سعودی عرب کی تاریخ میں ایک اہم ردِوبدل کرتے ہوئے خادم
حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے 27؍ ستمبر 2022 کو شاہی فرمان جاری
کرکے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کوسعودی عرب کا وزیراعظم مقرر کیا ہے۔اس
سے قبل وزیر اعظم کا عہدہ بادشاہ کے پاس ہوا کرتا تھا ۔ شہزادہ محمد بن
سلمان اب سعودی کابینہ کے سربراہ ہونگے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اسی روز
متعدد شاہی فرامین جاری کرتے ہوئے کابینہ میں ردوبدل کیا ہے۔ نائب وزیر
دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے جبکہ طلال بن
عبداﷲ بن ترکی العتیبی معاون وزیر دفاع ہونگے۔شاہی فرمان کے مطابق ’شہزادہ
محمد بن سلمان ولیعہد اور وزرا کونسل کے سربراہ ہونگے۔‘ ایک فرمان میں
وضاحت کی گئی ہے کہ وزرا کونسل کے جن اجلاسوں میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز
خود شریک ہونگے ان کی صدارت وہ خود کرینگے۔خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن
عبدالعزیز کی نئی وزرا کونسل کی تشکیل کے مطابق وزیرتعلیم ڈاکٹرحمد بن محمد
آل الشیخ کی جگہ یوسف بن عبداﷲ بن محمد البنیان کو نیا وزیر تعلیم مقرر کیا
گیا ہے۔ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نایف بن عبدالعزیز وزیر داخلہ،شہزادہ
فیصل بن فرحان بن عبداﷲ وزیر خارجہ، شہزادہ عبداﷲ بن بندر بن عبدالعزیز
وزیر نیشنل گارڈز، ڈاکٹر توفیق بن فوزان الربیعہ وزیر حج و عمرہ کے علاوہ
دیگر وزارتوں پر وزراء کو مقرر کیا گیا ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان کے وزیر
اعظم سعودی عرب کی حیثیت سے مقرر کئے جانے پر عالمی سطح پر انہیں مبارکبادی
کے پیامات موصول ہورہے ہیں اور انہیں تہنیت پیش کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار
کیا جارہا ہے کہ وہ سعودی عرب کو مزید بلندیوں پر لے جائیں گے۔
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے وزیراعظم مقرر کرنے
پر ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے شاہی فرمان کو
سراہا اور اسے حکمتِ عملی پر مبنی فیصلہ قرار دیا۔امارات کے نائب صدر و
دبئی حکمراں شیخ محمد بن راشد آل مکتوم نے بھی شہزادہ محمد بن سلمان کو
مبارکباد پیش کی ۔بحرین کے فرمانروا شاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ نے ولیعہد
کو تہنیتی پیغام روانہ کیا اور اپنے مکتوب میں شاہ بحرین نے اس یقین کا
اظہار کیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان شاہی اعتماد پر پورا اتریں گے نیز سعودی
عرب کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف
اور فوجی سربراہ باجواہ نے بھی محمد بن سلمان کو وزیر اعظم مقرر کئے جانے
پر مبارکبادپیش کی۔
افغانستان میں لڑکیوں او رخواتین کی تعلیم کیلئے نائب وزیر خارجہ کی
درخواست
افغانستان کے حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں معاشی اعتبار سے اس وقت افغان
طالبان کی حکومت پریشان کن صورتحال سے دوچار ہے۔ گذشتہ سال اگست میں امریکی
اور نیٹو افواج کا تخلیہ اور اسکے بعد صدر اشرف غنی کا ملک سے فرار ہونا
عالمی سطح پر حیرت ناک خبریں تھیں ۔ بیس سال کے بعد افغانستان نے طالبان نے
دوبارہ اقتدار حاصل کیا۔ طالبان کی حکومت آنے کے بعد افغانستان میں امریکہ
نے افغانستان کے اثاثہ جات اور امدادی فنڈس کو معطل کردیا جس کی وجہ سے
