ملک کی عدالتِ عظمیٰ وقفہ وقفہ سے منافرت انگیزی پر اپنی
برہمی کا اظہار کرتی رہتی ہے ۔ یہ پڑھ کر اچھا لگتا ہے مگر نفرت کاروبار دن
بہ دن ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کا حل محض زبانی پندو نصیحت کے بس
کا روگ نہیں ہے۔ ان وجوہات کا پتہ لگا ئے بغیر کہ جن کے سبب ظلم کا بازار
گرم ہےاس آگ کو بجھانا مشکل ہے۔سردھنا سے بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی
سنگیت سوم کو گوتم بدھ نگر اے سی جے ایم کورٹ سے ملنے والی سزا بتاتی ہے کہ
عصر حاضر میں ظالم بے خوف کیوں ہے؟ابھی حال میں سنگیت سوم کو محمداخلاق
لنچنگ معاملے سے متعلق ایک کیس میں سات سال کے بعد قصوروار پایاگیا ۔ یہ
وہی ہجومی تشدد کا معاملہ ہے جس پر ملک بھر میں زبردست احتجاج ہوئے اور
ساری دنیا میں اس کی مذمت ہوئی ۔ اس کے بعد گائے کے نام پر قتل و غارتگری
کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور سیکڑوں بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا
گیا ۔ محمد اخلاق قتل کے سنگین معاملہ میں نافذ دفعہ 144 کی خلاف ورزی
کرکےاشتعال پھیلانے کی سزا فقط 800 روپے جرمانہ دی گئی ۔ اس مہنگائی کے
زمانے میں یہ معمولی رقم ادا کرتے ہوئے سنگیت سوم کو شرم کے بجائے ہنسی
آگئی ہوگی ۔ ایسے میں ملک کے امن پسند عوام سوال کرتے ہیں کہ اس طرح کی
سزا سے دنگا فساد رکے گا یا بڑھے گا؟
28 ستمبر2015 کو بسہاڑہ گاؤں، دادری تحصیل، یوپی کے ضلع گوتم بدھ نگر میں
ایک 50 سالہ لوہار محمد اخلاق کو اپنے گھر میں گائے کے گوشت رکھنے کی افواہ
پر ایک ہجوم نے نہایت ہی بے رحمی سے قتل کردیا۔ اس ظلم پر اکسانے کی خاطر
مندر سے مائک کے ذریعہ اعلان کرکے لوگوں کے جذبات بھڑکائے گئے ، نتیجتاً
بہت بڑے ہجوم نے اخلاق کے گھر پر نہایت وحشیانہ طریقے سے حملہ کر کے شہیدکر
دیا ۔ اس دوران بی جے پی رہنما سنگیت سوم نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کر کے
پنچایت بلائی ۔ اس پر ضلع مجسٹریٹ نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مقدمہ درج
کروایا اور اس کا اب اے سی جے ایم کورٹ میں فیصلہ آیا۔ اس طرح گویا ایک
سنگین معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ ۔ ویسے گائے کے نام پر سیاست کرنے والے سنگیت
سوم پر گوشت برآمد کرنے والی دو کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہونے کا الزام لگتا
رہا ہے اور اس نے کبھی بھی اس کی تردید نہیں کی۔
محمد اخلاق کے قتل پر دنیا بھر میں بہت ہنگامہ ہوا مگر اس کا فائدہ اٹھا کر
سماجوادی پارٹی سے نکل کر بی جے پی میں آنے والا سنگیت سوم انتخاب جیت گیا
اور پانچ سالوں تک سرکاری خرچ پر خوب عیش کرتا رہا ۔سنگیت سوم نے اپنے
علاقہ میں مقبولیت قائم رکھنے کی خاطر محمد اخلاق کےملزمین کی ضمانت کروائی
۔ اپنے رسوخ کا استعمال کرکے انہیں سرکاری ملازمت دلوائی بلکہ ایک کا جیل
میں انتقال ہوا تو قومی پرچم میں لپیٹ کر اس کی ارتھی اٹھوائی مگر یہ سب
کرنے کے بعد بھی بات نہیں بنی۔ کسانوں کی تحریک نے جب نفرت کی آگ بجھانی
شروع کی تو سنگیت سوم جیسے فتنہ پر ور لوگوں کے لیے مصیبت کھڑی ہوگئی۔
پچھلے الیکشن سے قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران جاٹ اکثریتی دورالا گاؤں
میں اس کی اتنی شدید مخالفت ہوئی کہ اسے سر پر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگنا
پڑا۔ مظفر نگر فسادات کے مختلف تنازعات کے سبب سنگیت سوم نے سنجیو بالیان
کے بعد مغربی یوپی میں اپنے آپ کو جاٹوں کا ایک موثر بنا دیا تھا اس کے
باوجود اپنی ہی برادی میں رسوائی نے سیاست کے بدلتے رخ کا پتہ دے دیا تھا
مگر یہ بات بی جے پی کی سمجھ میں نہیں آئی ممکن ہے اس کے پاس سنگیت سوم
جیسے بدمعاشوں کا کوئی متبادل ہی نہ ہو۔
سردھنا اسمبلی سیٹ جاٹ اکثریتی علاقہ ہے اور سنگیت سوم خود اسی برادری سے
تعلق رکھتاہے۔ بی جے پی کی نفرت انگیز حکمت عملی کو اختیار کرکے اس نے
گزشتہ انتخابات میں یہاں کے ہندووں اور مسلمانوں کو تقسیم کیا اور آسانی
سے سیٹ نکال لی۔ اس سے قبل وہاں ہر الیکشن میں راشٹریہ لوک دل کا غلبہ رہتا
تھا۔ 2017 میں شکست کے بعد آر ایل ڈی کے بانی چودھری اجیت سنگھ نے ہندوؤں
اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی مہم شروع کی۔ گاؤں گاؤں جا
کر جلسے کئے۔ان کے بیٹے جینت چودھری نے بھی والد کی روایت کو قائم رکھا اور
اسی راہ پر چلتے رہے۔ کسان تحریک نے مغربی اتر پردیش میں ہندو مسلم اتحاد
کو مضبوط کرکے سنگیت سوم اور سنجیو بالان جیسوں کا قافیہ تنگ کردیا۔ 2019
کے صوبائی انتخاب میں کئی طرح کی قیاس آرائیوں کے باوجود بھارتیہ جنتا
پارٹی اتر پردیش میں دوبارہ کامیاب توہوگئی مگرنائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد
موریہ سمیت یوگی حکومت کے 11 وزراء اور کٹر ہندوتوا سیاست کے سنگیت سوم
جیسے کئی پوسٹر بوائز الیکشن ہار گئے۔
سردھنا سیٹ کو بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے تھا مگر وہاں سے سنگیت سوم کو
ایس پی کے امیدوار اتل پردھان نے ہرادیا۔ ۔ بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم
نے اس سیٹ پر سال 2012 اور 2017 میں اتل پردھان کو شکست دے کر جیت حاصل کی
تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی ایس پی امیدوار نے وہاں کامیابی حاصل کی تھی
اور سنگیت سوم کو + 18000 ووٹوں سے ہار گئے تھے ۔ سنگیت سوم کے علاوہ گنا
وزیرسریش رانا کو شاملی ضلع کی تھانہ بھون سیٹ پر راشٹریہ لوک دل کے اشرف
علی خان سے 10 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرادیا تھا ۔ مظفر نگر فسادات کے ایک
اور ملزم امیش ملک کو بدھانا سیٹ پر راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کے راج
پال سنگھ بالیان نے 8444 ووٹوں سے شکست دےدی تھی۔سنگیت سوم اور رانا پر
2013 کے مظفر نگر فسادات کے دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑ کر فسادات
بھڑکانے اور نفرت پھیلانے کا الزام تھا۔ بی جے پی کے ان دونوں ارکان اسمبلی
کو اس وقت ایس پی حکومت نے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا، لیکن 2017
میں دونوں ہی انتخاب جیت گئے تھے۔مظفر نگر فسادات کے ایک ملزم حکم سنگھ کی
بیٹی مرگانکا سنگھ بھی2019 میں کیرانہ سیٹ سے الیکشن ہار گئیں۔ انہیں ایس
پی کی ناہید حسن نے تقریباً 26000 ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔
ان انتخابی نتائج کا سبق یہ ہے کہ فرقہ پرست رہنماوں کو شکست دینے کی خاطر
کسی ایک طبقہ پر اپنی ساری توجہ صرف کرنے کے بجائے مختلف طبقات کو جوڑنا
ضروری ہے۔ مثلاً اگر جینت چودھری اپنے جاٹ رائے دہندگان کو بی جے پی سے دور
کرنے پرخوب محنت کرتے مگر مسلمانوں کو نظر انداز کردیتے تو بات نہیں بنتی ۔
