ارشد شریف کینیا کے شہر نیروبی کے قریب گولی لگنے
سے شہید ہوگئے واقعہ کینیا کے شہر نیروبی سے دو گھنٹے کے فاصلے پر واقع
علاقے میں پیش آیا ارشد شریف گولی لگنے سے شہید ہوگئے، ارشد شریف ایک تجربہ
کار صحافی ہونے کے ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے نیوز اینکرز میں سے ایک تھے،
نجی ٹی وی کا شو پاور پلے بطور ٹی وی اینکر ان کا ٹیلی ویژن پر آخری شو تھا
ارشد شریف جیسا محب وطن صحافی محفوظ نہیں ہے تو پھر یقین مانیں پاکستان میں
کوئی بھی ایسا شخص محفوظ نہیں جو پاکستان کا درد رکھتا ہواور پاکستانیوں کا
دکھ سمجھتا ہوارشد شریف ایک بہادر فوجی کا بیٹاایک شہید فوجی کا بھائی تھا
اسکی بے لاگ رپورنٹنگ اور غیر جانبدار تحقیقاتی رپورٹوں کا پورا پاکستان
گرویدہ تھا اور انکا پروگرام واحد پروگرام تھا جسکا انتظار نہ صرف ملک میں
بلکہ ملک سے باہر بھی کیا جاتا تھا وہ ایک ایسے پاکستانی صحافی، مصنف اور
ٹی وی اینکر تھے جنہیں تحقیقاتی صحافت میں مہارت حاصل تھی انہوں نے برطانیہ
سمیت قومی اور بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے لیے ملک میں بہت سے سیاسی
واقعات کا احاطہ کیا 23 مارچ 2019 کو انہیں صدر علوی نے صحافت میں ان کی
خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازااے آر وائی نیوز پر پاور پلے کے
میزبان ارشد شریف تھے آجکل وہ بول نیوز سے منسلک تھے ارشد شریف نے اے اے جے
نیوز میں بطور نیوز ڈائریکٹر خدمات انجام دیں دنیا ٹی وی کی نیوز ٹیم کی
بطور ڈائریکٹر نیوز اور پروگرام کیوں کے میزبان کی قیادت بھی کرتے رہے ارشد
شریف کراچی میں پاک بحریہ کے ایک کمانڈر محمد شریف کے ہاں پیدا ہوئے انہوں
نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1993 میں ایک فری لانس کے طور پر کیا جب وہ
ابھی طالب علم تھے انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے پبلک
ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی ارشد شریف کے والد کمانڈر
محمد شریف کا مئی 2011 میں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جب
انتقال ہوا تو ارشد شریف کے چھوٹے بھائی میجر اشرف شریف والد کی نماز جنازہ
میں شرکت کے لیے آرہے تھے تو دہشت گردوں کی فائرنگ سے وہ بھی شہید ہوگئے
ایک ہی دن کمانڈر محمد شریف اور میجر اشرف شریف باپ بیٹے کو پورے فوجی
اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ارشدشریف آج نیوز کے ڈائریکٹر نیوز بھی
رہے انہوں نے 2011 میں ڈان نیوز کے بیورو چیف کے طور پر کام کیا ان کی پہلی
میڈیا ملازمت ہفتہ وار اشاعت پلس کے ساتھ تھی جہاں انہوں نے 1999 میں کالم
نگار، رپورٹر اور منیجنگ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ارشد شریف نے
1999 میں دی نیوز اور 2001 میں ڈیلی ڈان میں شمولیت اختیار کی۔ارشدشریف نے
دفاع اور خارجہ امور میں مہارت کے ساتھ قبائلی علاقوں میں تنازعات پر بھی
بہت خوبصورت رپورٹنگ کی پاکستان سے باہر لندن، پیرس، اسٹراسبرگ اور کیل سے
معروف پاکستانی خبر رساں اداروں کے لیے رپورٹنگ کرتے رہے ارشد شریف نے بطور
اینکر پروگرام پاور پلے کے لیے 2016 کے انویسٹی گیٹو جرنلسٹ آف دی ایئر کا
ایوارڈ بھی جیتا ۔ 2018 میں ارشد شریف نے کرنٹ افیئر اینکر آف دی ایئر کا