افغانستان معاشی طور پر نازک دوہرائے پر کھڑا ہے ۔ افغان عوام انتہائی کسم
پرسی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حالات کی سنگینی کا عالمی سطح
پر اقوام متحدہ ، امریکہ اور دیگر عالمی ممالک کو اندازہ ہے ۔ افغانستان کے
ساتھ ابھی تک کسی ملک نے سفارتی تعلقات مکمل طور پر قائم نہیں کئے ہیں۔ ان
حالات میں افغانستان مستقبل قریب میں مزید سنگین حالات سے دوچار ہوسکتا ہے۔
طالبان حکومت میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ عالمی سطح پر اہم
موضوع ہے ، کیونکہ طالبان حکومت نے صرف پرائمری سطح تک لڑکیوں کی تعلیم کو
جائز قرار دیا ہے جبکہ اعلیٰ و عصری تعلیم کے حصول کیلئے خواتین و لڑکیوں
کو اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اسی اثناء طالبان کے ایک سینئر اہلکار نائب وزیر
خارجہ شیر محمد عباس ستانگزئی نے کابل میں طالبان کے ایک اعلیٰ اجتماع کے
دوران درخواست کی ہیکہ وہ لڑکیوں کیلئے تمام سیکنڈری اسکولوں کو مزید تاخیر
کے بغیر دوبارہ کھول دے۔ ان کا کہنا تھاکہ اسلام میں خواتین کی تعلیم پر
کوئی پابندی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر اسکول نہ کھولے گئے تو ان لڑکیوں
کیلئے تعلیم کے حصول کا کوئی اور راستہ نہیں ہے کیونکہ بیشتر کا تعلق ایسے
خاندانوں سے ہے جہاں کوئی بھی تعلیم یافتہ نہیں ہے۔اسکول نہیں کھولے گئے تو
وہ کہاں اور کس جگہ پڑھ سکتی ہیں کیونکہ ان کے والد، بھائی، شوہرناخواہ
ہیں۔جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ گذشتہ سال طالبان حکومت کے اقتدار حاصل
کرنے کے بعد ،طالبان نے چھٹی جماعت سے آگے کی تمام کلاسز کی لڑکیوں کو
اسکول واپس آنے سے روک دیا تھا، اور اس اقدام کیلئے مذہبی اصولوں کو جواز
کے طور پر پیش کیا تھا ۔ نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ تعلیم بغیر کسی
امتیاز کے مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔ یہاں موجود عالم دین میں سے کوئی
بھی اس فرض سے انکار نہیں کرسکتا۔ انکا مزید کہنا تھاکہ کوئی بھی شریعت کی
بنیاد پر خواتین کے تعلیم کے حق کی مخالفت کا جواز پیش نہیں کرسکتا۔ واضح
رہے کہ طالبان نے گذشتہ ماہ اگست میں ہمت اخوندزادہ کو قائم مقام وزیر ِ
تعلیم مقرر کیا تھا۔نئے وزْر تعلیم کا کہنا ہیکہ وہ شرعی قوانین کی حدود
میں رہتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کیلئے پُر عزم ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے
طالبان حکومت پر زور دیاجارہا ہے کہ وہ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کیلئے
اسکول دوبارہ کھولیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق گذشتہ ایک سال کے
دوران دس(10)لاکھ سے زائد لڑکیوں کو مڈل اسکول اور ہائی اسکول جانے سے روک
دیا گیا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ نائب وزیر خارجہ کی جانب سے کیگئی درخواست کو
طالبان حکومت کس زاویہ سے دیکھتی ہے اور کیا فیصلہ کرتی ہے۰۰۰
افغان حکومت اور روس کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے اقدام
افغانستان میں طالبان حکومت ملک کی سنگین معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے
پُر عزم دکھائی دیتی ہے اور اس سلسلہ میں عالمی سطح پر پیشرفت کرتی دکھائی
