صدیق کپن کی رہائی نے موجودہ جمہوری نظام کی نیلم پری کو
بے نقاب کردیا ۔ اس کی قبا کو تار تارہوئی تو اندر چھپا دیو استبداد
مسکراتا ہواباہر آگیا ۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے نےاتر پردیش سرکار کے چہرے
پر ایک زناٹے دار چانٹا رسیدتو کیا مگر اب وہ اس کی عادی ہوچکی ہے اس لیے
اسے نہ درد محسوس ہوتا ہے اور نہ شرم آتی ہے۔یوگی سرکار اس بات پر شاداں و
فرحاں ہے کہ اسے ایک بے قصور صحافی کو تقریباً دوسال جیل میں رکھنے سے کوئی
قانون نہیں روک سکا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ملک کے موجودہ قوانین نے اس
فعل قبیح میں اس کا تعاون کیا ۔ اس کے باوجود چونکہ سپریم کورٹ نے اس بار
ضمانت دینے کا حکم دینے کی جرأت دکھائی اس لیے جسٹس یویو للت کی بنچ قابلِ
مبارکباد ہے ۔ تیستا سیتلواد کے بعد یہ ان کا دوسرا جرأتمندانہ فیصلہ ہے۔
عدالتِ عظمی نے ویسے تو آدھے گھنٹے کے اندر فیصلہ سنا دیا مگر یہ ایک تلخ
حقیقت ہے کہ وہ آدھا گھنٹہ تقریباً17؍ہزار گھنٹوں کے بعد آیا۔ اس مجرمانہ
تاخیر کو انصاف کا اسقاطِ حمل کہتے ہیں جو کسی سزا سے کم نہیں ہے ۔
کیرالہ کے معروف صحافی اور صحافیوں کی صوبائی انجمن کے سکریٹری صدیق کپن کو
5 ؍اکتوبر 2020 کو اترپردیش پولیس نے فساد بھڑکانے کے الزام گرفتار کرلیا
تھا ۔ اس وقت کپن اوران کے ساتھ دیگر افراد ایک دلت لڑکی کی عصمت دری اور
قتل کے معاملے میں خبر رسانی کے لئے ہاتھرس جا رہے تھے۔ یہ الزام بالکل بے
بنیاد تھا اس کے باوجود اس مقدمہ میں ذاتی مچلکہ پر ضمانت مل جاتی ہے لیکن
معاملہ چونکہ یوگی کے اترپردیش کا تھا جہاں قانون پر بلڈوزر چل چکا ہے اس
لیے کیرالہ ورکنگ جرنلسٹس ایسو سی ایشن نے عدالتِ عظمیٰ رجوع کرلیا ۔ سپریم
کورٹ میں جس دن سماعت ہونی تھی اسی روز انتظامیہ نےصدیق کپن پر غیر قانونی
سرگرمیوں کی روک تھام کے سخت قانون (یو اے پی اے) کے علاوہ بغاوت کا الزام
لگا کر انہیں دہشت گرد اور باغی قرار دے دیا۔ اس کے بعد تاریخ پر تاریخ
پڑتی رہی ۔ ہر بار عدلیہ یا انتظامیہ کی جانب سے کوئی نہ کوئی لنگڑا لولا
بہانہ بنایا جاتا رہا اور دوسال بیت گئے۔
سابق چیف جسٹس ایس اے بوبڑے نے تو اس معاملے میں کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ آئین کی شق 32کے تحت مقدمات کی حوصلہ
شکنی کرنا چاہتے ہیں۔ اس شق کی مدد سے عوام اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کے
خلاف فریاد کرتے ہیں ۔ اب اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ ناگوار گزرتا
ہے اور وہ اس کے اظہار میں بھی عار نہ محسوس کرتے ہوں تو بھلا انصاف کی
توقع کیسے کی جائے؟ یہ شرمناک بات ہے کہ 47؍دنوں کے بعد فون پر صدیق کپن کو
پانچ منٹ کے لیے پہلی بار اپنے وکیل سے بات کرنے کی اجازت دی گئی۔مختلف
امراض کے ساتھ وہ کورونا سے بھی متاثر ہوئے تب بھی کسی کو ان پر رحم نہیں
آیا ۔ حراست کے دوران ان کی والدہ بیمار ہوئیں تو پیرول سے انکار کیا گیا
اوریہ سفاکی کی انتہا ہے کہ ایک بے قصور ملزم کو اپنی ماں کی تدفین میں
شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ جسٹس بوبڈے کے بعد این وی رمنا چیف جسٹس کے
عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے بڑے بڑے لکچر دیئے اور بڑی امید جگائی لیکن
