کہتے ہیں کسی علاقے کا بادشاہ شکار کا شوقین تھاایک دن شکار پر گیا واپسی
پہ لیٹ ہو گیا سردیوں کے دن تھے واپسی پر محل کے دروازے پر دربان کو کھڑا
دیکھا شدید سردی میں چاک و چوبند مگر تن کر کھڑا تھا بادشاہ چونکہ بادشاہ
تھا شان بے نیازی میں اس کے پاس سے گزر گیا لیکن تھوڑا آگے جاتے ہی اسے کچھ
خیال آیا اور واپس پلٹا دربان کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ ایک بات بتاؤ
سنتری نے کہا حکم میرے آقا بادشاہ نے پوچھا تمہیں سردی نہیں لگتی دربان
بولا جی شہنشاہ معظم سردی تو بہت لگتی ہے جناب۔لیکن میرے پاس کوئی گرم
پوشاک ہے نہیں اس لیے مجبوری ہے۔بادشاہ بولا کوئی بات نہیں میں ابھی جا کے
تمہیں گرم لباس اور کمبل بھجواتا ہوں یہ کہا اور بادشاہ اپنے مصاحبین سمیت
واپس محل کے اندر چلا گیا محلات کے اندر کی دنیا چونکہ کچھ مختلف ہوتی ہے
لہذا اندر جاکے بادشاہ سلامت دیگر مشاغل میں کچھ ایسے مشغول ہوئے کہ انہیں
دربان اور کمبل یاد ہی نہ رہا اگلی صبح جب لوگوں اٹھ کے دیکھا تو وہ دربان
جو سالہا سال سے محل کے دروازے پر ڈیوٹی دے رہا تھا دروازے پر ہی مردہ پڑا
تھا دربان کی موت پر مختلف چہ گوئیاں ہونے لگیں کسی نے کہا اسے کسی نے رات
کو قتل کر دیا ہے کسی نے کہا اسے دل کا دورہ پڑا ہے الغرض جس کی جو سمجھ
میں آیا اس نے اس کی وجہ بیان کردی معاملہ جب بادشاہ تک پہنچا بادشاہ نے
گذشتہ رات کا احوال دربار میں بیان کیا تو وہاں بیٹھے اتالیق نے کہا کہ اس
دربان کو نہ کسی نے قتل کیا نہ کوئی دل کا دورہ پڑا اسے اس کی امید نے مارا
ہے سب حیران ہوئے اور بزرگ کی طرف دیکھا انہوں نے وضاحت کی کہ یہ دربان
سالہاسال سے ہر سردی گرمی اور نرم گرم موسم میں ڈیوٹی دے رہا تھا اسے سردی
لگتی تھی مگر اس کے پاس جو کچھ تھایہ اسی پہ شاکر تھا اسے کسی گرم لحاف و
کمبل کی امید ہی نہ تھی گذشتہ رات بادشاہ نے اسے امید دلا دی اور وہی سردی
اس کے لیے قیامت بن گئی جو برسوں سے وہ جھیلتا آ رہا تھا ساری رات وہ بار
بار محل میں دیکھتا رہا کہ شاید ابھی کوئی کمبل لے کے آجائے گا ابھی بادشاہ
گرم لحاف بھیجے گا اور اس امید و یاس نے اس کی جان لے لی۔مجھے یہ کہانی
اپنے ضلع تلہ گنگ کے بنتے ٹوٹتے اور پھر بنتے بنتے اور بن گیا بن رہا ہے
بننے والا ہے کی روازنہ آنے جانیوالی اطلاعات کی وجہ سے یاد آئی اگر
دیانتداری سے دیکھا جاے تو اس ایشو کو لیکر اہل سیاست نے لوگوں اور خاص کر
تلہ گنگ کے عوام کے جذبات سے خوب کھیل تماشہ کیا کبھی ن لیگ والوں نے بھرے
جلسے میں میاں نواز شریف سے اعلان کروا کے اپنا الو سیدھا کیا کبھی پیپلز
پارٹی والوں نے سردار منصور ٹمن سیکریٹریٹ میں گورنر لطیف کھوسہ سے صدر
مملکت سے جا کر سب سے پہلے ضلع تلہ گنگ کی بات کروں گا کہلوا کر اپنا
رانجھا راضی کرنے کی ناکام کوشش کی تو کبھی تحریک انصاف کے لوگ سو ڈیڑھ سو
لوگ اکٹھے کرکے ضلع کے قیام کے جعلی خط لہراتے رہے مگر کسی ایک سے بھی کچھ
نہ بن سکا کیوں کہ کوئی ایک بھی اس ایشو پر شاید سنجیدہ تھا ہی نہیں پھر ق
لیگ میدان میں اتری تو عوام نے جھولی بھر دی حافظ عمار یاسر تو اپنے ہی تھے
ساتھ میں تلہ گنگ والوں نے پرویز الہی کے بعد سالک حسین کے دامن کو بھی
اپنے ووٹوں سے بھر دیا ق لیگ نے عمار یاسر کی حد تک اپنی اننگز شاندار
طریقے سے کھیلی مگر ضلع کا معاملہ لٹکتا رہا اور آہستہ آہستہ یہ ایشو دب
گیا پچھلے سال انہی دنوں میں راقم کی اسلام آباد میں سابق صوبائی وزیر
معدنیات حافظ عمار یاسر سے ملاقات ہوئی ضلع تلہ گنگ کے سوال پر حافظ صاحب
نے صاف لفظوں میں بتایا کہ یہ ایک ناقابل عمل منصوبہ ہے اگلے دن خبر فائل
ہوتے ہی جیسے علاقے میں بھونچال اور طوفان آگیا سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا اور
