ملک کےسارے آزاد اداروں کو فی الحال ایک ایک کرکے یرغمال
بنالیا گیا ہے۔حکومت اپنے سیاسی مخالفین پر آئے دن ان کے ذریعہ
چھاپےمرواتی ہے۔ بانڈ کے ذریعہ 95فیصد چندہ برسرِ اقتدار جماعت کی تجوری
میں چلا جاتا ہے اور 5 فیصد پر پورے حزب اختلاف کو گزارہ کرنا پڑتا ہے۔اس
دھن دولت کی مدد سے ذرائع ابلاغ کو خرید لیا گیا ہے اور آئے دن حقوق
انسانی کے کارندوں کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ عدلیہ بھی سرکار کے آگے بے بس
نظر آنے لگا ۔بلڈوزر کے ذریعہ آئین کودن دہاڑے کچلا جاتا ہے ۔ سرکاری من
مانی اپنے سارے حدود و قیود کو پھلانگ چکی ہے ایسے میں اپنے آپ کو جمہوریت
کی ماں کہنا ایک مذاق نہیں تو اورکیا ہے؟ اب یہ نظامِ جبر جمہوریت کی ماں
ہے یا باپ ، چاچا ہے یا ماما اس کا فیصلہ تو جمہوریت نواز دانشور کریں گے
لیکن اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ ہندوستان مادرِ جمہوریت ہے تب بھی تسلیم
کرنا پڑے گا کہ اس کی کوکھ سے فسطائیت نے جنم لے کر قیامت مچا رکھی ہے۔
وزیر اعظم کو ایمرجنسی کا ایک سبق ضرور یاد رکھنا چاہیے جس کا اعادہ انہوں
نے اپنی مذکورہ تقریر میں کیا۔ انہوں نے کہا ہندوستان کے عوام نے جمہوریت
کو کچلنے کی سازشوں کا مقابلہ جمہوری طریقہ سے کیا۔ وہ عوام جو اعلانیہ
ایمرجنسی کا مقابلہ کرسکتے ہیں وہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا بھی خاتمہ
کرسکتے ہیں بشرطیکہ غلامی کی نادیدہ زنجیروں کا احساس ہوجائے۔۔ راہل گاندھی
کی بھارت جوڑو یاترا کا مقصدیہی عوامی بیداری پیداکرنا ہے۔ وہ اگر اس میں
کامیاب ہوجائیں تو مودی سرکار کی ہوا اکھڑ جائے گی ۔ جولائی کے مہینے میں
مودی جی نے بہار کے دورے پر جاکر اسمبلی کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کی
اوربہار کے اندر جمہوریت کی تاریخ بیان کرنے والے میوزیم کا سنگ بنیاد رکھا
۔ وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ آزادی کے بعد بہار کے اندر زمینداری کے نظام
کا خاتمہ کیا گیا اور اسی روایت کو آگے بڑھاکرنتیش کمار کی سرکار نے سب سے
پہلے ملک میں پنچایت راج کا قانون بناکر خواتین کو پچاس فیصد ریزرویشن عطا
کیا۔ اس وقت مودی جی کو نہیں معلوم تھا کہ بہت جلد نتیش کمار ان کا ساتھ
چھوڑنے والے ہیں ورنہ یہ الفاظ ان کی زبان سے ادا نہیں ہوتے اور وہ
بہاراسمبلی کو یکساں حقوق اور ساجھے داری کے ساتھ سماجی زندگی میں جمہوریت
کے فروغ دینے کی مثال نہیں قرار دیتے۔
وزیر اعظم نے آگے چل کر اپنی تقریر میں یہ انکشاف بھی کیا کہ برسوں سے یہ
بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوستان کو غیر ملکی حکومت اور فکر سے
جمہوریت ملی لیکن ایسا کہنے والا شخص بہار کی تاریخ و تہذیب سے واقف نہیں
ہے۔ ویشالی میں صدیوں پہلے نہایت ترقی یافتہ جمہوریت موجود تھی ۔ ہندوستان
میں جمہوریت کا تصور ملک و تہذیب جتنا پرانا ہے۔ انہوں نے بتایا ہندوستان
جمہوری مساوات کا ذریعہ اور مساوات کی اہمیت سمجھتا ہے۔ یہ دعویٰ اگر درست
ہے تو کیا ذات پات کی تفریق کا نظام مریخ اور مشتری پر پایا جاتا تھا؟
انسان اگر جھوٹ بولنے پر آئے تو کوئی حد نہیں ہوتی۔ آج بھی شودروں کی
