رمضان کے بابرکت مہینے کی مقدس
ساعتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں کی بارش جاری ہے لیکن عروس البلاد
کراچی میں اب بھی گولیوں کی بارش ہورہی ہے مسلمان اس ماہ مقدس میں نیکیوں
کو سمیٹ رہے ہیں جبکہ کراچی میں جاری دہشت گردی کے باعث اہل کراچی لاشوں کو
اور بکھرے انسانی اعضا کو اکھٹا کرنے میں مصروف ہیں شہر قائد اس وقت شہر
لاوارث بن چکا ہے شاید اس لئے وہاں امن و امان قائم نہیں ہو رہا ہے آبادی
کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے عروس البلاد
کراچی کومیرے پیارے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے شہر
قائد میں پورے ملک سے روزگار کے لئے آئے ہوئے پاکستانیوں نے بسیرا کر رکھا
ہے کراچی میں ہر نسل،ہر زباں،ہر صوبے اور ہر قبیلے کے لوگ آباد ہیں اور شہر
کراچی نے بھی ایک مہربان ماں کی طرح ہر کسی کو گود میں لے رکھا ہے شاید اسی
وجہ سے اسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے،شہر قائد میں انسانیت دم توڑ رہی
ہے سر بازار موت کا کھیل جاری ہے لوگ مر رہے ہیں منی پاکستان میں ہر سو
گولیوں کی بارش برستی ہے گلیوں میں خون بہتا دکھائی دیتا ہے آہ و بکا اور
زخمیوں کی کراہیں سننے کو ملتی ہیں جانے والوں کے لواحقین کے نوحے ،ماتم
اور غمزدہ چہرے ہم سے سوال پوچھتے ہیں کہ اس شہر کو کیا ہوگیا؟ یہاں کے امن
کو کیا ہوگیا؟ شہر قائد کو کس کی نظر لگ گئی؟یہاں امن قائم ہو جائے گایا
یونہی اپنے پیاروں کی لاشیں وصول کرتے رہیں گے؟یہاںدہشت کی فضا کب ختم
ہوگی؟بارود کی بو اور گولیوں کی آوازیں کب تک اس شہر میں بسیرا کرتی رہیں
گی؟کب تک ہم لٹتے رہیں گے؟کب تک آگ کے شعلوں کے رقص جاری رہے گا؟کب تک ظلم
کی چکی میں ہم پستے رہیں گے؟کب تک یہاں موت کے ہرکارے موت تقسیم کرتے رہیں
گے؟ہم کس سے التجا کریں کسے الزام دیں
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اہل کراچی پوچھتے ہیں کہ ہمارے شہر کی رونقیں کہاں گئیں اس شہر کی روشنیاں
مدھم کیوں پڑگئیں شہر قائد پر چھائی سوگ کی فضا کب ختم ہوگی شہر قائد کی
کہانی اس کی زبانی سنیں
یہی شہرتھاجو سوتا نہیں تھا
اندھیرا محلوں میں ہوتا نہیں تھا
بسوں کی سدا سونے نہیں دیتی تھی
یہ سمجھو یہاں رات ہوتی نہیں تھی
وہ ٹھیلوں پہ بکتی ہوئی مونگ پھلیاں
بڑی دیر تک جاگتی تھی یہ گلیاں
یہاں رہنے والوں میں تھا بھائی چارہ
جو دشمن کو ہرگز نہیں تھا گوارا
ہوئی پھر میرے خلاف اک سازش
تھمی ہی نہیں جب سے لاشوں کی بارش
اب تو کراچی میں ظلم کا ایک طوفان ہے جو وہاں کے امن کو بہائے لے جا رہا ہے
اور اہل اقتدار ظلم و بربریت کے اس بازار میں بھی آنکھیں موندے اقتدار
اقتدار کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی
جارہی ہے ہر کوئی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے درد بڑھتا جا رہا
ہے بجائے حکمران اس پر مرہم رکھتے ان کے دکھوں کا ازالہ کرتے اور مصیبت کی
اس گھڑی میں ان کی دلجوئی کرتے،خواب دیکھنے میں مصروف ہیں پہلے شمالی علاقہ
جات کو اور خیبر پختونخواہ کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا گیا اور اب
روشنیوں کے شہر میں خون کی ہولی جاری ہے اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ کوئی دن
ایسا نہیں ہوتا کہ جب کراچی کے گلیوں میں خون نہ بہے،حکمران طبقہ کو اس ظلم
کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر حکمت عملی تشکیل دے کر وہاں کے امن کوجلد سے جلد
بحال کرائے کیونکہ حکمرانوں کا کام صرف حکمرانی کرنا نہیں ہے اپنی رعایا کا
خیال رکھنا بھی ہے ظلم کو روکنا بھی ہے اور انہیں اپنی رعایا کے سلسلے میں
سوال کیا جائے گا،یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ کچھ ذمہ دار لوگ کہتے ہیں کہ
انہیں پتا ہے کہ شہر قائد کے امن کا دشمن کون ہے ؟لیکن اس دشمن کے خلاف
کاروائی کیوں نہیں ہوتی ؟ عروس البلاد کراچی کی روشنیوں کو جلانے میں قہقہے
اور مسرتیں واپس لانے میں حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی
کرکے میرے کراچی کو اسلحہ سے پاک کر دیا جائے اور اہل کراچی کوبھی اپنے شہر
کے امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ فرمان باری تعالیٰ کے
مفہوم کے مطابق ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک
وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل لیتی۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔آمین |