ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ’’گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم
بم بنائیں گے‘‘۔ تب اُس وقت کے امریکی وزیرِخارجہ ہنری کسنجرنے بھٹو سے کہا
’’ہم تمہیں نشانِ عبرت بنا دیں گے‘‘۔ بھٹو پھانسی پر جھول گئے لیکن ایٹمی
پروگرام سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ میاں نوازشریف نے بھارت کے ایٹمی
دھماکوں کے جواب میں دھماکوں کا ارادہ کیا تو اُس وقت کے امریکی صدر بِل
کلنٹن نے پہلے اُنہیں دھمکیاں دیں اور پھر اربوں ڈالر کی امداد کی پیشکش کی
لیکن نوازشریف نے قوم کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے بھارت کے 5 ایٹمی دھماکوں
کے جواب میں چاغی (بلوچستان) کے پہاڑوں میں 6 ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو
عالمِ اسلام کی پہلی اور دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت بنا دیا۔ جب اﷲ اکبر کی
صداؤں میں چاغی کے پہاڑوں کا رنگ بدلا تو پورے عالمِ اسلام کا سَر فخر سے
تَن گیا۔ پھر چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھا کہ پاکستان کے مقبول ترین
رَہنماء کو پرویز مشرف کی آمریت کے ہاتھوں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی
پڑیں اور جلاوطنی کا دُکھ بھی جھیلنا پڑا۔ تاریخِ پاکستان اِن 2 وزرائے
اعظم کے عزمِ صمیم اور ملک وملت سے محبت کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔
’’لاڈلے‘‘ نے جب حکومت جاتے دیکھی تو امریکہ مخالف بیانیہ لے کر سڑکوں پہ
نکل آئے۔ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں عموماََ اور خیبرپختونخوا میں
خصوصاََ امریکہ مخالفت عام ہے۔ اِس بیانیے نے تحریکِ انصاف کی ڈگمگاتی
سیاسی کشتی کو سہارا دیااور لاڈلے کی مقبولیت ایک دفعہ پھر رفعتوں کو چھوتی
دکھائی دی۔ حقیقت مگر یہی کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اِسی لیے امریکہ مخالف
بیانیے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی اور واقفانِ حال نے اِس بیانیے کا
بھانڈا پھوڑ دیا۔ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے خیبرپختونخوا کا دورہ کیا تو
وہاں نہ صرف اُس کا ریڈ کارپیٹڈ استقبال کیا گیا بلکہ ہیلی کاپٹر پر
خیبرپختونخوا کی سیر بھی کروائی گئی۔ ڈونلڈ بلوم نے خیبرپختونخوا حکومت کو
امریکی حکومت کی جانب سے 36 گاڑیوں کا تحفہ دیا جسے بصد احترام قبول کر لیا
گیا۔ اِسی دوران وزیرِاعلٰ کے پی کے محمودخاں نے لاڈلے کی ویڈیو لنک پر
ڈونلڈ بلوم سے ملاقات بھی کروائی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ انکشاف
بھی ہوا کہ امریکی حکومت سے قریب تر ہونے کے لیے 25 ہزار امریکی ڈالر
ماہانہ پر اُس امریکی کمپنی کی خدمات بھی حاصل کی گئیں جس کی سربراہی اُس
شخص کے پاس ہے جو نائن الیون کے دوران اسلام آباد میں سی آئی اے چیف رہ چکا
ہے۔ فواد چودھری نے بھی امریکی سفارت خانے میں ڈونلڈ بلوم سے تین گھنٹے تک
ملاقات کی۔ پچھلے دنوں سابق سی آئی اے ایجنٹ رابن رافیل کی بنی گالہ میں
طویل ملاقات کے چرچے بھی زباں زَدِعام ہیں۔ فوادچودھری نے تو اِس خبر کو
