ہماچل پردیش کے ساتھ گجرات کا انتخاب کیوں نہیں؟

ہماچل پردیش اسمبلی انتخاب کی تاریخ کا اعلان تو الیکشن کمیشن نے کر دیا مگرامید کی جارہی تھی اس کے ساتھ گجرات اسمبلی الیکشن کا اعلان بھی کیاجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے گجرات کا اعلان کیے بغیر صرف ہماچل پردیش میں 12؍ نومبر کو رائے دہندگی اور ہ 8دسمبر کو نتائج کے اعلان پر اکتفاء کیا گیا ۔ہماچل پردیش کہنے کو ایک صوبہ ہے مگر وہاں صرف 55 لاکھ ووٹرس ہیں – ان میں 1.22 لاکھ ووٹرس کی عمر 80 سال سے زیادہ عمر ہے بلکہ 1184 ووٹرس کی عمر تو 100 سال سے بھی زیادہ ہے-ان میں سے ایک آدھ کو صرف تصویر کھنچوانے کے لیے پولنگ بوتھ لایا جائے گا۔ پچھلی بار ہماچل پردیش میں 9 نومبر2017 کو اسمبلی انتخاب ہوا تھا، جبکہ گجرات میں 9 اور 14 دسمبر کو دو مراحل میں انتخاب کرایا گیا تھا۔ اس لحاظ سے ایک ماہ کا فرق ضرور ہے لیکن سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ مودی اور شاہ سے اب صبر نہیں ہورہا ہے۔ وہ جلد از جلد کامیابی کا پرچہ لہرانے کے لیے بے چین ہیں حالانکہ پانچ سال قبل 2017 کے انتخاب میں بی جے پی نے گجرات اسمبلی کی 182 میں سے صرف 99 سیٹوں پر کامیابی درج کرائی تھی ۔ اس کے برعکس کانگریس نے 77 سیٹیں جیت لی تھیں۔ اس وقت یہ بات کسی خواب و خیال میں بھی نہیں تھی بی جے پی دو ہندسوں میں سمٹ جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں بلند بانگ دعووں کے باوجود مودی جی قبل از وقت انتخاب کروانے کی ہمت نہیں دکھا سکے۔

اتر پردیش کی انتخابی کا میابی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کا واحد ہدف کسی طرح گجرات کو فتح کرنا ہے ۔مودی جی کو فی الحال مہابھارت کے ارجن کا ہدف گھومتی مچھلی کی آنکھ کے سوا کچھ نظرنہیں آتا۔ وہ اس میں تیرکا نشانہ لگا کر ڈیڑھ سو نشستوں پر کامیابی درج کروانا چاہتے تھے لیکن اب تو سو جیتنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔جیسا کہ اوپر بیان ہوا پچھلی مرتبہ بھی گجرات کےچندر گپتا اور ان کا نام نہاد چانکیہ دو عدد میں سِمٹ گئے تھے لیکن اس رسوائی کو گودی میڈیا نے بہت جلد بھلا دیا۔ عوام تو اسے بھول گئے لیکن مودی جی کو وہ اچھی طرح یاد ہے۔ اس لیے ان پر گجرات کے یکے بعد دوروں کا دورہ پڑا ہوا ہے۔ ان تو ان کی میعاد ایک دن سے بڑھ کر تین دن ہوگئی ہے۔ مودی شاہ کے علاوہ سمرتی ایرانی اور ایس جئے شنکر سمیت دس مرکزی وزیر گجرات کا دورہ کرچکے ہیں۔ ان سب کو ششوں سے اطمینان نہیں ہوا تو صدر مملکت کا بھی دورہ کروا دیا گیا ۔

صدر مملکت دروپدی مرمو اڑیسہ کی رہنے والی ہیں لیکن چونکہ وہاں عنقریب انتخابات کا امکان نہیں ہے اس لیےانہیں اپنے آبائی صوبے کے بجائے وزیر اعظم کے گجرات جانے کی زحمت کرنی پڑی ۔ صدر مملکت نے بھی گاندھی آشرم کا دورہ کرنے کے بعد1,330کروڈ کے پروجکٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ ویسے وزیر اعظم اب تک تقریباً ۸؍ ہزار کروڈ کے پروجکٹ کا سنگ بنیاد رکھ چکے ہیں ۔ اروند کیجریوال پر ریوڈی بانٹنے کا الزام لگانے والے وزیر اعظم کو یہ بتانا ہوگا کہ یہ سرکاری خرچ پر ریوڈی کے خواب نہیں تو اور کیا ہیں؟ اور اس سے قبل جو خواب دکھلائے گئے تھے مثلاً بولیٹ ٹرین وغیرہ وہ کہاں گئے؟ وہ گولی کس پر چلی ؟ اور اگرنہیں چلی توکیوں نہیں چلی؟ ان پروجکٹس کی حیثیت اگر ریوڈی کی نہیں ہے تو وہ گجرات کے پڑوسی صوبے راجستھان اس کا سیلاب کیوں نہیں آرہا ہے۔ اس کی وجہ اگر وہاں کانگریس کا راج ہے تو مدھیہ پردیش میں سنگ بنیاد رکھ دیتے لیکن چونکہ وہاں انتخاب بعد میں ہے اس لیے اسے مؤخر رکھا گیا ہے۔ اس طرح ملک کا پردھان منتری فی الحال ہمہ وقتی پرچار منتری بنا ہوا ہے۔

گجرات میں مودی جی کی یہ پریشانی ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ انہوں نے پچھلے بیس سالوں ،یں ریاست کی لیڈر شپ کو پوری طرح ختم کردیا۔ بارہ سال بعد جب انہیں وزیر اعظم کی حیثیت سے دہلی جانے کا موقع ملا تو گجرات کے اندر ایک سیاسی خلاء پیدا ہوگیا تھا۔ مودی جی کے لیے بیک وقت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنا ممکن نہیں تھا ۔ وزیراعظم سے اس وقت ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ امیت شاہ کوپارٹی کا صدر بناکر اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ۔ اس لیے مجبوراً آنندی بین پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنانا پڑا۔ اس کے بعد شاہ اور پٹیل کے درمیان سرد جنگ چھڑ گئی۔ اسی دوران ہاردک پٹیل کی قیادت میں گجرات کے اندر ریزرویشن کی تحریک چل پڑی اور اس نے امیت شاہ کا قافیہ تنگ کردیا۔ بہت ممکن ہے کہ اس تحریک کو آنندی بین پٹیل کی پس پردہ حمایت حاصل رہی ہو کیونکہ امیت شاہ سے وہ اپنا حساب چکانا چاہتی تھیں ۔

اس لڑائی میں ابتدائی طور پر تو آنندی بین کا پلڑا بھاری رہا مگر بالآخر شاہ جی کامیاب رہے ا ور انہوں نے اپنی برادری کے وجئے روپانی کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔ آنندی بین کو گورنر بناکر ریاست سے سیاسی بن باس پر بھیج دیا گیا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے گرو نریندر مودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہایت نااہل وجئے روپانی کو وزیر اعلیٰ بنوایا تاکہ گجرات پر ان کی پکڑ مضبوط رہے ۔ مودی جی کو ایک سال قبل یہ محسوس ہوگیا کہ یہ گھوڑا اگلی انتخابی دوڑ نہیں جیت سکتااس لیے اسے اچانک گولی ماردی گئی یعنی ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے موقع تھا کہ ان کے بعد کسی قابل رہنما کو اقتدار سونپتی لیکن اس کے سامنے پہلا مسئلہ سنگھ پریوار کے قحط الرجال کا تھا ۔ اس تحریک میں اول تو کوئی باصلاحیت فرد شامل نہیں ہوتا اور جو بھول چوک سے آ بھی جائے تو وہ بہت جلد بے کار ہوجاتا ہے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ مودی جی نےگجرات میں بی جے پی کے ساتھ سنگھ پریوار کو بھی خاصہ کمزور کیا ہے۔ ڈاکٹر پروین توگڑیا کا عبرتناک انجام سب کے سامنے ہے۔آج انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ ان کی چیخ و پکار کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔

مودی اور شاہ کے اندرپایا جانے والا عدم تحفظ کا احساس اور دوسروں کے تئیں عدم اعتماد ان کے پیروں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ یہ انہیں ہاردک پٹیل جیسے کسی نوجوان اور تیز طرار رہنما کو وزیر اعلیٰ بنانے سے روکتا ہے۔ اسی لیے پھوپندر پٹیل جیسے غیر معروف اور نااہل رکن اسمبلی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ مرکز کے کٹھ پتلی کی مانندکام کرنا بھوپندر پٹیل کی مجبوری اور بی جے پی ہائی کمان کی دلی خواہش ہے۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے سے خوش ہیں ۔ بھوپندر پٹیل نے بھی بی جے پی میں شامل ہونے والے ہاردک پٹیل کو حاشیے پر بھیج دیا کیونکہ وہ ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے مرعوب ہوکر گجرات میں وزیر اعلیٰ کی قیادت میں ایک یاترا شروع کی گئی ہے۔ اس میں دور دور تک ہاردک نظر نہیں آتے۔ ایسے میں اگر مودی جی پرچار نہ کریں تو کیا کریں ؟ یہ بی جے پی اور مودی جی مجبوری ہے ۔

گجرات کے اندر عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال جب جھاڑو لے کر پہنچے تو بی جے پی کو امید تھی کہ یہ کانگریس پر چلے گا لیکن وہ تو الٹا کمل کا سپڑا صاف کرے لگا ۔ گجرات کے اندر بی جے پی پچھلے ستائیس سال سے برسرِ اقتدار ہے ۔ اس دوران جو نئی نسل سامنے آئی ہے اس کے اندر سرکار سے بیزاری فطری ہے کیونکہ وہ ان کی توقعات پر پوری نہیں اتر تی ۔ عوام کے مسائل دن بہ دن سنگین ہوتے جارہے ہیں ۔ وہ متبادل کی تلاش میں ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کے سامنے فی الحال ایک چھوڑ دو متبادل ہیں اس لیے بی جے پی ان کی مجبوری نہیں ہے۔ بی جے پی کے وہ حامی جو گوناگوں وجوہات کی بناء پر کانگریس کو ووٹ دینا نہیں چاہتےوہ عام آدمی پارٹی کو ووٹ دے کر اپنا نزلہ اتار سکتے ہیں ۔ اس صورت میں بی جے پی کے ووٹ تقسیم ہوں گے اور اس کا نقصان ہوگا۔ اس کا فائدہ دونوں میں سے ایک فریق کوہوگا جھاڑو چلے یا ہاتھ کمل تو صاف ہی ہوگا۔

گجرات میں پچھلی بار کانگریس کو 38؍ فیصد ووٹ ملے تھے اور اسے زیادہ تر دیہی علاقوں سے حمایت ملی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی شہری علاقوں سے کامیاب ہوئی تھی ۔ چار بڑے شہر مثلاً احمد آباد، بڑودہ، سورت اور راجکوٹ سے اس نے چالیس فیصد سیٹیں جیت لی تھیں۔عام آدمی پارٹی اگر ان شہروں میں کچھ نشستیں جیت لے اور کچھ میں کانگریس یا ایم آئی ایم جیسی جماعتوں کو کامیاب کرنے میں معاون بن جائے تو اس سے بی جے پی کا سیدھا نقصان ہوگا۔ ان سب کے لیے انتخاب کے بعد بی جےپی کے ساتھ جانا ممکن نہیں ہے اس لیے چاہے نہ چاہے مہاراشٹر کی وکاس اگھاڑی جیسی سرکار بنانی پڑےگی۔ ڈھائی سال قبل مہارشٹرکے اندر بی جے پی کو جھٹکا لگا تھا اگر اس بار گجرات میں لگ جائے توکرناٹک ، ایم پی، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اس کی کامیابی مشکوک ہوجائے گی اور 2024 کا مقابلہ نہایت دلچسپ ہوجائے گا۔یہ کوئی شیخ چلی کا خواب نہیں ہے۔ یہ چاروں ریاستوں میں بی جے پی پچھلا انتخاب ہار چکی ہے اور دو میں اس نے چور دروازے سےخریدو فروخت کرکے حکومت بنائی تھی۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2073 Articles with 1268992 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.