جرأت عمل کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے جاتے جاتے یوگی ادیتیہ
ناتھ کے خلاف مقدمہ کو توخارج کردیا لیکن صدیق کپن کے معاملے میں کوئی ٹھوس
اقدام کیے بغیر رخصت ہوگئے۔
اترپردیش کی نچلی عدالت کی کیا مجال تھی جو صدیق کپن کو انصاف دیتی۔ اس نے
حسبِ توقع ان کی درخواست ِضمانت مستر د کردی ۔ ہائی کورٹ میں معاملہ پہنچا
تو جج صاحب انتظامیہ کے ذریعہ پیش کردہ پانچ ہزار صفحات پر مشتمل چارج شیٹ
کو سننے میں اپنا وقت ضائع کرتے رہے ۔ صدیق کپن کے وکیل نے اس جھوٹ کے
پلندے میں موجود الزامات کے حق میں شواہد پیش کرنے کا مطالبہ کیامگر ہائی
کورٹ کے جج ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔خیر اب گویا سپریم کورٹ نے اسے کوڑے دان کی
نذر کردیا ہے۔ چیف جسٹس یو یو للت کی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بنچ نے
یہ پوچھا کہ صدیق کپن یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ متاثرہ کو انصاف
کی ضرورت ہےتو کیا یہ قانون کی نظر میں جرم ہے؟ جبکہ ہر شخص کو اظہار خیال
کی آزادی کا حق ہے۔ اس معقول سوال کا جواب دینے کے بجائے یوپی حکومت کی
پیروی کرنے والے سینئر وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے ایک نیا الزام لگا دیا۔
انہوں نے کہا کہ 5؍ اکتوبر کو صدیق کپن نے فساد بھڑکانے کے لئے ہاتھرس جانے
کا فیصلہ کیا تھا۔
اترپردیش حکومت نے اپنے تحریری جواب میں یہ اوٹ پٹانگ الزام تو لگا دیا کہ
تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عرضی گزار (کپن) شریک ملزمان (بشمول پی
ایف آئی لیڈر رؤف شریف) کے ساتھ مل کر مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور
انہیں پھیلانے کی بڑی سازش کا حصہ ہیں حالانکہ اس کی تائید میں ان کے پاس
ملنے والے جو دستاویز پیش کی اس میں ’’ہاتھرس لڑکی کے لیے انصاف‘‘ کی بات
کی گئی تھی ۔ اس پر بنچ نے بجا طور پر یاد دلایا کہ 2011 میں بھی نربھیا کے
لیے انڈیا گیٹ پر احتجاج ہوا تھا۔ بعض اوقات تبدیلی لانے کے لیے احتجاج کی
ضرورت ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کے بعد قوانین میں تبدیلی آئی۔ اس سے یہ
بھی پتہ چلتا ہے کہ یوگی راج میں ظلم وجبر کی حمایت قابل ستائش عمل اور عدل
و انصاف کا مطالبہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اترپردیش کی حکومت دوپہر کے کھانے
سے متعلق سرکاری لاپرواہی کے خلاف آواز اٹھانے والے پون جیسوال کو گرفتار
کرکے یہ ثابت کر چکی ہے کہ اس میں اختلاف برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ وہ
صرف اور صرف دم ہلانے اور تلوے چاٹنے والی صحافت کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
اتر پردیش حکومت نے یہ الزام بھی لگایا کہ کپن کے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی
ایف آئی) جیسی انتہا پسند تنظیموں سے تعلقات جو ملک مخالف ایجنڈا چلاتی ہے۔
وہ پی ایف آئی کے تھنک ٹینک ہیں اور اس کی موجودہ قیادت بنیادی طور پر سابق
سیمی کے ارکان پر مشتمل ہے۔کپن دیگر ملزمان کے ساتھ ملک میں دہشت گردی ،
مذہبی فساد بھڑکانے کی سازش میں ملوث ہے۔اتر پردیش حکومت نے کہا کہ کپن کو
ایک ملزم کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا جو ماضی میں فسادات میں ملوث رہے تھے۔
کپن ہاتھرس ایک صحافی کے طور پر رپورٹنگ نہیں کرنے جا رہے تھے ، بلکہ وہ پی