ارتھی تک کو شمشان میں جلانے سے روکا جاتا ہے ایسے میں وزیر اعظم کس مساوات
کی بات کررہے ہیں؟وزیر اعظم نے فرمایا ہندوستان مشترکہ وجود اور امن و خیر
سگالی میں یقین رکھتا ہے۔ ہم سچائی اور باہمی تعاون پر منحصر متحدہ سماج
میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ باتیں تقریر میں تو بہت اچھی لگتی ہیں مگر نہ تو
سماج میں اس کا نام و نشان ہے اور نہ سیاسی زندگی میں اس کا وجود پایا جاتا
ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا جرمنی والا جملہ دوہرا دیا کہ ہندوستان مادرِ
جمہوریت ہے۔ ماضی کے متعلق مودی جی نے جو کچھ کہا وہ تو سراسر جھوٹ ہے مگر
نتیش کمار نے ان کا ساتھ چھوڑ کر امید کی ایک کرن جگائی ہے۔ ان کی یہ بات
درست ہے کہ بہار جتنا خوشحال ہوگا ہندوستانی جمہوریت اتنی ہی مضبوط ہوگی
اور ان کے اقتدار کا خاتمہ بھی اسی سے ہوگا۔
وزیر اعظم نے پٹنہ میں کہا آزادی کی 75؍ویں سالگرہ نے ہر عوامی نمائندے کے
لیے خود احتسابی کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس خود احتسابی
نے اس خود آگہی کو جنم دیا جس کے سبب بہار میں حزب اختلاف کی ساری سیاسی
جماعتوں نے متحدہ قومی محاذ( این ڈی اے ) کو خیرباد کہہ کراس سے کنارہ کشی
اختیار کرلی ۔ اب وہ سب بی جے پی کے خلاف متحد ہوچکے ہیں ۔ اس لیے مودی جی
کا یہ کہنا درست ہے کہ ہم جتنا بھی اپنی جمہوریت کو مضبوط کریں گے ہمیں
اپنی آزادی اور حقوق کے لیے زیادہ قوت ملے گی۔ مودی جی کی ہدایات پر بہار
کی این ڈی اے میں شامل جماعتوں نے جس شدو مد کے ساتھ عمل کیا ایسا تو بی جے
پی والے بھی نہیں کرتے۔ مودی جی کواب اپنی ان نصیحتوں پر افسوس ہورہا ہوگا۔
بہار سے لوٹنے کے بعد نتیش کمار نے وزیر اعظم کو وہ جھٹکا دیا کہ جو ان کے
خواب و خیال میں بھی نہیں تھا ۔ یہ وہی جمہوری جھٹکا تھا جس کا ذکر وہ
میونخ میں کر چکے تھے۔
یوم آزادی کے موقع پر مودی جی نے لال قلعہ سے اپنے قومی خطاب میں کہا کہ
ہر کوئی ہرکسی شہری کو ملک کے ہر کونے میں تقویت پہنچانے کے لیے کام کررہا
ہے۔ اس ہر کوئی میں مودی خود اور ان کی جماعت شامل نہیں ہے کیونکہ وہ دونوں
تو ملک بھر میں اپنے مخالفین و موافقین سبھی کو کمزور کرنے میں جٹے ہوئے
ہیں ۔ وزیر اعظم نے مجاہدین آزادی کا ذکر کرتے ہوئے گاندھی جی، بھگت سنگھ،
رام پرساد بسمل ، رانی لکشمی بائی، سبھاش چندر بوس ، جھلکاری بائی، بیگم
حضرت محل اور چناّ ما کا ذکر تو کیا گر اس فہرست میں ساورکر یا ہیڈگیوار کا
نام نہیں آسکا ۔ یہ سنگھ پریوار کے لیے کس قدر شرم کی بات ہے۔ آزادی کے
بعد قوم کے معماروں انہوں نے جواہر لال نہرو، رام منوہر لوہیا اور سردار
ولبھ پٹیل کو خراج عقیدت پیش کیا مگر شیاماپرساد مکرجی سے لے کر اٹل اور
اڈوانی تک سبھی کو فراموش کردیا ۔ اس سے سنگھ پریوار کو تھوڑا بہت دکھ تو
ہوا ہوگا مگر مودی جی کسی کی پروا کب کرتے ہیں ۔ ویسے ان کے بعد آنے والے
شاہ یا یوگی بھی انہیں یاد کرنے کی زحمت نہیں کریں گے کیونکہ انہیں بھی
احسان فراموشی کی تربیت مل رہی ہے۔
لال قلعہ کے خطاب میں بھی مودی جی نے پھر ایک بار اپنا گھسا پٹاجملہ
ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے دوہرا دیا ۔ جمہوریت نہ سہی تو مودی سرکار کو
اپنے اندر تمام طبقات کی نمائندگی کی بابت تھوڑا سا سنجیدہ ہونا چاہیے۔
انہیں مسلمان بادشاہوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ جن کے دربار میں ہندووں
کی اچھی خاصی تعداد موجود ہوتی تھی۔ وہ لوگ جمہوریت کا ناٹک نہیں کرتے تھے
مگر ملک کے عوام کو اپنا باشندہ سمجھتے تھے اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں
دلچسپی رکھتے تھے۔ اس لیے سرکار دربار میں سبھی طبقات کےنمائندوں کو رکھ کر
ان کے مشورے سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بناتے تھے۔ مودی جی کو چند
سرمایہ داروں کے علاوہ کسی کا مفاد عزیز نہیں ہے اس لیے وہ کسی کے بارے میں
نہیں سوچتے اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے بارے میں بالکل
دلچسپی نہیں لیتے۔ہندوستان ایک اقلیتوں کا ملک ہے جس میں مسلمان سب بڑی
اقلیت ہیں لیکن دوسری چھوٹی چھوٹی اقلیتوں نے متحد ہوکر مسلمانوں کو اقتدار
سےبے دخل کردیا ہے۔ سنگھ پریوار کو خطرہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ارد گرد
کوئی اتحاد قائم ہوجائے تو نام نہاد اونچی ذات کی برتری ختم ہوجائے گی اس
لیے وہ غیر مسلم اقلیتوں کا ایک غیر فطری اتحاد قائم کرکے انہیں مسلمانوں
کے خلاف اکساتا رہتا ہے۔
مودی سرکار جب پہلی مرتبہ بنی تو اس میں دو مسلمانوں کو وزیر بنایا گیا۔ ان
میں سے ایک ایم جے اکبر تو کسی خاتون کے الزامات کا شکار ہوگئے ۔ ویسے مودی
سرکار کو ان اخلاقی معاملات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ورنہ اس سے خطرناک
الزامات کا شکار سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو ایوان ِ بالا میں نامزد کرنے
کے بجائے جیل بھیجا جاتا ۔ مودی جی کو ایم جے اکبر سے نجات حاصل کرنے کا
ایک موقع ملا تو انہوں نے اس کا فائدہ اٹھاکر وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ
کی چھٹی کردی ۔ اس کے بعد مختار عباس نقوی بچ گئے تھے تو اب ان کو بھی گھر
بھیج دیا گیااب اقلیتی امور کی وزارت کے سونپنے کا معاملہ آیا تو وہ
قلمدان سمرتی ایرانی کو پکڑا دیا گیا ۔ سمرتی ایرانی فی الحال سیاست کے
پردے پر ڈبل رول کررہی ہیں ۔ ان کو راہل گاندھی کے خلاف انتخاب لڑنا ہوتا
ہے تو نانی یاد آجاتی ہے۔ اس لیے وہ بڑا سا تلک لگا کر ہندو ناری بن جاتی
ہیں۔ اس کے بعد جب اقلیتی امور کی وزارت سنبھالنی ہو تو وہ بہو بن کر سسرال
کے حوالے سے پارسی بن جاتی ہیں ۔ اس طرح مودی جی کی مہربانی سے ان کے دونوں
ہاتھوں میں لڈو اور سر کڑھائی بلکہ گوا کے شراب خانے میں ہے جس کو ان کی
بیٹی چلا رہی ہیں اور جس کے کھانے کا لائسنس ان کے شوہر نامدار کے نام پر
دیا گیا ۔ سمرتی اگر اب بھی کہتی ہیں اس ہوٹل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے
تو اس مطلب ہوگا کہ شوہر اور بیٹی سے بھی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ؎
قریب ہے یارو روز محشر، چھُپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر؟ جو چپ رہے گی زبان
خنجر ،لہو پکارے کا آستیں کا
|