پروفیسر ڈاکٹر محمد اسمعٰیل بدایونی صاحب کی ایک حدیث ایک کہانی پر مبنی "سنہری صاح ستہ"
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسمعٰیل بدایونی صاحب کی ایک حدیث ایک کہانی پر مبنی "سنہری صاح ستہ" جس کا تخیل محبت واطاعت رسولﷺ کی چاشنی سے مزّین ہے بچوں کے لیے دینی واصلاحی طرزفکر سے آراستہ ایک منفرد تربیتی سیریز
|
|
|
سنہری صاح ستہ |
|
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسمعٰیل بدایونی صاحب کی ایک حدیث ایک کہانی پر مبنی "سنہری صاح ستہ" جس کا تخیل محبت واطاعت رسولﷺ کی چاشنی سے مزّین ہے بچوں کے لیے دینی واصلاحی طرزفکر سے آراستہ ایک منفرد تربیتی سیریز --------------------- کسی معاشرے کے افراد کا طرز زندگی یا راہ ِعمل جس میں اقدار، عقائد، رسم و رواج اور معمولات شامل ہوتے ہیں ثقافت کہلاتا ہے۔ ہر قوم کا اپنا ایک تہذیبی و ثقافتی تشخص ہوتا ہے گو اُس تشخص کے بعض پہلو دوسری تہذیبوں سے ملتے جلتے ہوسکتے ہیں لیکن بعض انفرادی خصوصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ایک قوم کی تہذیب کو دوسری قوموں کی تہذیبوں سے الگ اور ممتاز کرتی ہیں یہی وہ انفرادی خصوصیات ہوتی ہیں جن سے قومی تہذیب جنم لیتی اورپہچانی جاتی ہے۔ اسلامی تہذیب دین ودنیا کے حسین امتزاج کا نام ہے۔اِس کی روح توحید و رسالت ،احترام مقام نبوت ،فکرآخرت،انسانی عظمت،عدل و انصاف،باہمی احترام و محبت ،مساوات،رواداری و میانہ روی،اور اللہ و اُس کے رسول ﷺ کے راستے پر گامزن رہنے میں ہے۔اسلام نے جو اصول مرتّب کیے تھےاُن میں ہمارے دین اور رشتوں کی بقاءہے ۔ ایک وقت تھا کہ مشرقی روایات اور اسلامی اطوار نے ہمیں اِس طرح جکڑ رکھا تھا کہ مذہب، شرافت، حیا، خلوص، محبت سے ہمارے ضابطۂ حیات کی تکمیل ہوتی تھی۔ رشتوں کا تقدس تھا۔ والدین کی خدمت، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام ہماری تربیت میں شامل تھا۔ ماں بچوں کو نماز، قرآن، دعائیں، اُٹھنے بیٹھنے کے طریقے اور بڑوں کا ادب وتمیز سکھاتی تھی۔والدین اُن کے ہر فعل و حرکات و سکنات پر نظررکھتے تھے ۔ استاداُنہیں علم کے زیور سے آراستہ کرتے تھے۔ تمام تر مصروفیات معاشی اورخانگی سرگرمیوں کے باوجود ہم معاشرے سے کٹے ہوئے نہیں تھے۔ ہمسایوں سے تعلق، رشتہ داروں سے میل جول، بیماروں کی احوال پرسی، مہمان کی خاطر داری وغیرہ ہمارے معمولات میں شامل تھی ۔ لیکن آج ہماری اخلاقی قدریں اور معاشرتی روایات بدل چکی ہیں۔ اورہم اپنی دینی و مشرقی روایات کو توڑ کر مغرب کیاندھی تقلید اپناچکے ہیں۔انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی چکا چوند نے ہماری چشمِ بصیرت چھین کر ہمیں احساس محبت ومروت سےعاری کردیا ہے۔ اب نہ ماں باپ ہیں ، نہ استاد اور نہ ہی وہ بڑے بزرگ۔ شرم و حیا کے وہ پردے جو بچوں اور بڑوں کے درمیان حائل تھے تار تار ہو چکے ہیں۔ ہم ترقی کے نام پر لادینیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ثقافتی یلغار نے ہمارے اخلاق پر ضرب ِکاری لگائی ہے۔