تجزیاتی تبصرہ:۔ میر بشیر
سلطان(ابن کشفی)
۲۰۳۱ھ بمطابق ۴۸۸۱ءمیں بھا رت کے شہر فتح پور میں امیر محمد خان نامی ایک
شخص کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہو ئی۔ یہ بچہ بڑا ہو کر آسمان ادب و صحافت پر
درخشاںستارے کی مانند چمک اٹھا۔ اس بچے کا تاریخی نام لیاقت علی خان تھا جو
بعد ازاں علامہ نیاز فتحپوری کی پہچان بن گیا ۔جناب نیاز فتحپوری اپنے
عہدکے نا بغہءروز گار ، متحبر اور اعلی المرتبت علمی و ادبی شخصت تھے ۔وہ
ایک ممتاز اردو ادیب ، شاعر ، صحافی،مترجم، نقاد، محقق، اور عالم دین ہی
نہیں بلکہ اعلیٰ پائے کے افسانہ نگار بھی تھے ۔ انہوں نے اردو ادب کی ہر
صنف میں اپنی انفرادیت کی دھاک بٹھائی ا ور منفرد شناخت قائم کی۔ جس پائے
کا ادب انہوں نے تخلیق کیا وہ ان کی انفرادی پہچان بن گیا۔کسی ادیب ، شاعر
، دانشور ، محقق، عالم دین وغیرہ کی انفرادی حثییت میں تعریف و تنقید تو
اتنا مشکل نہیں لیکن گوناگوں صفات کی حامل شخصیت کے تہہ در تہہ پہلوﺅں کو
کریدھنا اور اس کے شخصی و فنی پہلوﺅں کو اجاگر کرنا ہر کسی کے بس کی بات
اور کام نہیں۔ بر صغیر پاک و ھند کے معروف شاعر ، افسانہ نویس، مترجم ، اور
سفر نگار، اردو ادب کے منفرد اور عالمی شہرت یافتہ میگزین ” انشائ“کلکتہ کے
مدیر جناب ف س اعجاز نے جناب نیاز فتحپوری کے ہمہ گیر فنی و شخصی پہلوﺅں پر
جانگسل تحقیقی کام کر کے ” نیاز فتحپوری“ کے نام سے حال ہی میں ایک پر از
معلومات کتاب مرتب کر کے اردو ادب کی جو گرانقدر خدمت کی ہے وہ لائق صد
ستائش و تحسین ہے۔ جناب نیاز فتحپوری نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ بھارت
میں ہی گزارا جہاں ان کو ان کی گرانقدر اوبی خدمات کے اعتراف میں پدم بھوشن
کے اعزاز سے نوازاگیا۔ اواخر عمر میں وہ ترک سکونت کر کے پاکستان (کراچی)آ
کئے اور یہیں جان جان آفریں کے سپرد کر دی اور پاکستان میں ہی آسودہ خاک ہو
گئے۔ ان کی پاکستان ترک سکونت پر بھارت میں بڑا ہنکامہ برپا کیا گیا ۔ ان
پر طرح طرح کی تہمتیں لگائی جاتی ر ہیں۔بھارت میں انہیں غدار وطن تک کا
طعنہ بھی دیا گیا۔ جناب ف س اعجاز اردو ادب کی جو گرانقدر خدمات انجام دے
رہے ہیں اس کا اعتراف نہ کرنا میرے خیال میں انتہائی ناقدری ہو گا۔ انہوں
نے اردو ادب کی نامی گرای شخصیا ت کے بارے میں جو تحقیقی کام کیا ہے وہ آب
زر سے لکھنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کا عظیم سرمایہ اور ورثہ ہے۔ جناب ف س
اعجاز کی درجنوں شعری و تنقیدی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے متعدد غیر
ملکی زبانوں کی کتابوں کے تراجم بھی کئے ہیں ۔ وہ ماہنامہ ”انشائ “کے ۱۲
خاص شمارے بھی پیش کر چکے ہیںجن میں نیاز فتحپوری نمبر بھی شامل ہے۔ برصغیر
پاک و ہند کے عالمی شہرت یافتہ صاحب طرز ادیب ، کہنہ مشق صحافی ،معروف
وانشور ، مخصوص لب ولہجہ کے شاعر، سفر نگار ، اور اردو ادب کی تمام اصناف
کے سکہ بند اور آزمودہ کار لکھاری جناب ف س اعجاز کو اگر موجودہ صدی کا
اردو ادب کا عظیم محسن قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کے زیر ادارت
حسین اور فکر انگیز تحریروں سے آراستہ ماہنامہ” انشائ“ گذشتہ چوبیس برسوں
