کلامَ اقبال کی نفسیاتی جہتیں-انفرادیت سے اجتماعیت تک

کلام اقبال میں انسانی نفسیاتی کے تمام شعبوں کی تشکیل ، تنظیم اور فروغ کا سامان موجود ہے ۔ کلام اقبال کو سمجھ کر انفرادی سطح سے لیکر اجمتاعی سطح تک علمی وشعوری مسائل کو حل کرنے میں مدد لی جاسکتی ہے۔

کلامَ اقبال کی نفسیاتی جہتیں-انفرادیت سے اجتماعیت تک

عقل فلسفہ اور نفسیات کا کلیدی موضوع تصور کیا جاتاہے۔ عقل روح کی روحِ رواں ہے۔ عقل کی وجہ سے روح جاوداں ہے۔ طبیعاتی حیات ہو یا مابعد الطبیعاتی دونوں کا فروغ عقل سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ ذیشان ہے کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جاتاہے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتاہے اور جب وہ خراب ہوجاتاہے تو سارا جسم خراب ہوجاتاہے یادرکھو وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔ دل کیا ہے ؟۔ دل ،قلب، دماغ یہی تو منبع ء شعورہیں۔ عقل وشعور اور علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عقل کے بغیر علم نہیں اور علم کے بغیر عقل فروغ پذیرنہیں ہوتی ۔ نفسیات کی جو شاخ علم وعقل کے بارے میں بحث کرتی ہے وہ علمی شعوری نفسیات Cognitive psychology کہلاتی ہے۔ عقل و شعور میں جو کچھ ہوتاہے اُسی کے مطابق فرد کا کردار بنتاہے۔ افراد کے کردار سے معاشرہ اور پھر ریاستیں اورتہذیبیں منصہ ء شہود پر آتی ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنے اردو اور فارسی کلام میں اسی نفسیاتی آفاقی قانون کو اپنے شعری پیغام کی بنیاد بنایا۔ اقبالؒ نے اقالیمِ سخن سے متنوع اسالیب کے ذریعے عقل و شعور کی تربیت ، تنظیم اور تشکیل کی ہے۔ بانگِ درا سے بالِ جبریل تک اور اسرارِ خودی سے پس چہ باید کرد تک اقبال کے محاسن ِ فکر کی ساری توانائیاں انفرادی و اجتماعی شعور کی تشکیلِ نو میں مصروفِ عمل ہیں۔ وحدتِ فکری سے وحدتِ عمل ممکن ہے۔ اقبال ؒ نے ضمیرِ انسان کو روشن کرنے کیلئے شعر و سخن اور فلسفہ ء مذہب و اخلاق کے لاتعداد مضامین پیش کیے ہیں۔ اقبال ؒ کے مطابق جس خالق نے عقل و شعور کو تخلیق کیا ہے اُس کی ہدایت اور محبت کے بغیر عقل وشعور کی پاکیزگی ممکن نہیں۔ علمی وشعوری نفسیات کے متعلقہ موضوعات جیسا کہ علم ، فہم ، تفکر ، استدلال، ذہانت، یادداشت ، توجہ ، حصولِ علم ، وغیرہ ان سب کی افزودگی اللہ کی ہدایت سے ممکن ہے۔ جب شعور پاکیزہ ہوتاہے تو تفکر ، تدبر ، استدلال ، فہم ، ادراک ، یادداشت ، حکمت عملی، سب میں تابانی اور تابندگی آجاتی ہے۔ جب افکار تابندہ ، تازہ ، مثبت ، بلند ، عالی ، توانا ، لامحدوداور عظیم تر ہوجاتے ہیں تو وہ ایک عظیم تر کردار اور رویے کا سرچشمہ بن جاتے ہیں۔ وہ خیال اور خودی کی توانائی خالق کے قرب اور ہدایت میں تلاش کرتے ہیں۔ خالق کی ہدایت کے بغیر شعوری قوت پروان نہیں چڑھ سکتی اور نہ ہی اپنا مقصود حاصل کرسکتی ہے۔ جیسے قطرے کی زندگی سمندر میں ہے ،اسی طرح فرد کی شعوری قوت کی بالیدگی اور حیات اللہ کی محبت اور ہدایت میں ہے۔ شعوری اور علمی قوت کی تنظیم بھی اسی بلند جذبے سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہرشے کو ایک حد میں متعین کیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اجرام فلکی سب اپنے اپنے مداروں میں ایک مقررہ مدت تک گھوم رہے ہیں۔ حد Limit تخلیق کا حسن ہے۔ کسی بھی شے کی تنظیم کا پہلا جزولا ینفک حدہے۔ اسی اُصول کو اقبال انسانی نفسیات کی شعوری جہت پر اطلاق کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
