قارئین آپ نے مختلف اخبارات ورسائل میں صدر راج ، گورنر
راج ، بادشاہوں کے راج بھاگ ، راج مستری اور راجے راجپوتوں کے بارے میں تو
اکثرو بیشتر پڑھا اورسنا ہو گا۔ مگر آج آپ کو بتاتے ہیں۔ کتا راج۔ آپ اس کو
دہشت گردی کےبعد کتے گردی بھی کہ سکتے ہیں۔دستیاب ریکارڈ کے مطابق ملک میں
مردم شماری کے اعدادوشمار اور خانہ شماری کے ڈیٹا کے علاوہ پچھلی حکومتوں
نے گائے بھیینس بیل بکری اور مرغی شماری تک کام کیا مگر مجال ہے جو کسی
حکومت نے اس طرف توجہ دی ہوکہ اتنا تو دیکھا جائے کہ وطن عزیز میں سات سال
سے کم عمرطلباء کی تعداد زیادہ ہے یا آوارہ کتوں کی۔ سندھ کے دیہاتوں سے
اکثر ٹی وی چینل یہ خبر دیتے رہے ہیں کہ کم سن بچیوں کو آوارہ کتوں نے گھیر
لیا۔ ملک میں آوارہ کتوں کی بہتات ہو گئی ہے ۔ محکمہ صحت آوارہ کتوں کی
تلفی کو تقینی بنائے وغیرہ وغیرہ مگر حکومت سے تو کچھ نہ ہوا البتہ کتوں نے
اپنی اس ہتک اور حق تلفی پر اپنی بقائے باہمی کے لیئے اپنے آپ ہی خودکو
اچھا خاصہ منظم کر لیا ہے۔ اب وہ ہر شریف آدمی پر حملہ آوار ہو جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک شریف النفس پی ایچ ڈی ایگریکلچر آفسیر کسی گاؤں گئے۔ گلی
میں موجود نوزائیدہ بچوں والی کتیا نے ان سے وہ دہشت گردی اور وحشت گردی کی
کہ بس خدا کی پناہ۔ اور یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے دیہاتوں میں سات
سال سے کم عمر بچوں کے سکول نہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ راستے
میں موجود کتا راج سے ڈرتے ہیں۔
انسانوں کو دیکھ دیکھ کر کتے بھی اب ماڈرن ہو گئے ہیں۔ اب وہ بھی اپنی
میٹنگز اور کانفرنسز پوش علاقوں اور مشہور و معروف کھیل کے میدانوں اور
یونیورسٹی گراؤنڈز میں کرتے ہیں۔ جیسے اسلام آباد اور گرد و نواح کے کتے
ویران سبزہ زاروں پارکوں اورہائی وے کے قریب گرین بیلٹ اور اس جیسے کھلے
پلاٹوں میں مٹر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی حال تقریباً دوسرے شہروں اور
ٹاؤنز کاہے۔ دیہاتوں کے کتے بھی دیکھا دیکھی بڑے شہروں میں آ گئے ہیں۔ جس
کی ایک وجوہات تو سمجھ میں آتی ہیں۔ وہ یہ کہ گوشت کتوں کی مرغوب غذا ہے۔
اور دیہاتوں میں گوشت تقریباً کم یاب ہے۔ایک تو غربت کی وجہ سے دیہاتوں میں
گوشت کم ہوتاہے۔ اور اگر کہیں کوئی قصاب بناتا بھی ہے تو نزدیکی شہروں سے
لوگ اسے حلال اور صحت مند سمجھ کر اکٹھا لے جاتے ہیں مزید براں جب سے قیمہ
مشین متعارف ہوئی ہے قصاب بہت کم گوشت ضائع کرتے ہیں۔ دوسرا شہروں میں بڑے
بڑے میرج ہال آباد رہتے ہیں۔آئے روز شادیاں، مہندیاں، منگنیاں ، ختنے،بڑی
بڑی کمپنی سیلیبریشنز اور پارٹیاں چلتی رہتی ہیں جس سے کتوں کی رونق لگی
رہتی ہے۔ تیسری اور بڑی وجہ کہ دیہاتوں میں جس کی گائے، بکری، بھیڑ ،بیل
بھینس، گھوڑا اور گدھا تک مرتا ہے۔ دیہاتوں میں اس کی کانوں کان خبر نہیں
