دہلی فسادات :چشم کشا حقائق پر مبنی رپورٹ

 ہندوستان کے اندر پچھلے 75سالوں میں تقریباً 60ہزار فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوچکے ہیں ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2008سے 2018کے دس سالوں وقفہ میں کم و بیش 8ہزار فسادات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ ان فسادات میں پولیس کا رویہ اکثر جانبدارانہ رہا ہے۔ اس نے کئی بار فسادات کو کنٹرول کرنے کے بجائے بلوائیوں کا ساتھ دیا یا بس خاموش تماشائی بنی رہی ۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی نے گجرات کے فسادات سے انتخابی فائدہ اٹھانے کی کامیاب کوشش کی مگر وزیر اعظم بن جانے کے بعد پونے میں فساد بھڑکا کر اس کے ذریعہ اپنے نظریاتی مخالفین کویلغار پریشد کے نام پر پابندِ سلاسل کردیا اور دہلی فساد کو آلۂ کار بناکر سی اے اے و این آر سی کے خلاف چلنے والی تحریک میں حصہ لینے والوں پر انتقامی کارروائی کی گئی۔ اسی سلسلے میں عمر خالد پر دہلی فسادات کی مجرمانہ سازش کا بے بنیادالزام لگا کر یو اے پی اے کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ انسانی تاریخ میں قتل و غارتگری کا اتنی ڈھٹائی سے سیاسی استعمال کسی نے نہیں کیا ہواگا؟ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی پر ظلم و سفاکی کے سارے ریکارڈ توڑنے کا جنون سوار ہے لیکن جبر کے خلاف لڑنے والے راحت اندوری کی زبان میں للکار رہے ہیں ؎
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

دہلی میں رونما ہونے والے فسادات کی حقیقت جاننے کے لیے دہلی اقلیتی کمیشن نے9؍ مارچ(2020 (کی نو رکنی کمیٹی نے 27؍ جون کو ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے دیباچے میں لکھا ہواتھا کہ ’دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں 23 فروری 2020 کو جو پرتشدد واقعات ہوئے اور کئی دنوں تک بلا روک ٹوک جاری رہے وہ بظاہر ایک فرقہ کو، جنھوں نے ایک امتیازی قانون (سی اے اے) کی مخالفت کی تھی، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سبق سکھانے کے لیے کیے گئے تھے۔‘ 134 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ متاثرین سے ملاقات اور بات چیت کے بعد تیار کی گئی تھی۔اس ’فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے چیئرمین ایم آر شمشاد صاحب نے الزام لگایا کہ پولیس نے نہ صرف متاثرین کی ایف آئی آر کو درج کرنے میں پس و پیش سے کام لیا بلکہ متاثرین کو فسادات کا ذمہ دارٹھہرا دیا۔ فسادیوں کو بچانے کے لیے ان خلاف کیس درج نہیں کیا گیا ۔

اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پولیس نے شہریت کے قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے نام چارج شیٹ میں ڈال کر انہیں فسادی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد میڈیا ان کے پیچھے پڑ گیا۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی سب سے اہم سفارش یہ تھی کہ ہائی کورٹ کے کسی ریٹائرڈ یا موجودہ جج کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی آزاد انکوائری کمیٹی کی جائے۔ اس میں سول سوسائٹی کے رکن اور ساتھ میں ایسے سبکدوش پولیس افسر کو بھی شامل کیا جس کا عہدہ ڈی آئی جی سے کم نہ ہو۔پولیس کے کردار کو سامنے لانے کے لیے یہ ضروری ہے نیز اشتعال انگیزی کرنے اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے بھی اس سے مدد ملے گی۔ موجودہ سرکار یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اپنے ہی کارکنان کو پابندِ سلاسل کرنے والی کسی کمیٹی کی تشکیل کرے گی اس لیے سرکار کی تائید کے بغیر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں سرکار کی قلعی کھول دی۔ اس اہم دستاویز کا نام:’’غیر یقینی انصاف: شمال مشرقی دہلی تشدد2020پر ایک شہریوں کی رپورٹ ہے‘‘۔

سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکر کی قیادت میں اس رپورٹ کو مدراس کے سابق چیف جسٹس، لاء کمیشن کے سابق چیئرمین اے پی شاہ، ہائی کورٹ کے سابق جج آر ایس۔ سوڈھی، پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج انجنا پرکاش اور حکومت ہند کے سابق ہوم سکریٹری جی کے۔پلئی نے تیار کیا ہے اس لیے اسے جانبدارانہ سازش کہہ کرکے مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس رپورٹ میں مرکزی سرکار کے ساتھ ریاستی حکومت کو بھی عوام کی جان، مال اور قانون کی حکمرانی کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برتنے کا مجرم پایا گیا ہے۔مذکورہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ فروری 2020 میں دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں فسادات ہوئے جس میں 53 افراد مارے گئے – ان میں 40 مسلمان اور 13 ہندو تھے جبکہ بہت سے لوگ زخمی ہوگئے تھے ۔ اس جائزے کا خلاصہ یہ ہے کہ تشدد کو دو سال بعد بھی احتساب کا مسئلہ باقی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے اس کے بلا احتساب کئی گرفتاریاں ہوئیں، جس میں یو اے پی اے کے تحت سی اے اے کی تحریک میں مصروفِ عمل کئی کارکنان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ان بے قصور لوگوں میں سے ایک عمر خالد ہے۔

171 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے میں سب سے پہلے دہلی پولیس کی ناکامی پر یہ سوال کیا گیا ہے کہ وہ "23 فروری تک انتہائی نفرت انگیز ماحول سے نمٹنے کے لیے کوئی احتیاطی یا تعزیری اقدامات کرنے میں کیوں ناکام رہی”؟یہ رپورٹ 2020 کے فسادات کا اپریل 2022 میں دہلی کے جہانگیر پوری کے اندرہونے والے فرقہ وارانہ تشدد سے موازنہ کرکے اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ دہلی پولیس نے دونوں معاملوں میں مختلف طریقے سے کام کیا۔ یہ فرق دراصل حکومت کے منشاء کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اپریل 2022 میں جہانگیر پوری (شمالی مغربی دہلی) میں فرقہ وارانہ تشدد کے فوراً بعد پولیس اور نیم فوجی دستوں کی سینکڑوں اضافی کمپنیاں یعنی 1500 پولیس والوں کوراتوں رات تعینات کیا گیا۔ اس لیے حکومت بلڈوزر کے ذریعہ انہدامی مہم چلانا چاہتی تھی۔ اس کے برعکس شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری 2020 کو ضروری تعیناتی نہیں کی گئی۔ یہ صورتحال بتاتی ہے کہ مرکزی حکومت نے اپنے وسائل اور صلاحیت کے مطابق تشدد کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔مرکزی حکومت کے وزارت داخلہ اور دہلی سرکار پر تنقیدرپورٹ میں کہا گیا کہ دارالحکومت دہلی ان دونوں کا مرکز ہے۔ راجدھانی کے ایک ضلع میں چار دن تک بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعا ت کا وقوع پذیر ہونا ان دونوں کے اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی ناکامی کا مظہر ہے۔دہلی پولیس کے ساتھ، نیم فوجی دستے بھی وزارت داخلہ کے تحت آتے ہیں۔ ان کی ناکافی تعیناتی کے لیے وزارت داخلہ ذمہ دارہے۔

دہلی کے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت بنیادی طور پر مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تمام تر وسائل سے لیس وزارت داخلہ نے شمال مشرقی تشدد کو روکنے کے لیے خاطر خواہ مداخلت نہیں کی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اس دوران احمد آباد کے اندر ٹرمپ کو نمستے کرنے میں مصروف تھے۔ مذکورہ رپورٹ کا دوسرا حصہ نفرت پھیلانے والے میڈیا کو بے نقاب کرتاہے۔یہ رپورٹ انکشاف کرتی ہے کہ بعض نیوز چینلز نے نفرت کی خبریں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ناظرین کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک نفرت انگیز خبریں پہنچاتے رہے ۔ رپورٹ میں نام لے کر ریپبلک اور ٹائمز ناؤ (انگریزی)، آج تک، زی نیوز، انڈیا ٹی وی، ریپبلک بھارت (ہندی) کی جانب انگشت نمائی کی گئی ہے۔ یہ گودی میڈیا کس کے اشارے پر کام کرتا ہے یہ جگ ظاہر ہے۔انہوں نے حکومت کے خلاف چلنے والی سی اے اے تحریک کو ہندو بمقابلہ مسلم کے نقطہ نظر سے پیش کیا۔ان کی رپورٹس مسلم سماج کے خلاف تعصب اور شکوک و شبہات سے بھری ہوئی تھیں۔ سی اے اے مخالف مظاہروں کو بدنام کرنے کی خاطر ان چینلز نے بے بنیاد سازش کے الزامات لگائے گئے اور تحریک کو زبردستی بند کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا ۔

رپورٹ کے تیسر ے حصے میں اس فساد کے لیے سیاستدانوں اور الیکشن کمیشن کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ بی جے پی نے 2020 کے دہلی انتخابات کے لیے سی اے اے مخالف مظاہروں کو ملک دشمن اور پرتشدد بناکر تفرقہ انگیز کہانیاں پھیلائیں ۔انتخابی مہم کے دوران کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر سمیت دیگر امیدواروں نے بھی مظاہرین کو "ملک دشمن” قرار دیا اور نام نہاد "غداروں” کے خلاف بار بار "گولی مارو” جیسے نعرے لگائے لیکن اس پر کسی نے سرزنش نہیں کی۔ان سنگین معاملات میں ای سی کی کارروائی کافی نہیں تھی۔ کمیشن نے ان سیاسی رہنماؤں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے لیے ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت تو کی مگر چونکہ مجرمانہ کارروائی شروع کرنے میں ناکام رہا، اس لیے انتخابی مہم میں نفرت انگیز تقریر کا استعمال مزید بڑھ گیا۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ کو آڑوں ہاتھ لیتے ہوئے رپورٹ انہیں ’مکمل طور پر غیر موثر‘ پایا۔ کمیٹی نے دہلی حکومت پر بھی تنقید کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ، " انتباہ کے باوجود دونوں برادریوں کے درمیان مفاہمت کے قیمتی دورانیہ میں انہوں نے کوئی ٹھوس پہل نہیں کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کیجریوال کے اعصاب پر اس وقت اپنے ہندو ووٹرس کی ناراضگی کا خوف سوار تھا اور وہی ان کے پیروں کی زنجیر بن گیا۔ رپورٹ میں سیول سوسائٹی کی ناکامی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس دستاویز نے وزیر داخلہ امیت شاہ کے دامن پر وہی داغ لگایا ہے جو وزیر اعلیٰ مودی کی پیشانی پر گجرات کے فساد سے لگا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ اس کلنک کو کبھی بھی مٹا نہیں سکیں گے ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2073 Articles with 1268968 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.