دے رہی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں طالبان حکومت نے روس کے ساتھ
ایک معاہدے پر دستخط کی ہے۔ تاکہ اپنے عوام کی خوراک اور ایندھن کی ضروریات
پوری کرنے کے لیے روس سے گندم اور تیل خرید سکے۔ رعایتی نرخوں پر گندم کے
اس معاہدے سے طالبان حکومت کو اپنے عوام کیلئے خوراک کے مسائل کم کرنے کا
موقع ملے گا، نیز علاقائی تجارت کو بھی فروغ ملے گا۔وزیر تجارت و صنعت
عبدالسلام جواد اخوندزادہ نے اس سلسلہ میں بتایا کہ ’اس معاہدے کے تحت گیس،
ڈیزل، روس سے آسکے گا جو کم قیمت کی بنیاد پرمل سکیں گے۔‘ کسی ملک کے ساتھ
طالبان حکومت کا یہ اب تک کا سب سے بڑا باضابطہ تجارتی معاہدہ ہے جوانکی
حکومت قائم ہونے کے ایک سال بعد ہوا ہے۔وزیر تجارت و صنعت نے کہا 'تیاری
جاری ہے تاکہ گندم اور دیگر اشیا کی ترسیل ممکن ہو سکے۔ یہ سب سے بڑی ڈیل
ہے۔ ان میں سے تیل اور ڈیزل ایک ملین ٹن کی مقدار میں شامل ہونگے۔ جبکہ
پانچ لاکھ ٹن پترولیم گیس کی درآمد ہو گی۔’انہوں نے گندم کے بارے میں بتایا
یہ دو ملین ٹن ہو گی اور ہر سال آتی رہے گی۔ گندم کا یہ معاہدہ غیر معینہ
مدت کیلئے بتایا جارہا ہے۔ اخوند زادہ نے مزید کہا کہ روسی حکومت کے ساتھ
طویل مدت کے مزید کئی معاہدات ہونگے۔ واضح رہے اس معاہدے سے پہلے طالبان کے
وزیرتجارت ایک ماہ قبل روسی دورے پر گئے تھے۔طالبان حکومت نے ماہ جون میں
ایران کے ساتھ 350000 ٹن کی پٹرولیم مصنوعات کا معاہدہ کیا تھا۔اب دیکھنا
ہیکہ روس اور ایران کے ساتھ طالبان حکومت نے جو معاہدے کئے ہیں اس سے
امریکہ پر کیا اثر پڑتا ہے اور وہ اپنی طالبان اقتدار کے خلاف پالیسی میں
کس قسم کا بدلاؤ لاتا ہے۔
ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج میں شدت
ایران میں22سالہ مہسا امینی کو گذشتہ دو ہفتہ قبل تہران میں درست طور پر
حجاب نہ پہننے پر اخلاقی پولیس نے حراست میں لیا تھا ۔مہسا امینی کے رشتہ
داروں کا کہنا ہے کہ اخلافی پولیس نے ان پر بدترین تشدد کیا اور سر پر چوٹ
لگنے کے باعث وہ دم توڑ گئیں۔ حراست کے دوران مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اب ایران کے 31صوبوں تک پھیل
گیا ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ملک سے 31 صوبوں تک پھیل گئے
مظاہروں سے ’فیصلہ کْن انداز میں نمٹنے‘ کا عزم کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے
مطابق بہت سے ایرانی شہری صدر رئیسی کا تعلق 1980 کی دہائی میں بڑے پیمانے
پر ہونے والے سیاسی قتل عام کے ساتھ جوڑرہے ہیں۔ بتایا جاتا ہیکہ صدر
ابراہیم رئیسی اس وقت ان چار ججوں میں شامل تھے جو خفیہ عدالتوں کا حصہ تھے
اور ان عدالتوں نے بہت سے ایرانی شہریوں کو مختلف مقدمات میں موت کی سزائیں
سْنائی تھیں۔جمعرات 29؍ ستمبر کو ایران کے اسابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی
کی بیٹی فائزہ ہاسشمی کو مظاہرین کو ’’ہنگاموں پر اُکسانے‘ کے الزام میں
گرفتار کیا گیاہے۔ گرفتاری سے قبل فائزہ ہاشمی نے بتایا تھاکہ ایرانی حکومت
احتجاج کرنے والوں کو دبانے کیلئے انہیں ’فسادی‘ اور ’باغی‘ قرار دے رہی ہے
اور اسی بنیاد پر ان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ فائزہ ہاشمی کے بیان کی
آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہیکہ ’’ فائزہ ہاشمی کہہ رہی ہیں کہ
: حکام کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ احتجاج نہیں ہے بلکہ فساد ہے، لیکن
