ساڑھے تین بجے لاہور ائیر پورٹ پر جہاز میں سوار ہونے کا
اعلان ہوا۔ میں اس وقت اپنی کرسی پر بیٹھا اونگ رہا تھا۔ شدید نیند کی وجہ
سے ایک ایسی کرسی تلاش کر نی پڑی جہاں میں کچھ دیر کے لیے اپنی کمر سیدھی
کر سکوں لیکن ائیرکنڈشن کی ٹھنڈک کی وجہ سے میں کروٹیں بدلتا رہا ۔ دوم، یہ
ڈر بھی تھا کہ اگر سوتا ہی رہ گیا تو پرواز میں بھی چھوٹ سکتی ہے۔کچھ دیر
کے لیے کمر سیدھی تو کر لی مگراس دوران یہ خدشہ مسلسل مجھے جگاتا رہا کہ
پرواز چھوٹ نہ جائے ۔ بالآخر اسی ڈر کی وجہ سے مجھے واپس اپنے گیٹ کے قریب
انتظار گا ہ میں آنا پڑا۔ لیکن اونگنے کا سلسلہ جاری رہا ۔
دنیا میں مختلف صلاحیتوں کے لوگ پائے جاتے ہیں کچھ لو گ الوؤں(night owl)
کی طرح رات کو جاگنےکی صلاحیت رکھتے ہیں اور کچھ دیگر پرندوں کی طرح جلدی
سوجاتے ہیں اور فجر سے قبل اٹھ جاتے ہیں۔ میں بھی رات کو جلدی سوجانے والے
اور صبح سویرےاٹھنے والے پرندوں(early bird) کی طر ح ہوں ۔ الغرض اعلان سن
کر میں ا ب میں کمر سیدھی کر کے بیٹھا ہی تھا کہ جہاز میں سوار ہونے کے لیے
مرد وخواتین کی ایک بہت طویل قطار گیٹ نمبر 21 کے سامنے بن چکی تھی۔ ایسا
محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ان کی پرواز جھوٹ جائے گی۔ یہ جلد بازی اور بے
صبری پاکستانی عوام و خواص میں پائی جاتی ہے۔ یہی معاملہ جہاز سے اترتے وقت
ہوتا ہے۔ ابھی جہاز رن وے پر اترنے کے بعد اپنے مطلوبہ گیٹ کی طرف آہستہ
آہستہ چل رہا ہوتا ہے، تو پاکستانی مسافر اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
حالانکہ جہاز کی میزبان بار بار اعلان کر کے انہیں اپنی اپنی نشستوں پر
بیٹھے رہنے کی تلقین کرتی رہتی ہے جب تک جہا ز مکمل طور پر رُک نہ جائے ،
ان ہدایات پر میں نے غیرملکی مسافروں کو تو عمل کرتے ہوئے دیکھا لیکن
پاکستانی مسافروں نے ان ہدایات کو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔
جدید بورڈنگ پاس کا جدید نظام
الغرض اب وقت ہوگیا تھا میں بھی قطار میں کھڑا ہوجاؤ۔ یہ قطار چونٹی کی
رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی۔ اتحاد ائیر لائن کے سیکورٹی آفسرنے میرے بورڈنگ
پاس کو اسکین کیا اور پاسپورٹ پر ملک سے باہر نکلنے کی مہر (exit stamp)
دیکھی ، اورمجھے جہاز میں سوار ہونے کے لیے پتلی سی گلی(Jet bridge) میں
جانے کی اجازت دے دی۔ ایک وقت تھا جب کچھ لوگ فوٹو شاپ سوفٹ ویئر کی مدد سے
جعلی بورڈنگ پاس بھی بنا لیا کرتے تھے اور اُس وقت بورڈنگ پاس کو اسکین
کرنے کا جدید نظام وجود میں نہیں آیا تھا۔ اُس زمانے میں مسافروں کے بورڈنگ
پاس کا ایک حصہ کاٹ کر سیورٹی افسر اپنے پاس رکھ لیتا تھا اوربقیہ آدھا حصہ
مسافر کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا تھا۔ اصلی اور نقلی مسافر کا فرق نہیں کیا
جاسکتا تھا۔اب ٹرانسپورٹ سیفٹی ایڈمینیسٹریشن کا ایک نیا نظام متعارف
