(پروفیسر مظہر) سرگوشیاں (22 ستمبر 21ء)
لگ بھگ دو ماہ تک سیلاب تباہی وبربادی کی داستانیں رقم کرتا رہا۔ بیس لاکھ
ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ، بیس ہزار مربع کلومیٹر زمین برباد اور ستّر اضلاع
اِس آفتِ سماوی کا شکار۔ تا حدِنگاہ پانی ہی پانی۔ وہ پانی جو حیات وممات
لائے، وہ پانی جو جھرنوں اور آبشاروں کی صورت میں ایسی نغمگی اور جلترنگ
لائے کہ کائینات جھوم جھوم جائے اور بصورتِ سیلاب سب کچھ خس وخاشاک کی طرح
بہا لے جائے۔ تباہیوں اور بربادیوں کا یہ عالم کہ بپھرتی موجوں سے عمرِرواں
شکست کھاتی ہوئی، اُجڑی بستیاں، دشت ودمن اور صحنِ چمن میں اُداسیوں کے
ڈیرے، آسمان کی وسعتوں کو تکتے اُداس چہرے، بے سروساماں مسجودِملائک۔
ہزاروں انسانوں اور دَس لاکھ جانوروں کا لہو چاٹتا سیلاب۔ دہائیاں دیتے
مجبورومقہور کہ کوئی زیست کے پاتال میں اُتر کر دیکھے تو سہی، سمجھے تو سہی
کہ نوحے دَر دَر، ماتم گھر گھر۔ پنچھی بھی ٹھکانے بدل چکے کہ اِن اُجڑی
بستیوں میں آتشِ شکم کی سیری عنقا ہو چکی۔ اقوامِ عالم حیران کہ یہ سیلاب
ہے یا عذاب۔ اُبلتے دریا ؤں اور گھنگھور گھٹاؤں نے ایک چوتھائی آبادی اور
تین چوتھائی رقبے پر جو تباہی پھیلائی اُس سے سیاستدانوں نے بھی صرفِ نظر
کیا اور میڈیا نے بھی۔ اب عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ
سیلاب کے بعد دوسری آفت مختلف وبائی بیماریوں کی صورت میں نمودار ہونے کو
ہے لیکن ہوسِ اقتدار رَہنماؤں کو لازمۂ انسانیت سے تہی کرتی ہوئی۔
شہبازشریف اور بلاول زرداری غیرملکی دوروں پر، باقی سب اپنی ذات کے گنبد
میں گم۔ خانِ اعظم کو خیبرپختونخوا کی تباہی نظر آتی ہے نہ پرویز الٰہی کو
اُجڑتے پنجاب کی بربادی کہ ’’کرسی‘‘ کا سوال ہے بابا۔
شکوہ شہبازشریف سے نہ بلاول سے کہ وہ دِل خوش کُن نعروں کے داعی نہ بانی
البتہ عمران خاں جس نے دَورِ کرب کو شگفتِ بہار میں بدلنے کی منادی کرتے
ہوئے دعویٰ کیا کہ اُس کے ہمراہ 200 نابغۂ روزگار ماہرین کی ٹیم جو ملک کی
تقدیر بدل دے گی۔ زورآوروں نے بھی صَر صَر کو صبا سمجھتے ہوئے اپنی ساری
توانائیاں خان کے آنگن میں ڈھیر کر دیں اور عدلیہ بھی ڈَٹ کر کھڑی
ہوگئی۔خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں اُن کی تکذیب وتنقیص لائقِ
تعزیر ٹھہری اور ہر کہ مہ پابندِ سلاسل ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ
صحرائے سیاست کی بائیس سالہ آبلہ پائی نے خان کو کُندن بنا دیا ہوگا لیکن
اُنہیں بھی ادراک اُس وقت ہوا جب بادِسموم نے صحنِ چمن میں ڈیرے ڈالے اور
ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلانے لگا۔ اُنہیں پہلا جھٹکا اُس وقت لگا جب خان کی
نگاہِ انتخاب نے عثمان بزدار، محمود خاں اور اُن جیسے کئی دوسرے ایسے بوزنے
منتخب کیے جن کے ہاں بصارت وبصیرت، فکرونظر اور فہم وادراک جنسِ نایاب۔ عقل
ودانش اُن کی فصیلِ فہم سے ٹکرا کر لہولہان۔ ظلمت کو ضیاء سمجھ کے دھوکہ
کھانے والوں کو جب صداقتوں کا ادراک ہوا تو وہ شدید پریشانی اور پشیمانی کے
عالم میں پکار اُٹھے ’’ہم نیوٹرل ہیں‘‘۔ تب خان نے کہا ’’نیوٹرل تو جانور
ہوتا ہے‘‘۔
نرگسیت اور شوریدہ سری کی بُقل مارے خاں صاحب جس کلاہ ودستار کے پیچھے پناہ
لیے ہوئے تھے وہ جب اُنہیں تنہائیوں کی غارِ عمیق میں گرا کر الگ ہوچکی، تب
خان نے مذہب کا سہارا ڈھونڈا اور ’’حقیقی آزادی‘‘ کا بیانیہ لے کر چل نکلے۔
اگر خاں صاحب پاکستان میں دینِ اسلام کی حاکمیت سے مخلص ہوتے تو 2011ء سے
2021ء تک کبھی تو اپنا نصب العین واضح کرتے۔ جب کُرسی چھِن گئی تو ’’ہائے
کمبخت کو کِس وقت خُدا یاد آیا‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خان کو علم ہی نہیں کہ
دینِ مبیں میں حقیقی آزادی کے معنی ومفاہیم کیا ہیں۔ اسلام آزادی کو انسان
کا بنیادی حق قرار دیتا ہے لیکن یہ آزادی شتربے مہار نہیں، احکامِ الٰہی کی
پابند ہے۔ اسلام اُس آزادی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا جو فساد فی الارض کا