اقبالؒ کے نزدیک عقل وشعور کی پرورش توحید کے ذریعے ہوتی ہے اور خلوت میں ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے غارِ حرا کی خلوت اختیار کی تھی۔ اس کو نفسیات اپنی زبان میں مہاعلمی وشعوری Mega cognitive کہتی ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں:
گرچہ اندر جلوت و خلوت خداست
جلوت آغازست و خلوت انتہاست
ترجمہ :اگرچہ تنہائی اور محفل دونوں میں خداہے لیکن (شعوری تکمیل کیلئے) تنہائی آغآزہے اور پھر محفل میں اس کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔
جب شعوری پاکیزگی حاصل ہوجاتی ہے ، خداشناسی تک رسائی حاصل ہوجاتی ہے تو پھر یہی انفرادی شعور میدانوں اور محفلوں کو گرمانے لگتاہے۔
کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق
کبھی سوز و سرور و انجمن عشق
کبھی سرمايہ محراب و منبر
کبھی مولا علی خيبر شکن عشق
انسانی کو جتنی نفسیاتی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ شعورکی انتشار کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ جب شعور کو ایک مضبوط فصیل مل جاتی ہے تو وہ لازوال اور ناقابل ِ تسخیر قوت میں تبدیل ہوجاتاہے۔ خوف Phobias تشویشی امراض Anxiety disorders مزاج اور وہم کے امراض Bipolar disorders - Schizophrenia وغیرہ سب کا خاتمہ ہوجاتاہے اور ایک پختہ اور پراعتماد ، رجائیت سے بھر پور شخصیت سامنے آتی ہے۔ جس کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں۔
کرگساں را رسم و آئیں دیگراست
سطوتِ پروازِ شاہیں دیگراست
ترجمہ : کرگسوں کی رسم اور طور طریقے اور ہیں اور شاہین کی پرواز کی شان وشوکت اور ہے۔ اقبال ؒ کے لاتعداد اشعار اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ اقبال کا مردِ مومن اپنے اندر مثبت نفسیات کی تمام تر قوتیں سموئے ہوئے ہے۔ اُسے اللہ کے سوا کسی شے کا ڈر نہیں۔ وہ مطمئن ہے۔ قناعت پسند ہے۔ اقبال اس انفرادیت کو آگے بڑھا کر اس کا اطلا ق سماجی وعمرانی نفسیات Social Psychology پر کرتے ہیں ۔ ایسے مضبوط شعورکے حامل افراد جب مقامِ یکجائی پر فائز ہوتے ہیں تو ان کے انضمام سے ایک ایسی تہذیب ایک ایسی قوم ایک ایسی روشن ملت معرض ِ وجود میں آتی ہے جس پر بجا طور پر خلیفتہ الارض کا اطلاق کیا جاسکتاہے۔ جو فطرت کے مقاصدکی نگہبان ہے۔ قرآن ِ کریم کے مطابق اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے ۔ علامہ اقبال ؒ نے شعوری طور پر ایک ایسی مضبوط قوم وملت کیلئے شعوری مواد فراہم کیاہے جو یقیناً کل مستقبل قریب میں فطرت کے مقاصد کی تکیمل کریں گے ۔ اقبال ؒ فرماتے ہیں:
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ وبغداد
یہ دھرتی پاکستان کی دھرتی ہے جس کا مستقبل روشن ہے۔ جو فطرت کے مقاصدکی تکمیل کرے گی ۔ یہ خوشخبری ہے پاکستان کی نوجوان نسل کیلئے جو مایوس ہوکر مغربی ممالک میں دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ وہ دیکھیں، پڑھیں ، سوچیں ، غورکریں ۔کلامِ اقبال کے آئینے میں اللہ تعالیٰ نے اُن کو کس بڑے کام کیلئے منتخب کیاہواہے۔ اور آج کل کی نوجوان نسل جو نشے کی لت میں مبتلا ہوگئی ہے اور شعوری طور پر منتشر طرح طرح کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہے ۔ شعور کی تنظیم اور تسکین قلب کیلئے کلام ِ اقبال آپ کیلئے ایک آبِ حیات ثابت ہوسکتاہے۔

 

رسولہ شریف
About the Author: رسولہ شریف Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.