ہوتی۔ ملک میں سڑکوں کا جال بچھا ہے۔جدید اور تیز ترین گاڑیاں دستیاب ہیں
اور یوں یہ مردہ جانور باقاعدہ "حلال" ہو کر راتوں رات شہروں میں شفٹ ہو
جاتے ہیں۔ اور صبح نور کے تڑکے قصابوں کی دکانوں پر ڈاکٹروں کی جعلی مہروں
سے مرصع سج جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں کتوں کا دماغ خراب ہے کہ وہ دیہاتوں
میں بھوکوں مریں۔آج سے تیس پنتیس سال پہلے جب موٹر سائیکل کم اور کتے زیادہ
تھے۔ موٹر سائیکل کی آواز اور پیٹرول کی بو کتوں کے لیئے اتنی ہی مرغوب تھی
جیسےآج کی دیسی گوری نوجوان نسل کے لیئے آرکسڑا کی دھن اور اٹالین پیزا کی
خوشبو۔ مگر اب تناسب بدل کیا ہے۔ ابھی موٹر سائیکل زیادہ اور کتے کم ہیں۔
اور وقت کے ساتھ کتے اس آواز اور بو سے دوستانہ کر چکے ہیں کیونکہ کتوں نے
شہر میں رہنا ہے اور ادھر موٹر سائیکل زیادہ ہیں۔
پہلے کبھی کوئی پتلون پہنے نوجوان گاؤں میں آتا تو کتے اسکی آمد کا پتہ
دیتے تھے اور خوب سواگت کرتے تھے مگر اب کتے شہروں میں چلے گئے ہیں اور
پتلونیں دیہاتوں میں آ گئی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں اتوار کی ہی بات ہے کہ
ہمارے ایک عزیز اپنی بھانجی کو سرگودھا یونیورسٹی چھوڑنے گئے۔ یونیورسٹی
پہنچے تو دیکھا ایک کتیا ایک طالبہ کو گھیر ے ہوئے ہے۔ وہ صاحب جذبہ ہمدردی
کے تحت گاڑی سے اترے تب تک کتیا اس طالبہ کو کاٹ چکی تھی۔ ان صاحب نے اس
بپھری کتیا کوایک ٹھوکر تولگائی مگر اڈھیر عمر آدمی جو ساٹھ کے پیٹے میں ہو
اپنا دفاع کیسےکرتا۔ ان کو بھی کتیا کاٹ گئی ۔ اب وہ متاثرہ طالبہ اوران کے
پیچھے وہ متاثرہ صاحب سرکاری ہسپتال گئے پتہ چلا کہ سرکاری ہسپتال میں
اتوار کو ویکسین نہیں لگائی جاتی۔ اب شہر میں مختلف میڈیکل سٹوروں سے
ویکسین کی تلاش شروع ہو گئی۔ تب پتہ چلا کہ مطلوبہ ویکسین یونیورسٹی روڈ پر
واقع ایک سٹور پر دستیاب ہے۔ ان صاحب کے وہاں پہچنے پر وہ متاثرہ طالبہ بھی
وہاں سے ویکسین لے چکی تھی جو کہ لگنی سرکاری ہسپتال والوں سے ہی تھی۔ ان
صاحب کے واپس ہسپتال آنے پر اس طالبہ سے ان کی یہ چوتھی ملاقات تھی جو شاید
اب یہ سوچ رہی ہو کہ بابا اب تو میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا۔ جب ایک طالبہ
اور کسی آدمی کو روشن دن سرگودھا شہر کے وسط میں موجود یونیوسٹی میں کتی لڑ
جائے۔ اس ان پڑھ اور بے شعور کتیا کویہ پتا ہو کہ آج اتوار ہے اور میرے
کاٹے ہوئے کو کسی سرکاری ہسپتال سے اتوار کو ویکسین نہیں لگائی جاتی جبکہ
دوسری طرف ہسپتال کی پڑھی لکھی اور باشعور انتظامیہ اس زعم یا خوش فہمی میں
مبتلا ہو کہ شہر بھر کےکتے بھی اتوار کو چھٹی کرتے ہیں اور کسی کو نہیں
کاٹیں گےاور مطلوبہ ویکسین بھی شہر میں قرب جوار سے نہ مل رہی ہو اور
یونیورسٹی کے قریبی میڈیکل سٹور میں دستیاب ہو تو پھر آسانی سےیہ سمجھ لیا
جائے کہ کتی چوروں کے ساتھ نہیں بلکہ سٹوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
|