کروایا گیا ہے۔اس جدید نظام کی مدد سے یہ بھی پتاچل جاتاہے کہ یہ مسافر اُن
ممنوعہ افراد کی فہرست (No fly list) میں تو شامل نہیں ہے جنہیں ملک سے
باہر جانے کی اجازت نہیں ہے؟ اگرچہ ممنوعہ افراد کی لسٹ جہاز میں سوار ہونے
سے بہت پہلے ہی ائیر لائین کو فراہم کر دی جاتی ہے۔
ایک حادثہ
ائیر پورٹ کی عمارت سے ایک مصنوعی تنگ سی گلی (passenger’s Jet Bridge) سے
گزر کر مسافر جہاز میں داخل ہو رہے تھے۔میں ابھی جہاز میں داخل ہی ہونے
والا تھا کہ مجھ سے آگےجو شخص تھا، اُس کے ہاتھ سے اس کا موبائل گرا۔ جہاز
اور اس سے متصل تنگ سی گلی درمیان ایک ریخ تھی جس سے اس شخص کا موبائل نیچے
رن وے پر گر گیا۔ جہاز اور تنگ گلی کے درمیان خلا کو عموما پُر کر دیا جاتا
ہے لیکن یہاں واضح خلا رہ گیا تھا جو مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان
کا باعث بھی بن سکتاہے۔ یہ خلا عموما 4 انچ تک کا ہوسکتا ہے۔ اسے ایک ramp
کی مدد سے پُر کیا جاتا ہے۔ کسی بچے کی ٹانگ بھی اس میں پھنس سکتی ہے۔جو
ایک خطرناک امر ہے۔
ہوا میں اڑنے والی بس
ہمارا جہاز ایک ائیر بس ٹائپ تھا۔جب میں چھوٹا تھا تو مجھے اپنے والد صاحب
کے ساتھ کوئٹہ ائیر پورٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے ہاں کوئی مہان کراچی سے
تشریف لارہے تھے۔ ہمارے والد صاحب اور دیگر برزگ بھی میرے ہمراہ موجود تھے
۔ اُس وقت میں نے ان کے منہ سے ائیر بس کے بارے میں سنا کہ "فلاں صاحب ائیر
بس سے آرہے ہیں۔" میں نے والد صاحب سے اس لفظ کی وضاحت نہیں طلب کی بلکہ
میرے ذہن میں ایک اڑنے والی بس کی ایک تصویر ابھر آئی جس کے دونوں اطراف
بڑے بڑے تھے۔ اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ ائیر بس کوئی اڑنے والی بس ہوتی
ہے۔اس تخیل کی توثیق کے لیے میں نے کسی سے استفسار نہیں کیا۔اس زمانے میں
بڑوں سے اتنی بے تکلفی سے سوالات نہیں کیے جاتے تھے جیسے آج بچے کیا کرتے
ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ ائیربس جیٹ مسافر بردار جہازوں کی اقسام میں سے
ایک قسم ہے۔ حجم کے لحاظ سے اب تک ائیر بس کی تین نسلیں(families) مارکٹ
میں آچکی ہیں۔جن میں A220، A320 ، A330 ،(double decker) A380اور A350XWB
شامل ہیں۔ ہمارا جہاز جو لاہور سے ابوظبی جارہا تھا وہ A330 کے خاندان سے
تھا۔جو ایک بڑا جہاز ہوتا ہے۔ اس جہاز کی ایک قطار میں 8 متوازی سیٹیں ہوتی
ہیں۔ دو دو سیٹیں اطراف میں اور 4 سیٹیں درمیان میں ہوتی ہیں۔اس جہاز میں
کل 262 سیٹس ہوتی ہیں۔242 سیٹ اکانومی کلاس میں اور 22 سیٹس بزنس کلا س میں
ہوتی ہیں۔ گزرنے کے لیے ہر تین سیٹوں کے بعد ایک راستہ (aisle)ہوتاہے۔
ہوائی میزبان اور جہاز کا ماحول
جہاز کے اندر کا درجہ حرارت بہت مناسب تھا۔ اتنی خنکی تھی جس سے میرا پسینہ
خشک ہوگیا تھا۔ہلکی ہلکی عربی موسیقی کی دہن بج رہی تھی۔ جہاز میں ہوائی
میزبان مسافروں کو ان کی سیٹوں کی طرف رہنمائی کر رہی تھیں۔ہوائی میزبان
