آخری اور سب سے مشکل مرحلہ امیگریشن کاؤنٹر پر
پاسپورٹ پر "خارج شد" (exit) کی مہر لگوانا تھا۔ لیکن یہاں بھی فوجی لباس
میں ملبوس ایمیگریشن افسر پاسپورٹ سے زیادہ چہرے کو پڑھ رہا ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ سوڈان جاتے ہوئے امیگریشن افسر نے مجھے اور میرے رفیق کار
مجیب اللہ ترین صاحب کو روک لیا تھا۔ وہ کسی رشوت کا طالب تھا۔ لیکن جب اسے
ہم سے کچھ نہ ملا تو اس نے ہمیں جانے دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے ایک امیگرشن
آفیسر نے ہمارے پاسپورٹ پر ایگزٹ کی مہر ثبت کی اور ہم بورڈنگ لاؤنج کی
جانب جانے لگے تو دوسرے افسر نے کاؤنٹر چیک کےلیے ہمیں روک لیا۔ ہم دونوں
ہی سادہ لوح اور سادہ شکلوں کے مالک تھے ۔
لاہور ائیر پر اگرچہ امیگر شن آفیسر نے مجھے کچھ تفتیش کے بعد آگے جانے کی
اجازت دے دی۔ البتہ اس نے ایک تفتیشی سوال پوچھ لیا، " آپ جاپان کیا کرنے
جارہے ہیں؟" میرے جواب سےجب اُسے تسلی نہیں ہوئی ۔ اس نے اس کے ثبوت کے لیے
مجھ سے میرے دفتر سے چھٹی کی درخواست کی نقل مانگ لی۔ جو اتفاق سے میرے
موبائل میں موجود تھی ۔ میری عادت ہے کہ میں ہر قیمتی کاغذ کی اسکین کاپی
محفوظ کر لیتا ہوں۔ میں نے اسے اپنے موبائل پر چھٹی کی وہ درخواست دکھائی
تو اسے تسلی ہوئی گئ اور اس نے میرے پاسپورٹ پر ملک سے باہر جانے کی مہر
ثبت کردی ۔ اس موقعے پر مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی بڑی مشکل سے نجات پا
گیا ہوں۔ اب میری روح اور بدن میں بین الاقوامی سفر کےخوشی کے احساسات لوٹ
آئے جو اس چار مراحل کے دوران فوچکر ہ ہوگئے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ
میں پاکستان سے باہر آچکا ہوں۔ ،میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر رہا تھا۔ اب
مجھ میں اعتماد پیدا ہوگیا تھا کہ میں فخر سے اپنے دوست احباب کو مطلع کر
سکوں کہ میں جاپان جارہا ہوں۔ اس سے پہلے تک ایک ڈر اور ایک خوف طاری تھا
کہ ایسانہ ہو، یہ سیکورٹی اور امیگریشن کے افسران مجھے جاپان جانے سے روک
نہ دیں۔ اب میں نے بورڈنگ لاؤنج میں بیٹھ کر گھر والوں سے رابطہ کیا ۔
دوستوں اور احباب کو اپنے سفر کی اطلاع کی ۔ جاپان میں موجود میزبان کو
اطلاع دی کہ میرا سفر شروع ہوگیا ہے۔ اب جاپان جانے کا بھرپور احساس ہونے
لگا کہ میں فی الواقع جاپان جارہا ہوں۔ رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے۔ مجھے شدید
نیند آرہی تھی۔ جہاز میں سوار ہونے میں دو گھنٹے باقی تھے۔ میں کرسی پر
بیٹھا بیٹھا اونگنے لگا ۔ کچھ لوگوں کے لیے رات کو جاگنا مشکل کام نہیں ہے۔
لیکن میں دس بجے کے بعد جاگ نہیں سکتا اور نیند کی گہری وادیوں میں چلا
جاتا ہوں۔البتہ سفر کے اوقات کو تبدیل کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا۔ لوگ
مجھے اونگتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ میری گردن بار بار دائیں بائیں جھک رہی تھی۔
اب مجھے سمجھ آئی کہ کچھ مرد و خواتین نے اپنی گردنوں میں نیم چھلے نما نرم
و ملائم پہیا(foldable u shape pillow) کیوں ڈال رکھا ہے۔ اس موقع پر نیند
پر قابو پانا میرے اختیا میں نہیں رہا ۔ سعودی عرب میں امتحانات کے دنوںمیں
لڑکے رات بھر جاگ کر امتحان کی تیاری کرتے تھے اور میں جلد ی سو جایا کرتا
تھا اور تہجد میں اٹھ کر امتحان کی تیاری کرتا تھا۔عموما مجھے دن کا سفر
پسند ہے ۔ رات کے سفر میں کمر گردن سیدھی نہ رکھ سکنے کی وجہ سے بہت زیادہ
بے آرامی ہوتی ہے۔ ساڑھے تین بجے جہاز میں سوار ہونے کا اعلان ہوا تو میری
آنکھ کھل گئی۔
|