ایف آئی وفد کا حصہ تھے ، جس کا مقصد ہاتھرس کے متاثرین کے لواحقین سے
ملاقات کرکے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینا تھا۔ ان الزامات کی تائید میں
کپن کے لیپ ٹاپ اور دہلی میں اس کے کرائے کے مکان سے برآمد ہونے والے
دستاویزات کا حوالہ د یا گیا لیکن عدالت نے انہیں قابلِ اعتناء نہیں سمجھا۔
کپن کے وکیل کپل سبل نے پی ایف آئی کے ذریعہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو
انجام دینے کے لیے 45,000 روپے ادا کیے جانے ثبوت کومسترد کردیااور کہا کہ
پاپولر فرنٹ کوئی کالعدم تنظیم نہیں ہے۔ ان سارے بے بنیاد الزامات کے حق
میں یوگی سرکار کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کرسکی اور چاروں خانے چت ہوگئی۔
چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ پر مشتمل بنچ نے ضمانت تو نہیں
دی بلکہ نچلی عدالت سے رجوع کرکے اسے حاصل کرنے کا حکم دیا مگر جو شرائط
لگائی ہیں اس سے ان کی بیچارگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نےکہا کہ
صدیق کپن کو اگلے چھ ہفتوں تک دہلی میں رہنا ہوگا اور شہر کے نظام الدین
پولیس اسٹیشن میں اپنی موجودگی درج کرانی ہوگی۔ ججوں نے کہا کہ اس کے بعد
وہ کیرالہ میں اپنے گھر واپس جا سکتے ہیں لیکن انہیں پولیس کو رپورٹ کرنا
پڑے گا۔بنچ نے کپن کو ذاتی طور پر یا وکیل کے ذریعے ’’ہر ایک تاریخ پر‘‘
ٹرائل کورٹ کے سامنے کارروائی میں شریک ہونے کی ہدایت کی نیز اس مرحلے پر
تحقیقات کی پیش رفت پر کوئی تبصرہ کرنے سے منع کردیا ۔کپن کو تین دن کے
اندر ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جائے گا اور ضمانت کی مزید شرائط طے کی جائیں
گی ۔ ایک بے بنیاد الزام کی ضمانت پر اس قدر شرطیں کسی باوقار آزاد ملک کو
زیب دیتی ہیں ؟
سپریم کورٹ اپنے اس فیصلے میں نہ تو مقننہ پر کوئی معمولی سا تبصرہ کرسکا
جس نے ایک ایسا غیر منصفانہ قانون وضع کردیا ۔ اس کی روُ سے الزام لگانے
والوں کو بہتان طرازی کی کھلی چھوٹ ہے مگر ان کو غلط ثابت کرنے ذمہ داری
الٹا ملزم پر آجاتی ہے۔ پانچ سو صفحات پر مشتمل گمراہ کن فردِ جرم داخل
کرکے عدالت کو بھٹکانے کی کوشش کرنے والے انتظامیہ کی سرزنش کا حوصلہ بھی
عدالتِ عظمی نہیں دکھا سکی۔ اس کی زبان سے ان نچلی عدالتوں کے بارے میں بھی
ایک لفظ نہیں نکلا جنہوں نے آئین کے بجائے اقتدار سے خوفزدہ ہوکر یا اس کی
خوشنودی کے لیے عدل و انصاف کا خون کردیا ۔ اس صورتحال میں ایک روشن خیال
اسلام پسند دانشور کے ساتھ بحث یاد آرہی ہے۔ وہ صاحب یہ سمجھانے کی کوشش
کررہے تھے کہ جمہوریت صرف اور اکثریت کی رائے سے فیصلہ کرنے کا نام ہے اور
اسلامی نظام میں بھی اختلافی امور کے اندر فیصلے ارباب ِ حل وعقد کی
اکثریتی رائے سے ہوں گے اس لیے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے
کہ اسلامی نظام میں مقننہ شتر بے مہار کی مانند ایسے قوانین وضع کرنے کا
اختیار رکھتا ہے جس میں ظالم کو کھلی چھوٹ اور مظلوم کا گلا گھونٹا جائے
اور عدلیہ اس کے سامنے لاچار ہےکہ جانتے بوجھتے انصاف نہ کرسکے۔ اسلامی
نظام کسی اکثریت کو اللہ کی مرضی کے خلاف من مانا قانون بنانے کی اجازت
نہیں دیتا کیونکہ نظامِ الٰہی میں ؎
سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری
|