بہت زیادہ وقت غیر مردوں کی کے درمیان گزارتی ہیں۔ ان کی خدمت مصنوعی
مسکراہٹ کے ساتھ کرتی ہیں۔ انہیں ہر وقت اچھے اخلاق والے اور بد اخلاق
والے، ان پڑھ ، پڑھے لکھے اور ہر عمر کے مرد و خواتین مسافروں کی خدمت میں
لگا رہنا ہوتا ہے۔ بعض فلائٹ بہت طویل ہوتی ہیں جیسے جاپان کی فلائٹ 12
گھنٹے کی تھی ۔ اس میں تین مرتبہ کھانا کھلایا گیا۔ مردوں کے درمیان کام
کرنے کی وجہ سے ان ہوائی میزبانوں کے رویوں میں کافی مردانہ عادات ابھر
آئیں ہیں۔ اب وہ بلا شرم و ہچکچاہٹ مرد مسافروں کے درمیان میں سے راستہ
چیرتی ہوئی گزر جاتی ہیں، ایک مرتبہ میں نے انہیں جہاز کے دُم والے حصے میں
سگریٹ نوشی کرتے ہوئے بھی دیکھا۔
جہاز میں باقاعدہ سفر کی مسنون دعاء پڑھی گئی۔ جہاز میں بہت ساری سہولیات
میسر تھیں۔مسافروں کی تفریح کے لیے ہر سیٹ کے پیچھے ایک اسکرین لگی تھی جو
اب اچھنبے کی بات نہیں رہی۔ اب تو پاکستان میں بہت سی بسوں میں یہ سہولت
موجود ہوتی ہے۔ جب میں نے آج سے ۲۵ سال قبل ۱۹۹۷ میں کراچی سے ریاض کی
پرواز میں پہلی مرتبہ اس سہولت کا استعمال کیا تو یہ چیز میرے لیے حیرت
انگیز چیز تھی۔ سارے راستے اس سہولت سے محظوظ ہوتا رہا لیکن اس میں موجود
تفریحی مواد ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔
ہوائی جہاز میں پیش کی جانے والی سوغاتیں
ہوائی سفر میں ایک عام آدمی کے لیے دوسری چیز جو قابل توجہ ہوتی ہے، طعام
کی سہولت ہے۔ جو لوگ تو بکثرت سفر کرتے ہیں ان کے لیے یہ چیز کوئی وقعت
نہیں رکھتی۔ مگر ایک عام سادہ مسافر کے لیے یہ کافی دلچسپی کا باعث ہوتی
ہے۔ آج کل عموماً حج و عمرہ کے سفر میں پاکستانی دیہاتی مسافر تو ان چیزوں
کے استعمال سے بھی واقف نہیں ہوتا۔دوم ، وہ اپنی علاقائی زبان یا اردو کے
علاوہ کوئی غیرملکی زبان بھی نہیں جانتا ہے۔ اگرچہ ان کی علاقائی زبان
جاننے والی ہوائی میزبان ان کی مدد کے لیے ہر وقت جہاز موجود ہوتی ہیں۔میں
بھی چونکہ عام مسافروں کی طرح کی طبیعت رکھتا ہوں میرے لیے جہاز کا کھانا
ہمیشہ قابل توجہ رہا ہے۔ مجھے سب سے اچھا کھانا سعودی ائیر لائین اور
پاکستان ائیر لائین کا لگتا ہے۔ کیونکہ وہ پاکستانی مسافروں کی ذوق کا خیال
رکھتے ہوئے پاکستانی کھانے ہی پیش کرتے ہیں۔ اتحاد ائیر نے ہمیں عام روایت
سے ہٹ کر کنجوسی کا مظاہر ہ کرتے ہوئےباقاعدہ کھانا پیش کرنے کے بجائے دو
سینڈوج پیٹیز پیش کیے ، ساتھ میں مشروبات اور چائے دی گئی۔ اس روکھے پن کی
شاید وجہ یہ تھی کہ یہ وقت ایسا تھا جو نہ ناشتہ کا تھا ، نہ دوپہر یا رات
کے کھانے کا ۔ایک پیٹیز گرم تھا اور ایک بالکل ٹھنڈا۔ گرم والے پیٹیز میں
انڈے کی آملیٹ تھی اور ٹھنڈے والے میں پنیر تھی۔ الغرض یہ دونوں چیزیں
نہایت نفاست کے ساتھ پلاسٹک کی پرت میں لپٹی ہوئی تھیں۔علاوہ ازیں، ایک عام
مسافر کے لیے کھانے میں پیش کی جانے والی کچھ اضافی اشیاءسوغات کا درجہ
رکھتی ہیں جو اس جہاز میں دستیاب نہیں تھیں۔ ان چیزوں میں شہد، اسٹابری کا