سبب بنے یا انتشار اور بدنامی کا باعث ہو۔ دینِ مبیں کے تصورِآزادی میں
حقوق وفرائض دونوں شامل اور ایک دوسرے سے مربوط ومنسلک ہوتے ہیں۔ اِن
احکاماتِ رَبی کے بغیر حقیقی آزادی کا تصور بھی ناممکن لیکن خاں صاحب کے
ہاں حقوق ہی حقوق ہیں فرائض ہرگز نہیں اگر وہ اپنے فرائض کو پہچانتے تو اُن
کے ساڑھے تین سالہ دَورِ حکومت میں یوں بربادیوں کی داستانیں رقم نہ ہوتیں۔
خاں صاحب کو ادراک ہی نہیں کہ حاکمیت دراصل انسان کی آزمائش ہے ۔ سورۃ
الانعام 165 میں ارشاد ہوا ’’وہی ہے جس نے تمہیں زمین کا خلیفہ بنایا اور
تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی تاکہ جو کچھ تمہیں دیا اُس میں تمہاری
آزمائش کرے‘‘۔ حضورِاکرم ﷺ کا فرمان ہے ’’مسلمانوں کی حکومت کا منصب
سنبھالنے والا حاکم اگر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے محنت ودیانت سے
کام نہ لے تو مسلمانوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ
کیا خانِ اعظم اِس آزمائش پر پورے اُترے؟۔ کیا یہ عین حقیقت نہیں کہ اپنے
دَورِحکومت میں اُنہوں نے اپوزیشن کو چور، ڈاکو کہنے اور اُن کے نام بگاڑنے
کے سوا کچھ نہیں کیا جبکہ فرقانِ حمید کا فرمان ہے ’’آپس میں ایک دوسرے پر
طعن نہ کرے اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد
فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اِس روش سے باز نہ آئیں،
وہی ظالم ہیں‘‘ (الحجرات 11)۔ جو شخص ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا داعی ہو
لیکن اِس واضح حکمِ ربی کا خیال نہ رکھے، وہ ایمان کے کس درجے پر ہوگا؟ قوم
خود فیصلہ کر لے۔ فرقانِ حمید میں جا بجا عدل اور امانتوں کی نگرانی کا حکم
دیا گیا ہے۔ سورۃ النساء 58 میں یوں ارشاد ہوا ’’اﷲ تمہیں حکم دیتا ہے کہ
امانتیں اہل کے سپرد کرو اور جب فیصلہ کرو تو عدل سے کرو‘‘۔ بیت المال
(توشہ خانہ) قوم کی امانت جسے خان نے یوں استعمال کیا کہ سَر شرم سے جھُک
گئے۔ اُن کے پیمانۂ عدل کو ساڑھے تین سالہ دورِحکومت میں سب نے جانچ پرکھ
لیا۔ عرض ہے کہ محض ریاستِ مدینہ کا نام لینے یا لاالہ اﷲ کا ورد کرنے سے
بات نہیں بنتی بلکہ اُس معیار پر پورا اُترنے سے بنتی ہے جو رَبِ لم یَزل
نے فرقانِ حمید میں جابجا مقرر کیا ہے۔ سورۃ المعارج میں درج معیار کے
مطابق ’’جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں۔ جو اپنی
گواہیوں میں راستبازی پر قائم رہتے ہیں‘‘ اور سورۃ الفرقان 63 کے مطابق جو
زمین پر نرم چال چلتے ہیں ‘‘۔ سورۃ الحجرات آیت 6 میں درج ہوا ’’اے لوگو!
جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا
کرو‘‘۔ خاں صاحب کی صورتِ حال یہ کہ جو کوئی بھی اُن کے کان میں سرگوشی کرے
وہ بلا تحقیق اُسے سچ مان لیتے ہیں۔ سورۃ ص آیت 28 میں فرمایا ’’اے داؤد!
ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے اِس لیے تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ
حکومت کرو اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو کہ یہ تمہیں اﷲ کی راہ سے بھٹکا
دے گی۔ جو لوگ اﷲ کی راہ سے بھٹکتے ہیں، یقیناََ اُن کے لیے سخت سزا ہے کہ
وہ یومِ حساب کو بھول گئے‘‘۔ ربِ لم یزل نے ایک مسلمان کے لیے جو معیارات
مقرر کیے ہیں، میں نے اُن میں سے چند کی ہلکی سی جھلک پیش کی ہے۔ اگر خان
کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت پرنگاہ دوڑائی جائے تو وہ کسی ایک معیار پر
بھی پورا نہیں اُترتے۔ امانتوں کی حفاظت وہ نہیں کر سکے، عہد کی پاسداری کا
یہ عالم کہ یوٹرن پر فخر اور زمین پر نرم چال چلنے کو وہ کسرِشان سمجھتے
ہیں۔ اُن کی ضد، انا اور نرگسیت کے قصے زباں زدِعام۔ اِس کے باوجود بھی
پیروکاکوں کی ایک معقول تعداد اُن کی پیروی کرتی ہوئی۔ اُن کے دین کے بارے
میں خطابات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کچھ
لوگوں کے نزدیک پاکستان میں ایک ایسا فرقہ وجود میں آچکا ہے جن کا ماننا ہے
کہ عمران خان جو بھی کہے، وہی سچ، باقی سب جھوٹ۔
|