مَن گھڑت قرار دے دیا لیکن لاڈلے نے کامران خاں سے انٹرویو کے دوران اِس
ملاقات کو تسلیم کر لیا۔ اب امریکہ مخالف بیانیے کو عروج دینے والے لاڈلے
کے یوٹیوبرز سے سوال ہے کہ کیا وہ اپنے ’’عظیم رَہنماء‘‘ سے پوچھ سکتے ہیں
کہ اُن کے ساتھ یہ ’’ہَتھ‘‘ کیوں ہوا؟۔ ’’کیا ہم غلام ہیں؟‘‘ کا ٹرینڈ تو
بڑی شدّ ومَد سے چلایا گیا، کیا اب اُن یوٹیوبرز میں اتنی اخلاقی جرأت ہے
کہ وہ ’’ہم واقعی غلام ہیں‘‘ کا ٹرینڈ بھی اُسی شَدّومَد سے چلائیں جیسے
پہلے والا ٹرینڈ چلایا تھا؟۔
ایٹمی پاکستان کے 3 بار وزیرِاعظم رہنے والے میاں نوازشریف گزشتہ تین عشروں
سے سول سپرمیسی کی خاطر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
اِس دوران اُنہیں اور اُن کے خاندان کو بیشمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، جلاوطنی کے دوران اپنے
والد کی نمازِ جنازہ میں شرکت سے محروم رہے۔ اپنی بیوی کو بسترِمرگ پر چھوڑ
کر بیٹی کا ہاتھ تھامااور جیل جانے کے لیے پاکستان پہنچ گئے۔ جس دن بیگم
کلثوم نواز نے دارِفانی سے کوچ کیا اُس سے چند گھنٹے قبل میاں صاحب نے
سپرنٹنڈنٹ جیل سے بار بار کہا کہ اُن کی طبیعت بے چین ہے اِس لیے لندن میں
بات کروادے لیکن کورا جواب ملا۔ پھر چند گھنٹے بعد اُسی سپرنٹنڈنٹ جیل نے
بیگم کلثوم نواز کی رحلت کی خبر سنائی۔ کوئی اُس کرب کا اندازہ کر سکتا ہے
کہ باپ اور بیٹی ایک ہی جیل کی کوٹھریوں میں الگ الگ بند ہوں اور کسی اپنے،
بہت اپنے کے بچھڑنے کی خبر مل جائے۔ آفرین ہے میاں نوازشریف اور مریم نواز
پر کہ وہ غم واندوہ کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود آج بھی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے
بیانیے پر ڈَٹ کر کھڑے ہیں اور اُن کے سول سُپرمیسی کے بیانیے میں سَرِمو
فرق نہیں آیا۔
لاڈلے کے بارے میں گوہربَٹ کہتے ہیں کہ لاڈلے کو اسٹیبلشمنٹ نے پالاپوسا،
پڑھایالکھایا، تین تین ’’ویاہ‘‘ کروائے اور وزیرِاعظم بنایا۔ بقول لاڈلا
’’پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘‘ پرویز الٰہی آجکل تحریکِ انصاف کا وزیرِاعلیٰ
ہے۔ کچھ عرصہ قبل اُس نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خاں کو ساڑھے تین سال
تک گود میں بٹھا کر نیپیاں بدلتی رہی ہے۔ اُسے نیچے اُترنے ہی نہیں دیا گیا
اِس لیے اُسے سیاست کی کچھ سمجھ نہیں۔ خود اسٹیبلشمنٹ بھی اقراری ہے کہ یہ
غلطی اُسی سے ہوئی ۔ غلطی کا احساس ہونے پر اسٹیبلشمنٹ نے غیرجانبدار ہونے
کا اعلان کر دیاجس سے بانس پر چڑھا ہوا لاڈلا دھڑام سے نیچے گِر پڑا اور
اسٹیبلشمنٹ کے سارے احسانات بھول کر امریکی مخالفت بیانیے کے ساتھ ساتھ
اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بھی جاری ہوا۔ اُس کا کوئی خطاب میرجعفر وصادق،
سازشی، بیرونی ایجنٹ، غداراور نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے سے خالی نہیں ہوتا
تھا۔ اپنے آپ کو نیکی کا علمبردار کہتے ہوئے وہ بار بار اسٹیبلشمنٹ کو اپنا
ساتھ دینے کی درخواست کرتا رہا لیکن اُدھر گھمبیر خاموشی طاری رہی۔ پرویز