علاقائی بیٹھکوں سے فیس بکی مجاہدین کا شدید ترین ردعمل سامنے آیاکچھ ناکام
سیاسی لوگوں نے موقع غنیمت جان کر وقتی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور ایک
ٹرک اڈے پر دو چار درجن افراد اکٹھے کر کے جلسے کا اہتمام کیا جس میں سینئر
صحافی خوشنود علی خان نے بھی شرکت کی دوسری طرف ایک صاحب وزیر اعظم عمران
خان کے آفس سے ایک لیٹر لے آئے اور الگ میلہ سجا لیا اس وقت یوں لگا کہ بس
ضلع آیا کہ آیا مگر آہستہ آہستہ یہ ایشو ٹھنڈا ہوتا گیا اور لوگ اپنے کاموں
میں مصروف ہوگئے پھر وقت بدلا حکومت بدلی ن لیگ مرکز اور پنجاب میں برسر
اقتدار آئی لیکن ضلع والے معاملے سے مقامی سیاستدان دور دور ہی رہے ایک
ڈیڑھ ماہ کی پنجاب حکومت کے بعد اقتدار کا ہما پھر ق لیگ یعنی پروز الہی کے
سر پر آ بیٹھا ق لیگ میں چوہدری برادران بلکہ پرویز الہی اور مونس کے بعد
اگر کسی کو نمایاں مقام حاصل ہے تو وہ حافظ عمار یاسر ہیں حافظ عمار یاسر
نے اقتدار دوبارہ ملنے کے چند دن بعد پھر سے نوید سنا دی کہ ضلع تلہ گنگ کے
لیے ورکنگ جاری ہے اور اب کی بار ہم عوام کو ضلع تلہ گنگ کا تحفہ دیں گے اس
اعلان کے ہوتے ہی تما م مقامی سیاسی و سماجی حامی و مخالف شخصیات نے حافظ
عمار یاسر کی ہاں میں ہاں ملا دی اور برملا اعلان کیا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں
دوسری طرف سے پنڈی گھیب اور وادی سون کے معززین نے بھی تلہ گنگ کے ساتھ
شمولیت کی حامی بھر لی جس کے بعد ضلعے کے قیام میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہ رہی
لیکن حیران کن وجوہات کی بنا پر ضلع تلہ گنگ کے قیام کا اعلان لمبا ہوتا جا
رہا ہے حالانکہ یہ ایک انتظامی مسئلہ ہے اور وزیر اعلی کے قلم کی ایک جنبش
سے اس کا قیام ممکن بنایا جا سکتا ہے جہاں تک ریونیو کا مسئلہ ہے تواس پر
اعلإن سے قبل غور کرنے کی ضرورت تھی لیکن بہت سے کم ریونیو والے علاقے بھی
ضلع بن چکے ہیں ریونیو کے لیے علاقے میں انڈسٹری لگا کر اور سی پیک راہداری
دے کر ٹول کی مد میں اچھا خاصا ریونیو اکٹھا ہو سکتا ہے اس کے علاوہ اگر
چکوال میانوالی روڈ کی حالت بہترین کر دی جاے تو دندہ شاہ بلاول کے مقام پر
بین الصوبائی شاہراہ پر ٹول پلازہ بنا کر ٹیکس کی مد میں معقول رقم وصول کی
جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے سڑکوں کی حالت خاطر خواہ بہتر بنانا پڑے گی توت
آئل فیلڈ اور کوٹ سارنگ آئل فیلڈ سے بھی رائلٹی وصول کی سکتی ہے مسئلہ
معاملہ یا رکاوٹ جو بھی ہے اسے کھل کر میڈیا کے ذریعے عوام کیسامنے رکھا
جاے چکوال سے اگر پی ٹی آئی کی مقامی قیادت رکاوٹ ہے کوئی انتظامی مسئلہ
درپیش ہے آبادی کم ہے یا کوئی علاقے شامل کرنے میں مسئلہ آرہا ہے تو عوام
کو اعتماد میں لیا جائے اگر اس وقت ضلع تلہ گنگ نہ بن سکا تو پھر شاید
مدتوں نہ بن سکے گا حافظ عمار یاسر صاحب آپ واحد سیاستدان ہیں غالبا جس نے
پہلی بار اس ایشو کے لیے سنجیدہ کوشش کی ہے تلہ گنگ کے عوام کو اس وقت اپنے
علاقے کی تعمیروترقی کا انتظار ہے مگر ضلع کی خاطر وہ تمام ترقیاتی منصوبے
قربان کرنے کو تیارہیں ایسا نہ ہو کہ ضلع بھی نہ بنے اور وزرت اعلی کے
باوجود کوئی بڑا میگا پراجیکٹ بھی نہ مل سکے، تلہ گنگ کے لوگوں کو آپ نے
امید دلائی ہے اور یہ عوام آپ کو وزیر اعلی سے کم نہیں سمجھتی لہذا اب یہ
امید ٹوٹنے نہ دیجیے گا ورنہ سالہا سال سے سردی سہتا دربان مر جائے گااس کے
علاوہ جہاں بہت سے لوگوں کے ارمانوں کا خون ہو گا وہیں اپ کی سیاست بھی
زخمی زخمی ہو جاے گی۔وقت ہے ہمیشہ کے لیے فرزند تلہ گنگ کا عنوان اپنے نام
کر لیں۔اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو
|