ڈوبتے پاکستان میں خواجہ سراؤں کا خوف

دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں نے راتوں کو جاگ کر تحقیق کی ہے اور پتہ چلایا ہے کہ پاکستان میں آنے والی سیلابی تباہی کی ذمے دار گلوبل وارمنگ ہے جس میں پاکستان نے نہ ہونے کے برابر حصہ ڈالا ہے۔

ماہرین کہہ رہے ہیں کہ جن امیر ملکوں کی وجہ سے ہم پر یہ تباہی آئی ہے وہ پاکستان کو ہرجانہ دیں۔ انجلینا جولی پاکستان کا دورہ کر کے گئی ہیں اور انھوں نے فرمایا ہے کہ پوری دنیا کے آفت زدہ علاقے دیکھے ہیں لیکن اتنی تباہی نہیں دیکھی۔

عمران خان ہر چوتھے دن امدادی رقوم اکٹھی کرنے کے لیے ٹیلی تھون کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم امریکہ پہنچ کر عالمی ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو صحافی بھی فیلڈ رپورٹنگ کر کے آتا ہے وہ بھوک، بیماری اور ناامیدی کی ایسی کہانی بیان کرتا ہے جو اس نے اپنے کیریئر میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

ایسے وقت میں جب اس آفت سے نمٹنے کے لیے اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر یکسوئی سے مصیبت زدگان کی بحالی کے لیے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے تو جماعت اسلامی کے ایک سینیٹر ہیں جن کو یاد آتا ہے کہ چار سال پہلے ہماری پارلیمان نے خواجہ سراؤں کو تمام شہریوں کے برابر حقوق دیے تھے وہ اسلام کے خلاف ایک سازش ہے اور ہمارے مثالی خاندانی نظام پر ایک حملہ ہے۔


(جی یہ وہی خاندانی نظام ہے جس میں خاندان پر لازم ہے کہ اگر گھر میں لڑکی کا گلا کاٹا جا رہا ہو یا اسے ڈمبل سے مارا جا رہا ہو تو کوئی مداخلت نہ کریں کیونکہ اس سے خاندان بدنام ہو سکتا ہے۔)

ہو سکتا ہے میری طرح آپ نے بھی کبھی سینیٹر مشتاق صاحب کا نام نہ سنا ہو لیکن آپ نے جماعت اسلامی کا نام ضرور سنا ہو گا۔ اگر جماعت اسلامی کا نام بھی نہیں سنا تو ان کے فلاحی ادارے الخدمت کا نام حالیہ سیلاب کے دنوں میں ہر طرف گونج رہا ہے۔

الخدمت کے کارکن وہاں وہاں پہنچ کر لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جہاں اور کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ کشتیوں میں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال رہے ہیں۔ ان کے لیے خیمے، دوائیں پہنچا رہے ہیں۔ کسی کی مدد کرنے سے پہلے اس سے اس کا مذہب یا فرقہ نہیں پوچھتے۔

آپ نے بھی وہ ویڈیوز دیکھی ہوں گی جس میں الخدمت کے رضاکار اپنی جان پر کھیل کر بلیوں اور کتوں کو محفوظ مقامات تک پہنچا رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو جماعت اسلامی کے نظریاتی مخالف ہیں، کبھی زندگی میں جماعت کو ووٹ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن سیلاب زدگان کی امداد کے لیے چندہ صرف جماعت اسلامی کی تنظیم الخدمت کو دیتے ہیں۔

یہ سارے نیک اور احسن کام دیکھ کر کئی دردمند یہ پوچھتے ہیں کہ لوگ چندہ تو جماعت اسلامی کو دیتے ہیں لیکن ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

اس کا سیدھا سا جواب ہے سینیٹر مشتاق جیسے لوگ اور ان کی ذہنیت جو بقول ایک خواجہ سرا کے اس مصیبت کے وقت میں بھی خواجہ سراؤں کی شلواریں ٹٹول رہی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ خواجہ سرا پاکستان کا شاید سب سے دھتکارا ہوا طبقہ ہیں۔ کئی سالوں سے پاکستان کے کئی علاقوں میں ان کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ پاکستان کے دھتکارے ہوئے لوگ بھی انھیں دھتکارتے ہیں۔

پاکستانی مرد اس سے بڑی گالی کوئی نہیں سمجھتا کہ کوئی اسے خواجہ سرا یا کھسرا کہہ دے۔ ان کی قسمت میں یہی دیکھا گیا ہے کہ وہ یا تو بھیک مانگیں یا ناچیں گائیں۔

اپنے گھر والوں سے بھی گالیاں کھائیں اور بازار میں بھی رسوا ہوں۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی اپنے حقوق کی بات کرنے والا یا پڑھا لکھا خواجہ سرا نظر آ جائے تو ہماری مشرقی روایات خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔

اسی لیے چار سال پہلے جب خواجہ سراؤں کو تقریباً انسان ماننے والا قانون پاس ہوا تو ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ اگر ہمارے قانون دان سر جوڑ کر بیٹھ جائیں تو مظلوموں کا بھلا بھی کر سکتے ہیں۔

سینیٹر مشتاق نے قوم کو نہیں بتایا کہ جب سے یہ قانون پاس ہوا ہے ہمارے ملک میں فحاشی اور عریانی میں کتنا اضافہ ہوا ہے (اور اگر ہوا ہے تو سینیٹر صاحب نے اس کا مشاہدہ کہاں پر کیا ہے)، خواجہ سراؤں نے کتنے لوگوں کی شادیاں تڑوائی ہیں، کتنے پاکباز نوجوانوں کو راہِ راست سے گمراہ کیا ہے۔ اور کیا ہمارا ایمان، ہمارا ملک، ہمارا معاشرہ اتنی کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے کہ خواجہ سراؤں کو انسان ماننے سے اس کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔

جماعت اسلامی کو چاہیے کہ اگر وہ واقعی اس معاشرے کو سدھارنا چاہتی ہے اور کچھ ووٹ بھی لینا چاہتی ہے تو ٹی وی پر الخدمت کے رضاکاروں کو بھیجے اور خواجہ سراؤں کے خواب دیکھنے والے سینیٹر حضرات کو کچھ عرصے کے لیے سیلاب زدہ علاقوں میں بھیجے۔
 
 
Partner Content: BBC Urdu
محمد حنیف
About the Author: محمد حنیف Read More Articles by محمد حنیف: 15 Articles with 27646 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.