اسی طرح بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کرنے کی تگ و دو کرنے والی مسلمان
تنظیمیں بھی اگر اپنی ساری توانائی امت پر صرف کردیں تب بھی بات نہیں بنے
گی بلکہ ان طبقات کو اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا جنھیں توڑ کر فسطائی طاقتیں
کامیابی درج کراتی ہیں۔ ان کو اپنے ساتھ جوڑے بغیر انتخابی کامیابی غیر
ممکن ہے۔ سنگیت سوم جیسے لوگ عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کی خاطر کیا حکمت
عملی اختیار کرتے ہیں اس کی مثال بھی انہوں نے خود پیش کردی۔ سرسنگھ چالک
موہن بھاگوت کے آبادی سے متعلق بیان کو سبھی نے نظر انداز کردیا مگر سنگیت
سوم نے اٹھا لیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’جس طرح ایک طبقے کی آبادی بڑھ رہی ہے،
جس طرح سے دہشت گردی پھیل رہی ہے، ایسے میں راجپوت سماج کو پھر سے ہتھیار
اٹھانا ہوں گے۔‘‘
اس مختصر سے بیان میں کئی سوالات ہیں ۔ وہ ایک طبقہ کون ساہے؟ اور اس کی
آبادی کے بڑھنے سے دہشت گردی کا کیا تعلق ہے؟؟ وہ طبقہ اگر مسلمان بھی ہے
تو ہندوستان کی حدتک سنگیت سوم جیسے دہشت گردوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے
بلکہ سچائی تو یہ ہے اس ملک میں امت مسلمہ فسطائی اور سرکاری دہشت گردی کا
شکار ہے۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت سنگیت سوم کے ذریعہ علی الاعلان راجپوت
سماج کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دینا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ راجپوت تلوار
اٹھا کر کیا کریں گے؟ وہ آبادی کے اضافہ پر کیسے اثر انداز ہوں گے؟ کیا وہ
قتل غارتگری کے ذریعہ دوسروں کی آبادی کو کم کرنے کی کوشش کریں گے؟ اگر
کوئی سماج ایسی حماقت کرتا ہے تو کیا جن کے خلاف وہ ایسا کرے گا اس نے
چوڑیاں پہن رکھی ہیں ؟ مسلمانوں کے بارے میں جو ایسا خیال کرتا ہے اس سے
بڑا احمق کوئی اور نہیں ہے۔
سنگیت سوم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی طرح اگلا انتخاب جیتنا چاہتا ہے۔ پچھلی
مرتبہ راجپوت تو اس کے جھانسے میں آگئے مگر جاٹوں نے ساتھ چھوڑ دیا اس لیے
وہ اٹھارہ ہزار ووٹ سے شکست کھا گیا۔ اس طرح کے احمقانہ بیانات کے بعد
عقلمند راجپوت بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے ۔ اس کے نتیجے میں بعید نہیں کہ
بی جے پی اس کو ٹکٹ ہی نہ دے اور اگر مل بھی جائے تو اس کی ضمانت ضبط
ہوجائے گی ۔ سنگیت سوم جیسے لوگوں کی فتنہ پردازی کا ایک سبب عدلیہ کے
ذریعہ اسے بہت دیر سے نہایت معمولی سزا کا دیا جانا ہے۔ قرآن حکیم میں
فتنہ انگیزی کو قتل سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قتل
ایک فرد کی حدتک محدود ہوتا ہے لیکن اگر فتنہ و فساد پھیلا دیا جائے تو بے
شمار لوگ اس کا شکار ہوجاتے ہیں جیسا کہ مظفر نگر فساد کے بعد ہوا۔ اس لیے
فتنہ پروری کی سزا بھی قتل سے زیادہ شدید ہونی چاہیے تاکہ کوئی اس کی جرأت
نہ کرسکے ۔ سنگیت سوم جیسے لوگوں کو آٹھ سورویہ کے معمولی جرمانے سے نجات
مل جائے کو بھلا کوئی مفسد اپنے آپ کو کیونکر روک سکتا ہے؟ عدلیہ اور
مقننہ کو اس پہلو پر بھی توجہ دینی ہوگی لیکن جب قانون سازی کا اختیار ہی
سنگیت سوم کے بھائی بندوں کو دے دیا جائے تو بھلا ان سے کیا توقع کی جائے؟
اس لیے قانون الٰہی کے بغیر امن عالم کا تصور محال ہے ۔ رجوع الی القرآن
مہم کے دوران اس پہلو کو بھی اجاگر کرنا چاہیے۔
|