ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
سیلاب کی افتاد اور سیاسی افراتفری کے ہنگام بھارت سے متعلق ایک نہایت اہم
خبر میری نگاہ سے گزری ۔ بلومبرگ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت نے
معیشت کے میدان میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔گزشتہ کئی برس سے برطانیہ
دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کے درجے پر فائز تھا، لیکن اب بھارت نے برطانیہ
سے یہ اعزاز چھین کر اپنے ماتھے پر سجا لیا ہے۔ یعنی اب بھارت دنیا کی
پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے، جبکہ برطانیہ چھٹے نمبر پر چلا گیا ہے۔ ہمیں
یاد ہونا چاہیے کہ یہ وہ برطانیہ ہے جو ہندوستان پر تقریبا 89 سال حکمران
رہا۔ آج بھارت نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بلومبرگ کے جاری کردہ اعداد و
شمار کیمطابق بھارت کی معیشت کا حجم 854.7 بلین امریکی ڈالر ہے۔ جبکہ
برطانیہ کی معیشت کا حجم 816 ارب امریکی ڈالر ہے۔ پانچویں نمبر پر آنے کے
بعد بھارت سے آگے صرف امریکہ، چائنہ، جاپان، اور جرمنی ہیں۔
بھارت کی معیشت کے بارے میں یہ کوئی نئی خبر نہیں ہے۔ بھارتی معیشت کی ترقی
کے بارے میں ایسی خبریں اکثر سننے کو ملتی رہتی ہیں۔
اس پہلو کا ذکر بھی ضروری ہے کچھ معاشی تجزیہ کار ان اعداد و شمار کے حوالے
سے شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی آبادی کا
ایک بڑا حصہ غربت کا شکار ہے۔ بھارت کے مقابلے میں برطانیہ کی فی کس آمدنی
زیادہ ہے۔ ان حالات میں بھارت کیونکر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن سکتا
ہے؟ تاہم اس نقطہ نظر سے قطع نظر، ہمیں معلوم ہے کہ بھارت دنیا کی ایک اہم
معیشت سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں یہ اپنی مصنوعات درآمد کرتا
ہے۔ اس کی افرادی قوت دنیا بھر میں موجود ہے۔اس کے شہری مختلف ممالک میں
نہایت اہم اور حساس عہدوں پر فائز ہیں۔ بہت سی اہم عالمی کمپنیوں کے سربراہ
بھارتی نژاد شہری ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارت بہت سے ترقی
یافتہ ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اگر ہم بلومبرگ کی ا س خبر کو مسترد
کر دیں، تب بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارت گزشتہ کئی عشروں سے
دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت کے درجے پر کھڑا ہے۔ کئی برس سے وہ آگے بڑھنے
کے لئے مسلسل جدوجہد کررہا ہے۔ لہذا آج وہ پانچویں نمبر پر آ گیا ہے تو اس
میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
دوسری طرف ذرا پاکستان کے حالات پر ایک نگاہ ڈالیں۔ غور کریں کہ ہم کہاں
کھڑے ہیں۔ ہماری معاشی حالت یہ ہے کہ ہر حکومت کو معیشت کی سانسیں بحال
رکھنے کے لئے دوست ممالک کے آگے جھولی پھیلانا پڑتی ہے۔ قرض کے حصول کیلئے
آئی ۔ ایم۔ ایف کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے۔ بہ امر مجبوری اس کی جائز ناجائز
شرائط کے آگے سر جھکانا پڑتا ہے۔ بر سبیل تذکرہ قرض لینا کوئی معیوب بات
ہے۔ امریکہ، برطانیہ ، کینیڈا جیسے ممالک بھی قرضے لیتے رہتے ہیں۔ تاہم یہ
ممالک قرض کی رقم بڑے بڑے منصوبو ں پر استعمال کرتے ہیں، نہ کہ ہماری طرح