مربیٰ (jam) ، مکھن ، پنیر وغیر ہ جیسی اشیاء چھوٹی چھوٹی خوبصورت پلاسٹک
کی ڈبیوں میں پیک ہوتی ہیں۔ عام مسافر ان سوغاتوں کو اپنے ساتھ اپنے ملک لے
جاتے ہیں۔ اب اگرچہ دنیا گلوبل ولج بنتی جارہی ہے۔ اس لیے یہ اشیاء پاکستان
کے بازاروں میں بھی دستیاب ہوتی ہے ۔ لیکن ایک عرصے تک میں اس طرح کی
سوغاتوں سے خود بھی استفادہ کرتا تھا اور دوسروں کو بھی مستفید کرتا تھا۔
کھڑکی والی سیٹ
تیسری چیز جو ایک عام مسافر کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہے وہ کھڑکی والی
سیٹ ہے۔ جہاں سے ہوا میں پرواز کے دوران، خشکی سے گزرتے ہوئے اور سمندر کے
اوپر سے گزرتے ہوئے مختلف نظارے دیکھنے کا موقع ملتاہے۔ حتی کہ رات کے سفر
میں بھی کئی طرح کی روشنیاں خشکی اور سمندر میں دکھا ئی دیتی ہیں۔ میں
کراچی سے ریاض کے اسفار میں ان مشاہدوں سے خاصا محظوظ ہوتا رہتا تھا۔ جہاز
اگر دن میں سمندر کے اوپر سے گرزرہا ہوتا تو کشیاں اور جزیزے دکھائی دیتے ۔
زمین کے عملی جغرافیا (Physical geography)کے مطالعے کا شاید اس سے بہتر
کوئی اور موقع نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر جہاز خشکی پر سے گزر رہا ہوتا ہے
تو صحراءکی لال رنگ کی تپتی ہوئی ریت دکھائی دیتی تھی۔ اگر مسافر نے تپتی
ہوئی ریت کا عملاًمشاہدہ کیا ہو تو جہاز کے ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر بھی وہ
ریت کی گرمائش کو محسوس کر سکتا ہے۔ رات کے وقت کے نظاروں کی اپنی ہی بات
ہے ۔ میں نے سعودی عرب اور عمان کے مختلف شہری آبادیوں کو قمقمون سے روشن
ہوتے بھی دیکھا ۔الغرض ، بچوں اوربڑوں کو کھڑکی والی سیٹ میں بیٹھنے کا بہت
شوق ہوتاہے۔ اب اگرچہ میرے اس شوق میں قدرے کمی واقع ہوگئی ہے۔بکثرت سفر
کرنے والے مسافر ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہوکر سوجاتے ہیں۔ شاید زمین پر
انہیں سونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ دنیا انہیں اتنا مصروف رکھتی ہے کہ سر
کھجانے کو ان کے پاس وقت نہیں ہوتاہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کی خانگی زندگی
بھی تباہ حال ہوتی ہے۔ان کی صحت بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی ہے۔(اللهم
لا تجعلنا منهم)
کھانے کے بعد میں نے سونے کا پروگرام بنایا۔ نماز فجر کو میں نے مؤخر کیا ۔
کیونکہ میرا وضو نہیں تھا۔
اتحاد ائیر لائین کی پرواز EY 242ساڑھے تین گھنٹے بعد ابوظبی اترنے کے لیے
اب تیار تھی۔ اب پھر مسافروں میں بے صبری کی لہر دوڑ گئی۔ حالانکہ ابھی
جہاز رُکا نہیں تھا۔ لیکن لوگ اپنا اپنا سامان کے خانوں سے نکال کر گلیوں
میں کھڑے ہوگئے۔ وہ اس حالت میں کوئی پندرہ منٹ کھڑے رہے جبکہ میں اپنی سیٹ
پر بیٹھا ابوظبی کے ائیر پورٹ کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ ابو ظبی میں صبح کے
سات بج رہے تھے۔میری اگلی فلائیٹ 15 گھنٹے بعد ابوظبی سے ٹوکیو (جاپان)کے
لیے تھی۔
|