ایوارڈ جیتا ارشدشریف نے 2014 میں اے آر وائی نیوز پر اپنا پروگرام پاور
پلے شروع کیاتھا جو بہت جلد عوام کا سب سے مقبول پروگرام بن گیا انکے
پروگرام میں ناظرین کو بحث کرنے کی بجائے نئی معلومات دینے پر توجہ دی
گئی۔سینیئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف تحقیقاتی صحافت میں جاندار
تجزیوں اور ملکی حالات پر اپنی بے لاگ تحقیقاتی رپورٹس کے حوالے سے جانے
جاتے تھے ارشد شریف نے ہمیشہ نڈر اور بے باک صحافی ہونے کا ثبوت دیا اور
کبھی کسی دھمکی سے مرعوب یا خوفزدہ نہیں ہوئے وہ تحقیقاتی صحافت میں جاندار
تجزیوں اور ملکی حالات پر اپنی بے لاگ تحقیقاتی رپورٹس کے حوالے سے جانے
جاتے تھے انہوں نے اے آر وائی نیوز پر سیاستدانوں کی کرپشن کو بے نقاب کیا
عسکری امورپر بھی ان کی گہری نظر تھی وہ فوج کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز
کو مؤثر انداز میں پیش کرتے تھے ارشد شریف گزشتہ شب کینیا میں حادثے کے
نتیجے میں شہید ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں شہید ہونے والے صحافیوں کے بارے میں
اگررپورٹ ملاحظہ کی جائے تو 1990سے لیکر 2020 تک تقریبا 2658 صحافیوں کو
قتل کیا گیاابھی چند ماہ قبل لاہور پریس کلب کے سامنے حسنین شاہ کو بھی سرے
عام قتل کردیا گیاہم اپنے صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہے جس نظام کو
بدلنے کی بات ارشد شریف کرتا رہا وہ نہ بدل سکا الٹا وہ اپنی جان سے چلا
گیا یہاں پر اقتدار کے حصول کے لیے 75برسوں سے چہرے بدلتے رہے نظام نہ بدل
سکا؟ ملک پر 35سال جرنیلوں اور باقی عرصہ پی پی ، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی
نے حکومتیں کیں اور ہم پاکستان کو رہنے کے قابل نہ بنا سکے یہاں پر جس نے
عوام کے خون پسینے پر ڈاکے مارنے والوں کو بے نقاب کیا وہی پر اسے قتل کی
دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی کچھ لوگ تو پاکستان میں مار دیے گئے اور جو اپنی
جان بچا کر باہر بھاگ گئے وہ کسی حد تک محفوظ رہے جو یہاں رہ رہے ہیں وہ
ایک انجانے سے خوف میں مبتلا ہیں بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک
میں سوائے موت کے ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل اور
معدنیات سے مالا مال ہے لیکن ایماندار اور صالح قیادت نہ ہونے کی وجہ سے
ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ ملک کے تمام حکمران
استعمار کے غلام ہیں اور یہاں غلاموں کی بستی ہے عوام کی اکثریت خط غربت سے
نیچے زندگی گذار رنے پر مجبور ہے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان ڈگریاں اٹھائے
بے روزگار پھر رہے ہیں پاناما لیکس اور پنڈوراپیپرز میں ملوث لوگوں کا
یکساں احتساب ہوتا تو کرپشن کا راستہ بند ہو سکتا تھااور پھر کسی کو ملک
چھوڑ کر جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑنی تھی حکمرانوں کوبھی ایک دن آخرت میں
اﷲ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا کرپشن، لوٹ مار اور مفادات کی سیاست کی وجہ
سے لوگوں کا اعتماد جمہوری نظام سے اٹھ رہا ہے اس سے پہلے کی دیر ہوجائے
ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا ۔
|