دین سے دور کرنے اور اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے لیے ہمیں ڈش،کیبل اور انٹرنیٹ کے تحفے ملے ہوئے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہماری نئی نسل میں نہ دین سے رغبت و محبت ہے اور نہ ہی اُنہیں وہ تربیت و آداب ِزندگی میسر ہیں جو کبھی ہماری شناحت اور خاصہ ہوتے تھے ۔آج کے بچوں کے پاس نہ سونے کا وقت ہےنہ جاگنے کا،نہ ایک دستر خوان پر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا۔جس کو دیکھو ہر وقت نیٹ پر موجودہیں۔ وہ کیا دیکھ رہے ہیں؟ کس سے باتیں کر رہے ہیں؟ کس سے دوستی بڑھائی جارہی ہے ؟ اُن کی سرگرمیاں تعمیری ہیں کہ تخریبی ،کسی کوکچھ معلوم نہیں ؟ والدین یہ نگرانی کرنے سے قاصر ہیں۔یعنی بچے کی اصل تربیت گاہ ماں اور باپ سے رشتہ ٹوٹ کراب نیٹ سے جڑ گیا ہے۔ اب وہی اِن کی تربیت گاہ ہے۔جو اُنہیں زندگی کی سچائیوں اور حقیقتوں سے بے خبر اچھائی اور برائی کی پہچان سے پہلے نہ صرف جوان کردیتا ہے بلکہ اپنی قومی و ملی اساس سے دور کرکے اُنہیں خود انحصاری کے نام پر خود غرض بھی بنادیتا ہے ۔یہ وہی حربہ ہے جس کے بارے میں ایک مستشرق ’’ہملٹن گب‘‘نے کہا تھا کہ: "مسلمانوں کو مغربی تہذیب کی طرف مائل کرنے کی کوششوں کا مقصد اسلامی تہذیب کا خاتمہ ہے کیونکہ مسلمانوں کی ملی وحدت کی بنیاد یہی تہذیب ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تعلیمی، ثقافتی اور ابلاغی ذرائع سے کام لے کر اِس تہذیب میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں عمل میں لائیں اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو اُن کا اپنا عمل اپنے دین سے بے بہرہ قوم ظاہر کرے گا اور خود اُن کو اِس کا احساس تک نہ ہوگا۔" آج بعینہیٖ یہی صورتحال ہے ۔مغربی مقاصداِس لیے پورے ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہم نے اپنی روایات اپنی اساس اور اپنی اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کرلی ۔اوراپنی تہذیب و ثقافت کو فراموش کردیا۔لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ والدین،اساتذہ ،تعلیمی ادارے اور صاحب ِاختیارنئی نسل کو اسلامی معاشرے کا ایک کار آمد فرد بنانے کے لیے بچوں کو اپنے دین،اپنی اقدار،اپنی تہذیب اوراپنی ثقافت سے آگاہ کر نے کی پوری تگ و دو کریں۔ یہی وہ مقصد عظیم ہےجسے پروفیسر ڈاکٹر محمد اسمعٰیل بدایونی صاحب نے اپنی زندگی کا نصب العین بنایا ہوا ہے۔وہ عرصہ دراز سے نئی نسل بالخصوص بچوں کے اندر دینی جذبہ کی آبیاری ،ملی تشخص کی بیداری اورشریعت اسلامی کی پاسداری کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں ۔صاح ستہ میں شامل بخاری شریف، مسلم شریف، ترمذی شریف، ابو داؤد شریف، ابن ماجہ شریف اور نسائی شریف کی ایک حدیث ایک کہانی پر مبنی سے اُن کی حالیہ تصانیف ''سنہری بخاری شریف"،"سنہری مسلم شریف"،"سنہری ترمذی شریف"،"سنہری ابو داؤد شریف"،"سنہری ابن ماجہ شریف"اور "سنہری نسائی شریف" بھی اسی سلسلے کا ایک تسلسل اور کڑی ہیں۔