سے پوری استقامت،آب و تاب اور بھر پور توانائی کے ساتھ اردو ادب کے
شیدائیوں اور قارئین کی تسکین قلب کا سامان بہم پہنچا رہا ہے۔ جناب ف س
اعجاز کی تحریروں میں جو چاشنی اور کاٹ ہے ا س سے صرف نظر نہیں کیا جا
سکتا۔انہوں نے ماہنامہ ”انشائ“کے جو خصوصی شمارے پیش کئے ہیں ان میں احمد
سعیدملیح آبادی ،کشور مہندر سنگھ بیدی سحر ، ادیبوں کی حیات معاشقہ ،قمر
رئیس، انشاءعالمی اردو افسانے ، بابری مسجد، اسکینڈئے نیویا ئی ا دب، صدی
شمارہ (انشاءکا سوواں شمارہ) ،دلیپ سنگھ ، بخش لائلپوری، انور شیخ ادب و
متنازعہ افکار ، کلکتہ کا عصری ادب، نثار احمد فاروقی ، ۵۱ واں خاص نمبر (کلکتہ
کے نو ہمعصر افسانہ نگار ) گوپی چند نارنگ، گلزار نمبر، رومی نمبر اور
ماہنامہانشاءکا ۹۱ واں خصوصی شمارہ ”گفتنی“ نمبر شامل ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے
کہ جناب ف س اعجاز کا ہی کمال اور زور قلم ہے انہوں نے گرانقدر ادب پاروں
کے ان شماروں کو ترتیب دے کر سمندر کو کوزے میں بند کرلے کے محاورے کو سچ
ثابت کر دکھایا ہے ۔ قحط الرجال اور نفسا نفسی کے موجودہ دور میں کسی ذانی
غرض کے بغیر اردو ادب کی یہ خدمت نعمت مترقبہ سے کم نہیںہے۔ ۶ دسمبر۲۹۹۱
ءکو بابری مسجد کے انہدام نے ”سیکو لر “ بھارت کی سیاست کو تہہ و بالا کر
دیا۔ اقلیت دکھی اور ہراساں ہوئی، مارچ ۳۹۹۱ ءمیں کلکتہ میں وزیر
زراعت(مارکیٹنگ)حکومت مغربی بنگال کی طرف سے عظیم اداکار و دانشور دلیپ
کمار کو ہوٹل تاج بنگلور میں دعوت اظہار خیال دی گئی اس موقعہ پر عمائدین
شہر اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں کے درمیان دلیپ کمار نے ماہنامہ
انشاءکے بابری مسجد نمبر کی رونمائی اور اپنی پرزور خطابت سے سامعین کو
گداز کر دیا ۔ جناب ف س اعجازایک منجھے ہوئے ادیب کی طرح ادب کے میدان میں
کرکٹ کے آل راونڈر کھلاڑی کی طرح چوکوں، چھکوں کی بارش کرنے پر تلے رہتے ہی
وہ جس خاموشی ، تندہی لیکن عزم و حوصلے کے ساتھ اردو ادب کی خدمت بجا لا
رہے ہیں وہ ان کا ہی خاصہ ہے ۔ جناب نیاز فتحپوری کی تہہ د ر تہہ شخصیت پر
جس عرق ریزی اور محنت کے ساتھ کام کر کے انہوں نے علامہ نیاز کا شخصی اور
فنی مونوگراف لکھا ہے وہ ان کے کمال فن اور خداداد صلاحیتوں کا آئینہ دار
ہے علامہ نیاز ایک عظیم شاعر ، افسانہ نگار ،ناقد، محقق، مفکر،مورخ، عالم
دین، نفسیات داں، صحافی ، مترجم کیا کیا نہ تھے علم کے کتنے سمندر اس ایک
انسان میں موجزن تھے ، جناب اعجاز کو خود بھی اعتراف ہے کہ نیاز صاحب کے
ابعاد فن پر لکھی گئی ایک کتاب چار کے برابر محنت طلب ہے انہوں نے علامہ کی
پہلو دار شخصیت کے بارے میں ایسے ابواب تحریر کئے ہیںجن سے ان کی زندگی اور
کار تامے نئی آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہیں کتاب میں علامہ کی ہزاروں
صفحات پر پھیلی ہوئی تحریروں میں سے مختصر ترین انتخابات شامل کر کے کتاب
کے حسن کو چا رچاند لگا دیے گئے ہیں ۔ جناب اعجاز کا کہنا ہے کہ ”میری یہ
کاﺅش ان لوگوں کے نام ہے جو واقعی فکر و نظر کی شریعت کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