حقیقت یہی ہیکہ یہ لوگ احتجاج کررہے ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ ’جنہوں
نے احتجاج دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی نوجوان نے کچرے کو آگ لگائی تو
اس کی وجہ آنسو گیس کا اثر کم کرنا تھا‘۔ ’اگر پولیس اہلکاروں کو ماررہے
تھے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پر حملہ کیا گیا اور دفاع میں وہ ایسا کررہے
تھے‘۔ تعلیم کے شعبے سے وابستہ سینکڑوں افراد نے خواتین کے حقوق کیلئے کام
کرنے والی تنظیموں کے نام کھلا خط جاری کیا ہے جس میں انہو ں نے زور دیا
ہیکہ وہ ایران میں خواتین اور کمزور طبقات کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے انکا
ساتھ دیں۔ بتایاجاتا ہیکہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد کا تعلق یورپ،
امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا ی یونیورسٹیوں سے ہے۔اس خط کے مطابق بتایا
جارہا ہے کہ ’یہ ملک گیر احتجاج نہ صرف مہسا امینی کے قتل کے خلاف ہے بلکہ
حکومت کے سخت گیر اقدامات کے خلاف بھی ہے‘۔ اس خط میں ایران حکومت کے خلاف
جاری ملک گیر احتجاج کا ساتھ دینے کے لئے عوام سے اپیل کی جارہی ہے اس سے
واضح ہوتاہیکہ ایران کے حالات اگلے چند دنوں میں مزید خراب ہوسکتے ہیں ۔
ایک طرف ابراہیم ریئسی کی حکومت احتجاجیوں سے سختی دکھائی دے رہی ہے تو
دوسری جانب احتجاج میں بھی شدت پیدا ہوتے دکھائی دے رہی ہے ۔
سعودی عرب میں پہلی وومن سائیکلنگ ریس
مملکت سعودی عرب نے پہلی وومن سائیکلنگ ریس کا اعلان کیا ہے جو رواں برس
14؍ اکٹوبر کو ہوگی۔ سعودی آرگنائزیشن کے ماتحت لیڈیز کمیٹی کی چیئرپرسن
شہزادی مشاعل بنت فیصل نے کہا ہیکہ ‘یہ اعلان کہ مملکت میں خواتین کے
درمیان سائیکلنگ کی پہلی ریس منعقد ہونے جارہی ہے ایسا تاریخی لمحہ ہے جسے
برسوں یاد رکھا جائے گا‘۔ ذرائع کے مطابق یہ سائکلنگ کے مقابلے سات مراحل
میں ہونگے۔ مقابلے کا کل فاصلہ 625کلو میٹر ہوگا ۔ یہ مملکت کے سات مختلف
علاقوں میں منعقد ہونگے۔شہزادی مشاعل نے اسپورٹس وزیر اور سعودی اولمپک
کمیٹی کے سربراہ شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے
کہا کہ یہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انکی لامحدود مدد
ہمیں حاصل ہے۔ سائیکلنگ کی سعودی آرگنائزیشن کے چیئرمین عبداﷲ الوثلان کا
بھی انہو ں نے شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ انکی بدولت یہ کامیابی ملی اور
وہ ہمارے اس مشن میں برابر حصہ لیتے رہے ہیں۔ سائیکلنگ ریس بھی ولیعہد
شہزادہ محمد بن سلمان کا ویژن 2030کے تحت خواتین کو ہر شعبہ ہائے حیات میں
حصہ دار بنانا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ویژن 2030کے تحت خواتین و
لڑکیاں سعودی عرب کی ترقی میں اہم رول اداکررہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ
کئی مقامات پر شرعیت مطہرہ کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور سائیکلنگ ریس میں بھی
خواتین ایسا لباس زیب تن کررہی ہیں جس سے انکی عریانیت ظاہر ہورہی ہے ۔ اب
دیکھنا ہے سعودی معاشرہ مملکت میں اسے کتنا سراہاتا ہے ۔ ویسے شاہی حکومت
کے خلاف آواز اٹھانا مشکل ہوچکا ہے اورڈرو خوف کی وجہ سے ویژن 2030کے تحت
ہونے والے فواحش پر مبنی اقدامات کے خلاف سعودی عوام میں سرد جنگ جاری ہے۔
|