کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی 20 ویں قومی
کانگریس ابھی حال ہی میں اختتام پزیر ہوئی ہے۔ اس اہم سیاسی سرگرمی کے
دوران چین کی مستقبل کی ترقی کے لئے ایک بلیو پرنٹ تیار کیا گیا ہے۔ایک
ایسے وقت میں جب عالمی معیشت کو رواں سال ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا
پڑ رہا ہے اور ممکنہ طور پر اگلے برس بھی کچھ مشکلات درپیش آسکتی ہیں، چین
کا اقتصادی نقطہ نظر عالمی اہمیت کا حامل ہے. چین کی مستقبل کی ترقی پر
اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، دنیا بھر میں کاروباری طبقوں کا خیال ہے
کہ چین کی جدیدیت پر مبنی ترقی عالمی معیشت میں مزید یقین پیدا کرے گی.چینی
صدر شی جن پھنگ اسی کانگریس کے دوران واضح کر چکے ہیں کہ چین ایک نیا
ترقیاتی نمونہ تخلیق کرنے اور اعلیٰ معیار کی ترقی کو آگے بڑھانے میں تیزی
لائے گا۔صدر شی کے مطابق ہمیں تمام محاذوں پر نئے ترقیاتی فلسفے کو جامع
اور ایمانداری سے لاگو کرنا ہوگا ، سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی کو فروغ دینے کے
لئے اصلاحات جاری رکھنی ہوں گی ، اعلیٰ معیار کے کھلے پن کو فروغ دینا ہوگا
، اور ترقی کے ایک نئے نمونے کو فروغ دینے کی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا جو
ملکی معیشت پر مرکوز ہے اور ساتھ ساتھ ملکی اور بین الاقوامی معاشی بہاؤ کے
مابین مثبت تعامل کی خصوصیات رکھتا ہے۔
یہ امر باعث اعتماد ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین کی مجموعی ملکی
پیداوار عالمی معیشت کا 18.5 فیصد رہی ہے۔ چین 140 سے زائد ممالک اور خطوں
کے لئے ایک اہم تجارتی شراکت دار بن چکا ہے، مصنوعات کی تجارت کے مجموعی
حجم میں دنیا میں سرفہرست ہے.چین کووڈ۔ 19 وبائی صورتحال کے بعد سے ،
انسداد وبا اور معاشی ترقی کو مربوط کرنے میں کامیاب رہا ہے ، اب بھی عالمی
سپلائی اور صنعتی چین کا استحکام برقرار رکھے ہوئے ہے ، اور عالمی معاشی
بحالی کو آگے بڑھا رہا ہے۔اس کے علاوہ، چین اپنی ترقی کو ہر گز ماحول کی
قیمت پر آگے نہیں بڑھا رہا ہے بلکہ اپنی ترقی کو سرسبز اور مزید پائیدار
بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انسانیت اور فطرت کے مابین ہم آہنگ بقائے باہمی
کے حصول میں ، چین نے پچھلے 10 سالوں میں اپنے کاربن اخراج کی شدت میں 34.4
فیصد کمی لائی ہے ، اور 2030 سے قبل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی
کو عروج پر رکھنے اور 2060 سے قبل کاربن نیوٹرل حاصل کرنے کا عہد کیا ہے۔
چین نے ملکی معیشت کو مضبوط کرتے ہوئے اپنی منصوبہ بندی میں انوویشن کو
اولین ترجیح دی ہے۔ ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ
گلوبل انوویشن انڈیکس 2021 میں چین 12 ویں نمبر پر آ چکا ہے جبکہ 2012 میں
34 ویں نمبر پر تھا۔ یوں چین اس اعتبار سے متوسط آمدنی والی معیشتوں میں
پہلے نمبر پر ہے۔جدت طرازی مہم کے دوران فارچیون گلوبل 500 کی فہرست میں
چینی کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2021 میں 145 چینی کمپنیوں نے اس
فہرست میں جگہ بنائی ہے، 2012 میں یہ تعداد 95 تھی جبکہ اس میں مسلسل 19
سالوں سے اضافہ ہو رہا ہے۔ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر کے لحاظ سے بھی چین
نے دنیا کا سب سے بڑا 5 جی نیٹ ورک تعمیر کیا ہے ، جس میں 2021 کے آخر تک
ملک بھر میں کل 1.43 ملین 5 جی بیس اسٹیشن نصب کیے گئے ہیں ، جو دنیا کی کل
آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ ہے۔تکنیکی ترقی کی بدولت اور ٹیکنالوجی دوست
رویوں پر عمدگی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے چین نے تیز رفتار نقل و حمل کے نیٹ
ورک کی تعمیر میں نمایاں تیزی لائی ہے. دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ
ہائی اسپیڈ ریل نیٹ ورک کے ساتھ،ملک میں تاحال ہائی اسپیڈ ٹرین کے دائرہ
کار کو 40 ہزارکلومیٹر سے زائد کی توسیع دی جا چکی ہے۔
وسیع تناظر میں چین کے اس سارے ترقیاتی سفر میں چینی طرز کی جدیدیت قومی
نشاتہ الثانیہ کی وضاحت کرنے والی ایک اہم اصطلاح ہے اور سی پی سی کی حالیہ
رپورٹ میں ایک اور بز ورڈ ہے،جس نے ملکی اور بیرون ملک کاروباری طبقوں میں
گرما گرم بحث کو جنم دیا ہے۔اس میں تمام ممالک کی جدیدیت کے عمل کے مشترک
عناصر شامل ہیں ، لیکن سب اہم بات یہ ہے کہ اس میں چینی طرز کی خصوصیات
شامل ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی آبادی کی حامل جدیدیت ہے، سب کے لئے مشترکہ
خوشحالی، مادی و ثقافتی اخلاقی ترقی، انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی
اور پرامن ترقی کی جدیدیت ہے.چین کا یہ نقطہ نظر واضح کرتا ہے کہ وہ ترقی
کے سفر میں تنہا پرواز کا قائل نہیں ہے بلکہ دنیا کے سبھی خطوں بالخصوص
ترقی پزیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کو اپنا ہم نوا بنانا چاہتا ہے۔
|