خٹک نے بار بار ملاقات کوشش کی لیکن بے سود ۔ شیخ رشید کو دھتکارتے ہوئے
اُس پر گیٹ نمبر 4 کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ اب اچانک یہ افواہ پھیلی ہے
کہ ایوانِ صدر میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور لاڈلے کی
ملاقات ہوئی ہے۔ اِس ملاقات میں کیا طے ہوا، اِس کی تو خبر نہیں لیکن آثار
بتاتے ہیں کہ ماحول خوشگوار ہی رہا ہوگا کیونکہ کامران خاں کے ساتھ انٹرویو
میں لاڈلے نے عام انتخابات تک نئے آرمی چیف کی تقرری کو مؤخر کرنے کا
مطالبہ کر دیا ہے جبکہ وہ تو یہ کہتا رہا ہے کہ قمرجاوید باجوہ کی مدتِ
ملازمت میں توسیع اُس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔پھر اچانک یہ محبت؟، کچھ تو ہے
جس کی پردہ داری ہے۔
قوم پاگل ہے نہ مرضِ نسیاں میں مبتلاء کہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ
کر بھی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر رہے۔ لاڈلے نے پچھلے چھ ماہ کے دوران
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زہر اُگلنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ وہ کون سا الزام
ہے جو اسٹیبلشمنٹ پر نہیں دھرا گیا؟ ۔ اگر وہ لاڈلا نہیں بلکہ کوئی اور
سیاستدان ہوتا تو اب تک لٹک چکا ہوتا لیکن لاڈلے کی ہدایت پرٹی وی پر بیٹھ
کر فوج کو تقسیم کرنے پر اُکسانے والے کی بھی ضمانت ہوگئی۔ یہ کہے بنا کوئی
چارہ نہیں کہ عدالتوں کو بھی لاڈلے کے سامنے جھکایا جا رہا ہے۔ اعلیٰ ترین
عدلیہ کے لاڈلے کی حمایت میں عجیب وغریب فیصلے زبان زدِعام۔ ہماری زبانیں
اعلیٰ عدلیہ کے احترام میں خاموش لیکن چیف جسٹس صاحب کے حالیہ خطاب پر
سینئرترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کا خط چشم کُشا۔
وہ کون سی طاقت ہے جو شوکت ترین کی ریاست مخالف گفتگو سے صرفِ نظر کر رہی
ہے، پنکی اور ارسلان کی گفتگو کو دبا رہی ہے، فرح گوگی سکینڈل کو ختم کر
رہی ہے اور توشہ خانہ ڈکیتی کیس کو قالین تلے دبا رہی ہے؟۔ یہ طے کہ
وزیرِاعظم میاں شہباز شریف ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہے
ہیں تو پھر کیا ہم یہ یقین کر لیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی گود کا پالا ہوالاڈلا
تا حال لاڈلا ہی ہے۔ وجہ شاید یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ابھی تک میاں
صاحب کو کوئی اشارہ نہیں ملا۔ کپتان کے لاڈلا ہونے کا اِس سے بڑھ کر اور
ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ اُس کی سکیورٹی کے لیے 255 سکیورٹی اہلکاروں پر
مشتمل تین تین حصار قائم ہیں۔ یہ سکیورٹی اسلام آباد پولیس کے 77 ،کے پی کے
پولیس کے 57، گلگت بلتستان پولیس کے 8، ایف سی کے 78، رینجرز کے 6، بنی
گالا سکیورٹی کے 20 اور 9 عسکری گارڈز پر مشتمل ہے۔ اتنی سکیورٹی تو شاید
دنیا کے کسی سربراہ کو بھی میسر نہیں ہوگی جبکہ لاڈلا ریجیکٹڈ وزیرِاعظم۔
دعویٰ البتہ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کااور مثالیں امیرالمومنین حضرت عمرؓ کی
جن کے ساتھ ایک بھی سکیورٹی گارڈ نہیں ہوتا تھا۔
|