اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان
کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کے موقع پر واضح طور پر کہا کہ ’’سیلاب کی وجہ
گلوبل وارمنگ ہے جس کا ذمہ دار پاکستان نہیں، مگر وہ مشکلات جھیل رہا ہے۔
عالمی کمیونٹی کیلئے ضروری ہے کہ صورتحال کو سمجھے اور مشکل کی اس گھڑی میں
پاکستان کی مدد کیلئے آگے بڑھیں ۔ خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک اور مالیاتی
ادارے کردار ادا کریں ۔ کیونکہ یہ سخاوت کا نہیں انصاف کا معاملہ ہے‘‘ ۔
مجھے یو این سیکرٹری جنرل کے یہ تمام تر جذبات سابق گورنر پنجاب چوہدری
سرور کے موقف کی تائید لگے ۔ میں گذشتہ ہفتے سرور فاؤنڈیشن کے تحت سیلاب
زدگان کو امدادی راشن ارسال کرنے کی ایک خصوصی تقریب میں شریک تھا جس میں
چوہدری سرور نے سرور فاؤنڈیشن کی جانب سے سوا ارب روپے سے زائد کی لاگت سے
ڈیڑھ لاکھ سیلاب متاثرہ خاندانوں کو ایک ایک ماہ کا راشن بھجوایا۔ یہی نہیں
بلکہ ان کے پلیٹ فارم سے روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 25 ٹرک بغیر کسی فوٹو
سیشن کے متاثرین کیلئے راشن کے ہمراہ لاہور اور اسلام آباد سے روانہ کئے جا
رہے ہیں ۔ اسی تقریب میں چوہدری سرور نے کہا کہ ’’عالمی مالیاتی اداروں اور
انٹرنیشنل کمیونٹی کو یہ بات قبول کرنا ہوگی کہ پاکستان میں سیلاب موسمیاتی
تبدیلیوں کی وجہ سے آیا ہے۔ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینا اور
قرضے معطل کرنا انٹرنیشنل بینکنگ چینلز کا فرض ہے۔ اسی موقع پر چوہدری سرور
نے متاثرین کی آباد کاری کیلئے انٹرنیشنل کمیونٹی سے کردار ادا کرنے کا
مطالبہ کیا اور خود بھی اس ضمن میں متحرک ہونے اور عالمی سطح پر ذاتی طور
پر رابطے بڑھانے کا عندیہ دیا ۔ چوہدری سرور نے متاثرہ خاندانوں کی آباد
کاری تک ان کی کفالت کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ایک اہم اعلان یہ بھی کیا
ہے کہ آئندہ 4 سے 6 مہینے تک وہ سیاست کی بجائے خود کو صرف سیلاب متاثرین
کی خدمت کیلئے وقف کریں گے اور ان کی بحالی کیلئے کردار ادا کریں گے‘‘ ۔
میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری سرور جیسے یہ جذبات دیگر سیاستدانوں میں بھی
ابھرنے چاہئیں کیونکہ اس وقت سیلاب متاثرہ خاندان اپنی قومی قیادت کی جانب
دیکھ رہے ہیں ۔انہیں مایوسی کی دلدل میں جانے سے بچانے کیلئے مشترکہ کردار
ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ بلاشبہ موجودہ بحران میں نیشنل و انٹرنیشنل بزنس
کمیونٹی نے اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن اسے مزید موثر کرنے کی ضروت ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ ریلیف کا ابھی پہلا مرحلہ مکمل ہو رہا ہے ۔ ابھی بہت
سے کام باقی ہیں ۔ اب دوسرا مرحلہ شروع ہونا ہے ۔ یہ پہلے مرحلے سے زیادہ
اہم ہے ۔ متاثرین کی آباد کاری ، سکولوں کی بحالی ، روزگار کے انتظام ، طبی
سہولیات کی فراہمی سمیت بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ معاملات اب فوٹو سیشن سے آگے
بڑھ کر عملی کردار کو مزید موثر انداز میں بڑھانے کے متقاضی ہیں ۔ بالخصوص
ان متاثرہ علاقوں میں ، جہاں ابھی تک زیادہ ریلیف اقدامات نہیں ہو سکے ۔
گو ، کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے واضح کیا ہے کہ ’’سیلاب نقصانات کا
ازالہ اکیلے ہمارے بس میں نہیں ہے‘‘۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو
اس وقت اندرون و بیرون ملک سے جس قدر امداد آ چکی ہے ، اس کا شفاف استعمال
یقینی بنایا جائے اور ساری امداد استعمال کی جائے تو نہ صرف متاثرین کی
آباد کاری بہترین طریقے سے ہو سکتی ہے بلکہ انہیں روزگار کے مواقع بھی اسی
امداد کے ذریعے فراہم کر کے خود کفیل کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس
ضمن میں ہمارا ریکارڈ اچھا نہیں ہے ۔ ہم نے ماضی میں بھی مختلف آفات کے بعد
ملنے والی امداد کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ موجودہ
سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں دنیا نے ماضی کے ریکارڈ
کے باوجود جس طرح ہماری مدد کی ہے ، اگر اب بھی ہم نے دنیا کے اعتماد کا
پاس نہ رکھا تو مستقبل میں کوئی ہماری مدد کو آگے نہیں بڑھے گا ۔ اور کسی
بھی آفت یا چیلنج سے ہمیں اپنے محدود وسائل کے ذریعے ہی نبٹنا پڑے گا، جو
کہ ہم تیسرے درجے سے تعلق رکھنے والے ایک ترقی پذیر ملک کے لئے یقینا بہت
مشکل بلکہ ناممکن ہے ۔
|