جس میں قول رسول ﷺ کو ہر کہانی کاموضوع بنایا گیا ہے۔نئے رنگ اور نئے انداز میں یہ کہانیاں عام و سادہ زبان میں دل نشیں انداز میں لکھی گئی ہیں۔جس کی وجہ سے ہر عمر کے بچے اسے نہ صرف دلچسپی سے پڑھیں گے بلکہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں وہ بہت کچھ سیکھ بھی سکیں گے۔دیکھا جائے توبچوں کو اُن کی غلطی سے روکنے ٹوکنے اور اصلاح کرنے کا یہ انداز پرانا ہے کہ کہانی کہانی میں اُنہیں اُن کی غلطی سے آگاہ کیا جائے اور کہانی کے کرداروں کے ذریعے اُن کی تربیت و اصلاح پر توجہ دی جائے ۔ڈاکٹر صاحب نے اِسی پرانے انداز کونئی فکری جہت دے کراِک نیا طرز تحریر ہی متعارف نہیں کروایابلکہ دینی ادب میں نئی روش اور اسلوب کی بھی طرح ڈالی ہے ۔ سنہری صحاح ستہ سیریزمیں شامل 1:۔"سنہری بخاری شریف" صحیح بخاری شریف کی چونتیس (34) احادیث مبارکہ کے انتخاب پر مبنی ایک حدیث ایک کہانی کا مجموعہ ہے ۔ 2:۔"سنہری مسلم شریف" صحیح مسلم کی اکتیس(31)منتخب احادیث مبارکہ کے انتخاب پر مبنی ایک حدیث ایک کہانی پر مشتمل ہے ۔ 3:۔"سنہری ترمذی شریف" صحیح ترمذی شریف کی بتیس(32)احادیث مبارکہ کے انتخاب پر مبنیایک حدیث ایک کہانی پر مشتمل ہے ۔ 4:۔"سنہری ابُوداود شریف" صحیح ابوداود شریف کی تیئس(23) منتخب احادیث مبارکہ کے انتخاب پر مبنی ایک حدیث ایک کہانی پر مشتمل ہے ۔ 5:۔"سنہری ابن ماجہ شریف" صحیح ابن ماجہ شریف کی چونتیس(34) منتخب احادیث مبارکہ کے انتخاب پر مبنی ایک حدیث ایک کہانی پر مشتمل ہے ۔جبکہ 6:۔"سنہری نسائی شریف" صحیح نسائی شریف کی چھ (6) منتخب احادیث مبارکہ کے انتخاب پر مبنی ایک حدیث (ضمناً کئی احادیث) اور ایک سے زائد کہانیوںپر مشتمل خوبصورت کتاب ہے ۔ سنہری سیریز کی انفرادیت و افادیت سنہری سیریز کی یہ کتب کئی حوالوں سے دیگر کتب سے منفرد ہیں ۔اِن کی سب سے پہلی خاصیت تو یہ ہے کہ ہر حدیث جسے موضوع بنا کر کہانی لکھی گئی ہے وہ کہانی کی ابتداء میں الگ سے تزئین کرکےمکمل حوالے کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ دوسری اہم خصوصیت یہ ہےکہ کہانی لکھنے کے لیےکچھ منفرد اور ایسی زبان زد عام احادیث کوانتخاب کیا گیا ہےجن میں سے اکثروبیشتر ہم روز مرہ کے معمولات میں پڑھتےیا سنتے رہتے ہیں۔تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ دوران کہانی ضمناً بیان کردہ احادیث مبارکہ بھی عربی متن ،اُردو ترجمہ اور حوالہ جات کے ساتھ موجود ہیں۔اِن تمام کتب کی ایک خوبی یہ بھی ہے اِن میں ہرکتاب کی ابتداء میں صاحب کتاب امام بخاری،امام مسلم اورامام ترمذی وغیرہ کے مختصر حالات زندگی کو شامل کرکے جہاں بچوں کے تعلق کو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی نسبت و محبت سے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہیں اُنہیں صاحب کتاب کے حالات زندگی اور احادیث مبارکہ حصول کے لیے پیش آنے والی دقت اورمحنت و مشقت سے آگاہ اور روشناس کراکر احادیث مبارکہ کی اہمیت و افادیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ۔ سنہری سیریز کی کہانیوں کے بارے میں اگر بات کی جائے تو بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہکہانیاں نہ زیادہ طویل ہیں، نہ ہی بہت مختصر۔ ایک کہانی کو آرام سے ایک نشست میں مکمل کیا جاسکتا ہے اور کہانیاں پڑھنے کے شوقین بچے ایک یا دو نشست میں مکمل کتاب بھی پڑھ سکتے ہیں۔یہ کتب خوبصورت و دیدہ زیب سرورق کے ساتھ عمدہ پیپر پرافادہ عام کے لیے نہایت کم ہدیہ پر شائع کی گئیں ہیں۔یہ حقیقت ہے کہکتاب دوست بھی ہے اور بہترین ہم سفر بھی۔ تحفہ دینے کے لیے بھی کتاب سے بہتر کوئی شے نہیں۔ بچوں کو بھی عادت ڈالیں کہ وہ کتب ہی ایک دوسرے کو بطور تحفہ پیش کریں۔ نسل نو کو کتاب اور مطالعے کی جانب راغب کرنے کے لیے ہمارا یہ قدم اٹھانا اِس بھی ضروری ہے کہعام طور پر ہمارے ہاں کہانیوں اور لطیفوں کی ایسی کتب مروج ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور زیادہ تر کہانیوں میں پیسے، دولت اور نمود و نمائش سے رغبت ومحبت کا تاثر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اور کہانیاں بجائے بچوں کی تربیت کے اُن کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ اِس اَمر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ بچوں کےلیے ایسی کہانیاں مرتب کی جائیں جو اُن کی دلچسپی کےساتھ اُن کی بہتر تربیت واصلاح کا باعث ہوں۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئےڈاکٹر اسمعٰیل بدایونی صاحب نےایک حدیث ایک کہانی کاسلسلہ شروع کیا ہے جسے وہ مستقبل قریب میں مزید نئی جہتوں کے ساتھ آگے بڑھانے کاارادہ رکھتے ہیں۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے باعمل مسلمان بنیں اور اُسوہ رسول ﷺ پر چلیں تو انہیں ایسی ہی کتب پڑھوائیں اور تحفتاً دیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔آپ جامعہ کراچی سےاسلامک اسڈیز میں پی ایچ ڈی کا اعزاز رکھتے ہیں۔مقامی کالج میں شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ متعدد کتب کے مصنف اور آپ کے کثیر تعداد میں اصلاحی و تحقیقی مضامین و مقالاتاور کہانیاں ملکی و غیر ملکی اخبارات و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر''صدائے درویش ''،'' قلم کی جسارت''اور''صدائے قلم''جیسے عنوانات کے تحت ہلکی پھلکی شائستہ اور اصلاحی و دعوتی تحریریں آپ کی شناخت وپہچان ہیں ۔''صدائے درویش'' جلد اول و دوم ،''عالم اسلام پر مستشرقین کی فکری یلغار''،''استشراقی فریب''،''عورت تقدیس ملت''،''پیغمبر اسلام اور بائبل''اور''قلم کی جسارت ''وغیرہ آپ کی مشہور و معروف اصلاحی و تحقیقی کتب ہیں۔ آپ نے بچوں کی تربیت واصلاح کے لیے بھی متعدد کتب تحریر کیں۔ جن میں خاص طور سے ''سنہری کہانیاں''،''سنہری قصے''،''سنہری سیرت''،''سنہری معجزات''،''سنہری خلافت''،''سنہری امامت''،''سنہری حکایات''،''سنہری کتاب''،''سنہری ولایت''،''سنہری تعلیم''،''سنہری پیغام''، ''سنہری اندلس'' اور''اندھیرے سے اجالےتک''خاص طو پر قابل ذکر ہیں۔ صحاح ستہ کی ایک حدیث ایک کہانی سے ماخوذ اُن کی حالیہ کتب ''سنہری بخاری شریف"،"سنہری مسلم شریف"،"سنہری ترمذی شریف"،"سنہری ابو داؤد شریف"، "سنہری ابن ماجہ شریف"اور "سنہری نسائی شریف"اِس لحاظ سے منفرد اور جدا ہیں کہ اِس میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں لکھے گئے واقعات سے بچوں کیاسلامی تربیت واصلاح اور نیک و صالح ذہن سازی کے لیے اسلام کے تربیت اولاد کےسلسلے میں زرّیں اصول وضوابط کو مدنظر رکھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب اِس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتے ہیں کہ اُمت مسلمہ آج نت نئے فتنوں کا شکار ہے ، ہرطرف سے اُس پر فکری یلغار ہورہی ہے ۔ اُس کا جداگانہ تشخص و شناخت مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہيں۔ پچھلے چند سالوں سے صہیونی و عیسائی مشینریاں اوراسلام دشمن متعصب ہندو تنظیمیں مسلمانوں کی نئی نسل پرخصوصی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہيں۔ کیوں کہ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ بچے کا ذہن سادہ کاغذ کی مانند ہے اُس پر جو کچھ بھی لکھ دیا جائے ہمیشہ کے لیے نقش ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ اُن کی تمام تر کوشش وکاوش کا مقصد آنے والے اسلامی معاشرہ کی متحرک و فعال قوت نئی نسل کو لادینیت، مغرب پرستی، اپنی تہذیب و تمدن سے نفرت، دین بے زاری، کفروالحاد، اباحیت پسندی اور بے حسی کی فکری یلغار اور شکار ہونے سے بچانا اور اُنہیں اُس نفع بخش محاذ پر لگانا ہے جس میں ملک و ملت اور خود اُن کی اپنی فلاح و بقاء کا راز مضمر ہے ۔یہی وہ جذبہ محرکہ ہے جس نے ڈاکٹر اسمعٰیل بدایونی صاحب کوبے چین و مضطرب کیااورمتحرک عمل رکھا ہوا ہے۔وہ تن تنہا نئی نسل خصوصاً بچوں میں اسلامی فکر کی آبیاری اور اپنی اساس سے رشتہ استواری میں دل وجان سے مصروف ہیں۔اور چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرحاُنہیں باطل کی فکری یلغار سے بچاکر اُن کا تعلق دامن مصطفیٰ ﷺ سے جوڑ دیا جائے۔اُن کی خواہش ہے کہ اِس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ دینی و اصلاحی ادب مرتب کیا جائے۔جس کے لیے افراد کاراور اداروں کے تعاون و سرپرستی کی ضرورت ہے۔ قارئین محترم ! ہمارا ماننا ہے کہ تربیتِ اولاد کے سلسلہ میں صاح ستہ کی منتخب احادیث مبارکہ مبنی یہ سنہری سیریز نوجوان نسل اور بچوں کے لیے نہایت ہی اہم کتب ہیں۔ موجودہ دور میں اولاد کی بے راہ روی اور دین سے بیزاری عام ہے،لہٰذا بچوں کی دینی تربیت اور اُن کو صحیح اسلامی خطوط پر لانے کے لیے اِن کتب کا مطالعہ بہت ہی سود مند ثابت ہوگا۔چونکہ نیک اولاد کسی بھی انسان کے لئے بیش بہا قیمتی سرمایہ اور اللہ کریم کی جانب سے گراں قدر عطیّہ ہوتا ہے، اِس لیے والدین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں اپنے بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے صحیح نگہداشت وپرورش کا سوچتے ہیں وہیں وہ بچوں کی درست خطوط پر تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔کیونکہ آج بچوں کو پاکیزہ اخلاق اور نیک خصال سے آراستہ کردینے میں روشن اور تابناک مستقبل کی نوید پوشیدہ ہے ۔ یاد رکھیئے کہ بچّوں کی تربیت کا مسئلہ اِس لحاظ سے نہایت اہمیت کاحامل ہے کہ اِس پر نہ صرف یہ کہ والدین اور بچّوں میں سے ہر ایک کی تمام تر مصلحتوں اور منفعتوں کا انحصار ہے،بلکہ قوم وملّت کے لیے درخشاں مستقبل کے حصول کا بھی یہی ایک واحد ومنفرد ذریعہ ہے۔ تربیت اولاد کے انہی بے شمار مصالح کے پیش نظر جہاں اسلام نے اس کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام کیا ہے وہاں یہ مسئلہ ان تمام علما ئے تربیت اور معماران اقوام کی خصوصی دلچسپی کا بھی موضوع رہا ہے جن کے آقا وسردار، محمدالرسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ رب کریم کی طرف سے آپ ﷺکی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ آپ ﷺہردو والدین اور بچّوں کو علم وعرفان کی دولت سے مالا مال کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی اِس طور پر رہنمائی فرمائیں کہ وہ دنیا وآخرت میں سعادت مندی وکامرانی سے بہرہ ور ہوسکیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سنہری سیریز جہاں اسلامی لٹریچر میں گراں قدر اضافہ کا باعث بنے گی وہیں یہ بچوں کی اسلامی خطوط پر تربیت واصلاح کے ضمن میں بھی اہم کردار اداکرے گی ۔اِس تناظر میں ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی صاحب کامنفرد تخیل پر مبنی یہ شاندار علمی واصلاحی کام اِس لحاظ سے لائق صد تحسین اور قابل مبارک بادہے کہ آج کے زوال پزیر اخلاقی و روحانی ماحول میں یہ علم وفہم کا منارہ نوراور نوجوانان ِ ملت کو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی جانب پلٹ آنے کی دعوت ِ غوروفکردے رہا ہے ۔ برادران محترم !آپ بھی کوشش کیجیے کہ نبی کریم ﷺ سے محبت کرنے والے ہر خاندان اور گھر تک یہ کتب لازمی پہنچیں اورہمارے بچوں میں نبی کریم ﷺ کی اطاعت واتباع کا جذبہ بیدار ہو۔اُن میں جذبہ عشقِ رسول ﷺ پروان چڑھے ۔ہرگلی ہرکوچے سے فداک امی و ابی یا رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند ہو ں۔اور اُن کے اخلاق و کردار کی روشنی دیکھ کر دنیا پکار اُٹھے کہ یہ نبی کریم ﷺ کی اُمت کے بچے اور نوجوان ہیں ۔مت بھولیے کہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات مبارکہ پر نبوت ورسالت ختم ہوچکی ہےمگر کارِ نبوت ابھی باقی ہے جس کی ادائیگی کے لیے ہم سب کو اپنا اپناکردار ادا کرنا اوراپنااپناحصہ ملانا ہے ۔ آئیے اِس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئےپروفیسر ڈاکٹر محمداسمعیٰل بدایونی صاحب کے"سنہری پیغام " کو ہرخاص و عام تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ محمداحمدترازی
|