۔ علامہ نیاز کے موضو عات متنوع اور منفرد تھے۔ تحقیق و تنقید میں جس علمی
جستجو کی ضرورت پڑتی ہے وہ نیاز صاحب میں بدرجہ اتم موجود تھی، انہوں نے
”نگار“ رسالہ ۲۲۹۱ءمیں جاری کیا اور ۶۶۹۱ءمیں اپنی وفات نک اسے باقائدگی
اور پابندی سے شائع کیا ۔ ”نگار“ میں ادب عالیہ پیش کرتے ہوئے صحافت کو
اپنے لئے ذریعہ معاش بنانے میں انہیں قابل رشک کامیابی حاصل ہوئی۔ ان کا
مذاہب علام کا مطالعہ بہت وسیح تھا ۔ علامہ نیاز کی تحریروں میں علم و دانش
کے موتی بکھرے پڑے ہیں۔ زیر نظر مونو گراف میں جناب علامہ نیاز کے دلچسپ
کردار اور تہہ دار شخصیت کے کئی روپ ان کے کائناتی افکار ، ان کی زندگی کے
جائزے کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔ یہاں پر چونکہ صرف جناب ف س اعجاز کی اس
گراں قدر کاﺅش کا جائزہ لینا مقصود اور پیش نظر ہے اس لئے علامہ نیاز کی
تحریروں اور تخلیقات کو موضوع بحث بنانا موزوں نہیں ہو گا۔ اس گرانقدر کتاب
میں انتہائی تحقیق و جستجو کے ذریحے علامہ نیاز کی زندگی کے بعض پہلوﺅںپر
بھی خاصہ تحقیقی کام کیا گیا ہے جو یقینا اس سے پہلے نہیں کیا گیا ہوگا۔
انتہائی دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ یہ کتاب مارٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے جناب
علامہ نیاز کی علمی و ادبی حثییت کبھی بھی محل نظر نہیں رہی ہے وہ بلا شبہ
اعلیٰ پائے کے ادیب تھے ۔بقول ڈاکٹر محمد احسن فاروقی اونچے طبقے میں صاحب
علم و صاحب ذوق ہونے کی پہچان یہ تھی کہ ” نگار“ کا خریدار اور نیاز صاحب
کی راﺅں پر بحث کر سکتا ہو۔ ۔نگار محض ادبی جریدہ ہی نہیں بلکہ ایک ادارہ ،ایک
رحجان اور ایک قدر تھا ۔”نگار“ کا نام تدوةالعلماء، سلطان المدارس اور
لکھنو یونیورسٹی کے ساتھ لیا جاتا تھا ۔اور نگار میں مضمون چھپ جانا ویسا
ہی تھا جیسے ان علمی اداروں سے سند مل جائے ۔ غرضیکہ علامہ نیاز کی تحریریں
ذوق ادب والوں کے لئے آب حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ علامہ نیاز فن برائے فن
کے قائل ایک جمالیات پرست ادیب تھے جر حالی، شبلی اور آزاد کی طرح سماجی
اصلاح کے مقصد سے وابستہ نہیں تھا ۔ جناب ف س اعجاز کی یہ تصنیف اردو ادب
کا ایک گرانقدر سرمایہ ہی نہیں بلکہ اردو ادب پر گرانقدر احسان بھی ہے پیش
لفظ کے علاوہ انفس دقیح موضوعات پر مبنی ابواب علامہ نیاز کی علمی و ادبی
اور فنی شخصیت کے ساتھ ان کی ذاتی زندگی کے مختلف پہلوﺅں کو قاری کے سامنے
بالکل واضح اور نمایاں کرنے کے لئے کافی ہیں اور اغلباٍ یہی مصنف کا مطعمح
نظر بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس کتاب کی تصنیف میں کم و بیش ۲۴ جوالہ جات سے
کام لیا گیا ہے ۔ جو یقینناٍ انتہائی محنت طلب اہو دشوار ترین عمل سے تحبیر
کیا جا سکنا ہے ۔ جناب ف س اعجاز کی اس کاﺅش کو ساہتیہ اکادمی (بھارت) نے
بڑے اہتمام کے ساتھ شائح کیا ہے(ہم خرما و ہم ثواب)ایک سو چھپن صفحات پر
مشتمل اس قیمتی تحفے کا ہدیہ صرف چالیس روپے(بھارتی)رکھی گئی ہے تاکہ کوئی
اس کی مقصدی محنویت سے محروم نہ وہے ۔ یہ کتاب ساہیتہ اکادمی کے سیل آ فس
”سواتی“منڈر مارگ نئی دہلی ۱۰۰۰۱۱سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ |