ہمارے لیے اس وقت تشویش کی بات یہ ہے کہ آنے والے
دنوں میں ہمارا معاشی نظام بری طرح متاثر ہونے جارہا ہے اس پر تفصیلی بات
کرنے سے پہلے چند باتیں ملک بھر میں ضمنی الیکشن کے حوالہ سے کرونگا جس میں
پی ٹی آئی نے نہ صرف میدان مار لیابلکہ پیپلز پارٹی کے بعد بعد ن لیگ کی
بھی چھٹی کروادی لاڈلا کہنے والوں کو اب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ عمران خان
اگر لاڈلا ہے تو صرف عوام کا کیونکہ اس ضمنی الیکشن میں ایک طرف پی ڈی ایم
میں شامل 11سیاسی اور مذہبی جماعتیں تھیں تو دوسری طرف حکومتی مشینری بھی
انکے ساتھ تھی اور اسکے باوجود عوام نے اپنے لاڈلے کو ووٹوں کی مالا پہنا
دی اس الیکشن نے ثابت کردیا کہ عوام اب باشعور ہوتی جارہی ہے جنہوں نے
مہنگائی ختم کرنے کے دعوے داروں کو مہنگائی بڑھانے پر بری طرح مسترد کردیا
یہ الیکشن پنجاب اور کے پی کے میں پر امن طور پر ہوئے مگر سندھ میں پیپلز
پارٹی کی روایتی غنڈہ گردی اپنے عروج پر رہی ملیر میں جہاں مبینہ طور پر
دھاندلی کی شکایت ملی وہی پر رکن سندھ اسمبلی اور پی ٹی آئی کراچی کے صدر
بلال غفار کی ناک کی ہڈی ٹوڑ دی یہ حملہ اس وقت ہوا جب بلال غفار ملیر بکرا
پیڑی کے قریب پولنگ اسٹیشن کا معائنہ کرنے گئے تو وہاں پر پیپلز پارٹی سے
تعلق رکھنے والے دو درجن سے زائدافراد نے اینٹوں سے حملہ کرتے ہوئے تشدد کا
نشانہ بنایا یہ تو خیر معمول کی باتیں تھیں جن پر بحث مباحثہ چلتا رہے گا
ہمارے لیے اس وقت جو خطرناک صورت بننے جارہی ہے وہ امریکی شرح سود میں
اضافہ ہے جو نہ صرف پاکستان کے لیے تشویش ناک ہے بلکہ کساد بازاری کا خدشہ
بھی ہے کیونکہ اس تمام صورتحال کے بعد پاکستان کے پاس اپنی شرح سود میں
اضافے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گااس وقت پاکستان کا اندرونی قرضہ 19
ٹریلین سے بڑھ چکا ہے اور امریکی شرح سود میں اضافے کے بعد ملکی قرضوں میں
90 فیصد اضافہ ہو جائیگا جو پاکستان کے لیے اچھا شگون نہیں ہے کیونکہ سخت
مانیٹری پالیسی اور تباہ کن سیلاب کی وجہ سے حالیہ معاشی سست روی کے باعث
ہماری معیشت پہلے ہی کساد بازاری کا شکار ہے اور اب پاکستان کے پاس اپنی
شرح سود میں اضافے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا اگر دیکھا جائے توشرح
سود میں کمی دنیا بھر میں معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک قابل اعتماد
حکمت عملی ثابت ہوئی ہے مگر اب بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عالمی دارالحکومتوں
میں بھی خطرے کی گھنٹی سنائی دے رہی ہے اور جب تک مہنگائی رہے گی مارکیٹ کی
امیدیں بھی چکنا چور رہیں گی اگر یاد ہو تو13 ستمبر 2022 کو اگست کے
مہنگائی کے اعداد و شمار توقع سے زیادہ آنے کے فورا بعد امریکی اسٹاک
مارکیٹ کریش کر گئی تھی جسکے بعدفیڈرل ریزرو کی مسلسل جارحانہ شرح سود میں
اضافے نے سرمایہ کاروں کو اپنی سرمایہ کاری کم کرنے پر مجبور کردیا تھااور
اب سود کی شرح حالیہ امریکی تاریخ میں کسی بھی دوسرے وقت سے زیادہ تیزی سے
بڑھ رہی ہے صرف چھ ماہ میں وفاقی فنڈز کی شرح میں 2 فیصد پوائنٹس سے زیادہ
اضافہ ہوا ہے فیڈرل اوپن مارکیٹ کمیٹی کی میٹنگ یکم نومبر کو ہو گی تاکہ
اگلے نرخوں میں اضافے کی مقدار کا فیصلہ کیا جا سکے کیونکہ عالمگیریت اور
معاشی انضمام کے موجودہ دور میں تمام معیشتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں
اورمعاشی طاقت کی صورت حال میں کوئی بھی تبدیلی دوسری قوموں کو متاثر کرے
گی پاکستان امریکی جارحانہ شرح سود کی پالیسی کے اثرات سے مستثنی نہیں ہوگا
ایک اور اہم بات جو ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ فیڈرل ریزرو بینک کی شرح
میں اضافے کی خبریں پاکستان کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہیں اور آنے والے دنوں
میں اسے اپنی شرح سود میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا پاکستان پہلے ہی آئی ایم
ایف کے قرضے کے پروگرام میں مصروف ہے اور شرح سود میں اضافے سے ہم پر قرضوں
کا بوجھ مزید بڑھے گا جو مستقبل میں ہماری معاشی ترقی کو رک سکتا ہے
پاکستان کا اندرونی قرضہ 19 ٹریلین سے زیادہ ہو چکا ہے جو کہ مجموعی قومی
پیداوار کا تقریبا 45 فیصد ہے ملکی قرضوں میں 90 فیصد اضافے کے لیے اکیلے
پالیسی ریٹ ذمہ دار ہے اور پالیسی ریٹ میں کوئی بھی اضافہ ملک کے قرضوں کا
بوجھ بڑھا دے گا پالیسی ریٹ بڑھانا مہنگائی سے لڑنے کا بہترین طریقہ نہیں
ہے گزشتہ ایک سال کے اندر امریکہ نے شرح سود میں تین بار اضافہ کیا ہے جبکہ
برطانیہ نے نومبر 2021 سے اب تک پانچ مرتبہ شرح سود میں اضافہ کیا ہے جسکے
بعد مجموعی طور پر تقریبا 90 ممالک نے جون 2021 سے اپنی شرح سود میں اضافہ
کیا ہے لیکن اب تک کسی ایک ملک کو بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں خاطر
خواہ کامیابی نہیں ملی ہے اگر دیکھا جائے تو زیادہ تر ممالک شرح سود بڑھانے
کے بجائے نفسیاتی حربے استعمال کرتے ہیں کیونکہ مہنگائی کی لہر کو زیادہ
شرح سود سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا گا شرح سود میں اضافہ کے ساتھ ساتھ
ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمیں خوراک کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑے
کیونکہ وفاق نے پنجاب کو گندم امپورٹ کرنے کی اجازت دینے سے انکارکردیاہے
جسکے بعدوزیراعلی پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے وفاق کی جانب سے پنجاب کو
گندم امپورٹ کی اجازت نہ دینے پرگہری تشویش کا اظہاربھی کیا ہے کہ سندھ او
ردیگرصوبوں کو وفاق کی جانب سے امپورٹ کردہ گندم فراہم کی جاچکی ہے وفاق
پہلے بھی گندم امپورٹ کرچکا ہے لیکن پنجاب کواسکا حصہ نہیں دیااوراب پنجاب
نے خود ادائیگی کے ذریعے10 لاکھ میٹرک ٹن گندم عوامی ضروریات کو مد نظر
رکھتے ہوئے آئینی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق امپورٹ کی اجازت طلب کی
تاہم وفاق نے اجازت دینے سے انکار کیاپنجاب کے عوام کے بارے میں وفاق کا
رویہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہے شہباز شریف ن لیگ کو پنجاب سے
نکالنے کا بدلہ عوام سے لینے کی سازش کررہے ہیں اورپنجاب میں گندم کی قلت
پیدا کرنے کی مذموم کوشش ہے جبکہ پنجاب سے اسلام آباد کو بدستور16ہزار
میٹرک ٹن گندم فراہم کی جا رہی ہے اس وقت پنجاب میں مختلف وجوہات کی بنا پر
رواں سال میں گندم کا سٹاک نسبتاً کم ہے پنجاب میں سیلاب متاثرین او ردیگر
وجوہات کی بنا پر گندم کی امپورٹ ناگزیر ہوچکی ہے اگر وفاقی حکومت نے بروقت
فیصلہ نہ کیا تو یہ بحران صرف پنجاب کی حد تک نہیں رہے گا بلکہ پورے ملک
میں گندم کا بحران پیدا ہوسکتا اس لیے ہمیں ابھی سے گندم کی صورتحال پر آپس
میں بیٹھ کر سوچنا چاہیے سیاسی لڑائیوں میں عوام کا نقصان کسی کے فائدے میں
نہیں ہوگا بلکہ مہنگائی ،غربت اور بے روزگاری نے اس وقت جو حشر عام آدمی کا
کررکھا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے آپ لاہور کو ہی دیکھ لیں جہاں
جرائم کی وارداتیں حد سے بڑھ چکی ہیں اور سی سی پی او اپنی کرسی بچانے کے
لیے جی حضوری میں مصروف ہے انکی وجہ سے صوبائی دارالحکومت میں جرائم کی شرح
میں اضافے کے ساتھ ساتھ وفاق کے ساتھ کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے حکومت کو چاہیے
کہ انہیں پنجاب سے جانے دیں ضد ہمیشہ نقصان دیتی ہے ہوسکتا ہے کہ آنے والا
نیا سی سی پی او لاہور کو بہتر انداز میں چلا کر عوام کے لیے سکون اور
اطمینان کا باعث بن جائے جو چوہدری پرویز الہی کے بھی حق میں بہتر ہو ۔
|