دیوالیہ پن سے بچنے اور معیشت کی نبض جاری رکھنے پر۔ اگرچہ پاکستان اور
بھارت ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے ۔ لیکن صد افسوس کہ پاکستا ن اور بھارت کی
معیشت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔ ا ب تو بنگلہ دیش کی معیشت بھی پاکستان کے
مقابلے میں کہیں زیادہ تیز رفتاری کیساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
سچ یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھارت سے مقابلہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔
اس ضمن میں ہمارے ہاں شاید ہی کبھی قلیل اور طویل المدتی منصوبہ بندی ہوئی
ہو ۔ بھارت کے ساتھ مقابلے کو ہم نے فقط کرکٹ کے میدان تک محدود کر رکھا
ہے۔ جمہوریت، معیشت، تعلیم، صحت، تجارت ، اور دیگر میدان ہم نے کھلے چھوڑ
رکھے ہیں۔ بھارت سے پیچھے رہ جانے کی ایک وجہ تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ
ہمارے ہاں جمہوریت کو وہ تسلسل نصیب نہیں ہو سکا، جو بھارت کو میسر رہا۔
غالبایہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تسلسل کیساتھ منصوبہ بندی نہیں ہو سکی۔ہمیشہ
موجود رہنے والی سیاسی بے یقینی نے پاکستان کے معاشی حالات کو ہمیشہ متاثر
کیا۔ داخلی لڑائی جھگڑے پاکستان کو آگے بڑھنے سے روکتے رہے۔ آج تک ہمارا
رویہ برقرار ہے۔ موجودہ صورتحال پر نگاہ کیجئے۔ ہمیں سیلاب کی بدترین تباہ
کاریوں کا سامنا ہے۔ آدھا پاکستان سیلاب میں ڈوب چکا ہے۔لاکھوں نہیں کروڑوں
شہری اس قدرتی آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی اپنی
استعداد کار کے مطابق سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے متحرک ہیں۔ مختلف دینی
اور فلاحی تنظیمیں بھی متاثرین شہریوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کے
باوجود بچے ، بوڑھے، جوان بھوک سے بلک رہے ہیں۔ گھر کی چھت دستیاب نہیں۔
ادویات میسر نہیں۔ہماری استعداد نہیں کہ سیلاب میں گھری سات لاکھ حاملہ
خواتین کو طبی سہولیات فراہم کرسکیں۔ حکومت پاکستا ن عالمی برادری کے سامنے
جھولی پھیلائے بیٹھی ہے ۔
متاثرہ شہری بتاتے ہیں کہ ان کے گھربار ہی تباہ و برباد نہیں ہوئے، ان کی
زندگی برباد ہو چکی ہے۔لیکن اس افتاد کے باوجود سیاستدانوں کے لڑائی جھگڑے
عروج پر ہیں۔مختلف حلقوں کے اصرار اور نصیحت کے باوجود عمران خان سیلاب
متاثرین کی خاطر اپنے جلسے اور حکومت مخالف سرگرمیاں ملتوی کرنے پر آمادہ
نہیں۔ اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں، تمام ٹیلی ویژن چینل گزشتہ کئی
گھنٹوں سے عمران خان سے متعلق توہین عدالت کے مقدمے پر تجزئیے تبصرے میں
مصروف ہیں۔ یعنی وہ وقت جو سیلاب زدگان کے لئے مخصوص ہونا چاہیے، اس میں
سیاسی خبروں پر بات ہو رہی ہے۔
سیلاب متاثرین کے علاوہ دیگر عوام بھی کہاں خوش اور مطمین ہیں۔وہ مہنگائی
کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اشیائے خورد و نوش ، ادویات، تعلیم ، بجلی گیس
کی قیمتیں ان کی پہنچ سے باہر ہو چلی ہیں۔ان حالات میں ہمارے ارباب اختیار
ہمیشہ کی طرح آپس میں پنجہ آزمائی میں مصروف ہیں۔ایسے میں کسے فکر کہ بھارت
سے مقابلہ کرئے۔ سو بھارت دنیا کی پانچویں معیشت بنے یا پہلی ، ہمیں اس سے
کیا غرض۔
|