امن کیلئے جدوجہد کا نیا مرحلہ ؟

پاکستان میں زیر زمین بنیاد پرستی کا باقاعدہ آغاز کب ہوا ، اس کے لیے تو ایک طویل تاریخ رقم کرنا ہوگی۔ تاہم 2001-2008وہ پہلا مرحلہ ہے جب اسلام کے نام پر جنگ کے اثرات پاکستان پر اثر انداز ہوچکے تھے ۔ کالعدم ٹی ٹی پی 2007کے موسم گرما کے آخر میں نمودار ہوئی اور پھر اس کی چھتری تلے مختلف انتہا پسند گروپ متحد ہونا شروع ہوگئے ، آزاد قبائلی علاقوں میں ان کا اثر رسوخ بے پناہ رہا ۔ پاکستان میں یہ ایک دوسرے کے مخالف بھی رہے لیکن افغان طالبان کے ساتھ ان کے تعلقات مثالی ہیں۔ 1979-1989کی جنگ کے دوران امریکہ کے تعاون سے تشکیل دئیے جانے والے ’ پرانی ‘ جہادی تنظیموں پر انحصار کی پالیسیاں اپنائی گئی۔ ہم سوویت یونین کے خلاف عالمی برادری کی اسلام پسندی کی پالیسیوں پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس جنگ میں امریکہ ہمارا اتحادی تھا ، تاہم 2001کے بعد جب امریکہ کا نظریہ بدلا تو ملکی حالات بھی بدلے اور بالآخر پالیسیاں بھی بدلیں۔

2001کے آخر میں افغان طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغان جنگجوئوں کی بھی پاکستان آمد نے مقامی قبائلی اور مذہبی عسکریت پسند گروہوں کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ کچھ پختون انتہا پسند جلد ہی پاکستان کی مرکزی اور سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوگئے تاہم 2002کے موسم خزاں میں صوبہ خیبر پختونخوا (NWFP سابقہ) میں متحدہ مجلس عمل نے کامیابی حاصل کی اور 2008 تک صوبائی اقتدار ان کے پاس تھا ۔ اس دور کو مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے مضبوط اور منظم ہونے کا تاریک دور قرار دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ 2002ء کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے 53، عوامی نیشنل پارٹی نے 15 اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ فروری2008 میں اعتدال پسند قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے صوبائی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی، ان کا روز اول سے عسکریت پسندوں کے خلاف سخت موقف رہا ہے، شمالی مغربی سرحدی صوبے ، سوات اور بونیر کے اضلاع میں عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح افواج کی کاروائیوں کی کامیابی اس کی وضاحت کے لیے کافی ہیں۔

ابتدائی طور پر (کالعدم ) ٹی ٹی پی کی مقبولیت شمال مغربی سرحدی علاقوں میں قائم تھی ، انہیں ایسی قوت سمجھا جاتا تھا کہ نظم و نسق کے ساتھ ، اسلامی قوانین کی بحالی کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کا عملی مظاہرہ ( کالعدم )تحریک نفاذ شریعت مجمدی کے سربراہ ملا صوفی محمد کو اہل سوات کی حمایت اور حکومت کے ساتھ نظام عدل ریگولریشن کے نفاذ کی صورت میں دیکھنے کو ملا لیکن آہستہ آہستہ پختون علاقوں میں ان کی حمایت کم ہونا شروع ہو گئی ۔ جس کی بڑی وجہ بہت زیادہ سختی ، ظلم و ستم، غیر اسلامی روئیے پر مبنی اقدامات اور پے در پے دہشت گردی کے واقعات بنے یہاں تک کہ افغان طالبان رہنما ملا طور نے 10 نومبر2009 کو ( بظاہر) لاتعلقی کا اعلان کیا لیکن غیر اعلانیہ پھر بھی یہ کالعدم تنظیمیں ان سے جڑی رہیں۔مئی2009میں پاکستانی فوج کی فعال کاروائیوں کے آغاز کے ساتھ انتہا پسندوں کے خلاف موثر آپریشن شروع ہوا لیکن خطے میں روز گار کے مسائل پیدا ہوگئے ، روایتی تجارتی راستے کٹ گئے ، اکثر نسبتاً پرسکون دور کے دوران بھی کرفیو کی باعث علاقے بندش سے عوام ذہنی تناو کا شکار ہوگئے۔

پاٹا کے ساتھ قبائلی زون میں بھی مسلح افواج کی موجودگی کے بعد انتہا پسندوں کی آزادنہ سرگرمیاں ختم ہوئیں، یہیں کچھ مقدور قوتوں سے اجتہادی غلطی بھی ہوئی کہ انہوں نے منظم طریقے سے قبیلے اور قبائلی نظام کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔امن لشکر وغیرہ جیسی حکومتی حمایت یافتہ مسلح ملیشیا میں شامل بعض عناصر نے قبائلیوں کو ڈرانے دھمکانے سمیت مرکزی حکومت اور آزاد قبائل کے مابین تعلقات کو کمزور کرنے کی کوشش کی ، جسے عمومی طور پر قبائلی عمائدین کا خاتمہ کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ جو روایتی طور پر پولیٹکل ایجنٹ اور مقامی لوگوں کے درمیان ثالث کے طور پر کام کرتے رہے ہیں ، بعض صورتوں میں مقامی طالبان نے قبائلی رہنمائوں کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن عمومی طور پر ان کوششوں کے باوجود قبائل اور قبائلی قبیلوں کے روایتی ملوک اور خان ( سردار اور بزرگ ) نے اپنی طاقت اور اثرو رسوخ کو برقرار رکھا ۔1989میں افغانستان میں لڑائی میں حصہ لینے والے اپنے جہادی نظریات کے ساتھ آئے تھے ، 1994میں یہ افغان طالبان میں شامل ہوئے ۔ موخر الذکر1996میں امارات اسلامیہ افغانستان ن کے اعلان کے ساتھ شمال مغربی سرحدی علاقوں میں غیر معمولی مقبولیت بڑھی۔ 2001کے بعد جب صورت حال تبدیل ہوئی تو نئے عسکریت پسند گروہوں کی تشکیل نے وہ سب کچھ بکھیرنا شروع کردیا ، جس کا خواب دیکھا گیا تھا ۔نیک محمد وزیر نے اپنے جنگجوئوں کے ساتھ امریکی اور نیٹو افواج پر حملے شروع کردیئے۔ 18جون 2004میں نیک محمد کے مارے جانے کے بعد بیت اللہ مسعود آئے ۔اگست 2009میں بیت اللہ کی ڈورن حملے میں ہلاکت کے بعد حکیم اللہ محسود ، قاری حسین محسوداور پھر ملا فضل اللہ ، خالد خراسانی نے انتہا پسند اقدامات کو برقرار رکھا۔ ملا نذیر نے مغربی افواج کے خلاف کاروائیوں میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے ازبکوں کو بے دخل کیا ، اسی طرح دیگر عسکریت پسندوں نے علاقوں کو مضبوط اور اپنی ریاست بنانے میں قوت صرف کی۔ 2008-2009میں ڈر ون میزائل کے لگاتار حملوں کی وجہ سے زیادہ تر عسکریت پسند شمالی وزیر ستان منتقل ہوگئے، بالآخرجون 2009 میں حکومت نے بڑے کریک ڈائون کا آغاز کردیا۔ فوجی آپریشن سے انتہا پسند افغانستان منتقل ہونا شروع ہوگئے اور اب اطلاعات کے مطابق انہی جنگجوئوں کی دوبارہ واپسی نے اہل سوات سمیت خیبر پختونخوا میں بے چینی کو جنم دیا ہے۔ افغان طالبان کے افغانستان کا مکمل کنٹرول سنبھالنے کے بعد بادی النظر پاکستان میں جنگجوئوں کی مبینہ واپسی کی خبریں ہی سب سے زیادہ تشویش ناک ہیں۔

ماضی کے مصدقہ عوامل کی وجہ سے ہی اہل سوات اور خیبر پختونخوا میں ضم فاٹا کے عوام اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا ایک بار پھر انہیں کسی معاہدے کے تحت تو واپس نہیں لایا جا رہا۔ یہ منطقی و جائز سوال ہے، پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہونی چاہیے، منتخب نمائندوں کو اپنے حلقے کی عوام کو مطمئن کرنا چاہیے ۔ قیاس آرائیاں غلط فہمیوں کو جنم دے چکی ہیں اس کا ازالہ کرنا ریاست کا کام ہے امن کے خاطر عوامی تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، اگر منتخب نمائندے اپنے حلقے کی عوام کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو اس کے مضر اثرات سے پورے ملک کی فضا پھر متاثر ہوگی ۔

 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744099 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.