اختتامی کلمات میں جمن نے تربیت کی اہمیت دوہراتے ہوئے
موبائل فون کی مثال دی تو للن اور کلن چونک پڑے ۔ للن نے کہا یہ کیا؟
کلن بولا یار یہ تو ہائی فائی اجتماع لگتا ہے ۔
للن نے پوچھا ہائی فائی یا وائی فائی اور دونوں ہنسنے لگے ۔
جمن کہہ رہے تھے جس طرح ہر اچھے برے موبائل فون کو چارجنگ کی ضرورت پڑتی ہے
اسی طرح ہم سب یکساں طور پر تربیت کے محتاج ہیں ۔
کلن نے للن سے کہا یار اب سمجھ میں آیا کہ ہم لوگ اتنی پریشانی اٹھا کر اس
اجتماع میں کیوں آئے ؟
للن نے سوال کیا جمن چچا یہ بتائیں کہ کیا چارجنگ کا فی ہے؟
جمن بولے جی نہیں نیٹ ورک بھی تو ضروری اس کے بغیر آئی فون ہو یا یو فون
کوئی نہیں چلتا ۔
کلن نے حیر ت سے پوچھا آئی فون تو سنا ہے لیکن یہ یو فون کیسا ہوتا ہے؟
جمن بولے بھائی نام کا فرق ہے سب فون تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسے ہی
ہوتے ہیں ۔
للن نے کہا جی ہاں لیکن جس طرح فون فون میں فرق ہے اسی طرح نیٹ ورک بھی ایک
فرق ہوتا ہے ۔
کلن نے سوال کیا نیٹ ورک میں فرق والی بات سمجھ میں نہیں آئی ؟
جمن بولے اس میں کیا مشکل ہے ؟ بھائی کہیں ووڈا فون کا سگنل تگڑا ہوتا ہے
کہیں ائیر ٹیل کا لیکن جس کا بھی سگنل ہو کام ایک جیسا کرتا ہے۔
للن بولا جی ہاں اصل کام تو سافٹ ویئر اور ہارڈ وئیر کرتے ہیں ۔
کلن نے پوچھا لیکن ان دونوں کا کیا رشتہ ہے؟ جمن چچا آپ کو یہ بھی سمجھانا
پڑے گا ۔
جمن نے کہا ان کے درمیان وہی رشتہ ہے جو انسان اور قرآن میں ہے ۔
للن کو اس جواب کی توقع نہیں تھی ۔ اس نے پوچھا آپ موبائل کی دنیا سے نکل
کر کہیں اور نکل گئے ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔
جمن بولے دیکھو اس رشتے کو سمجھنے کے لیے اس سے اچھی مثال نہیں ہے ۔
کلن نے سوال کیا ۔وہ کیسے؟
بھائی تم نہیں جانتے کہ قرآن مجید کا مرکزی موضوع قرآن ہے ؟
للن بولا جی ہاں اس اجتماع میں کئی بار یہ بات بتائی گئی کہ قرآن حکیم کو
انسانی ہدایت کے لیے اتارا گیا ۔
جمن نے کہا وہی تو انسان ہارڈ ویئر ہے اور قرآن سافٹ ویئر ہے۔
کلن بولا ہاں یار للن موبائل تو نظر آتا ہے۔ ہم اسے چھو سکتے ہیں لیکن اس
کے اندر سافٹ ویئر دکھائی نہیں دیتا لیکن کام خوب کرتا ہے۔
للن بولا جی ہاں اور دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں ۔
جمن نے کہا لیکن ہارڈ ویئر کے اندر مناسب فیچرس نہ ہوں تو سافٹ ویئر اس میں
چل نہیں پاتا۔
یہی تو کل تذکیر میں بتایا گیا ۔ اگر انسان اپنے اندر تقویٰ اور طلب کی صفت
پیدا نہ کرے تو وہ قرآن کی ہدایت سے استفادہ نہیں کرسکتا۔
للن نے کہا یار یہ موبائل کی مثال نے تو میری سمجھ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ۔
کلن نے پوچھا کیوں؟ یہ تو بڑی سادہ سی بات ہے کہ جس طرح چارجنگ کے بغیر فون
بند ہوجاتا ہے اسی طرح تربیت کے بغیرکوئی کام نہیں کرسکتا ۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں یہ سمجھتا تھا تربیت کی زیادہ ضرورت ان لوگوں کو
ہوتی ہے جو کام نہیں کرتے۔ سرگرمِ عمل لوگوں کو اس کی حاجت نہین ہوتی ۔
اس میں کیا شک ہے ۔ اسی لیے تو جمن چچا ہمیں پکڑ کر یہاں لائے ہیں تاکہ ہم
بھی واپس جاکر ان کی مانند خوب کام کرنے والے بن جائیں ۔
لیکن جب ہم موبائل کا استعمال زیادہ کرتے ہیں تو اس کو چارجنگ کی ضرورت
زیادہ پڑتی ہے اور کم استعمال ہونے والا موبائل جلدی چارج ہوجاتا ہے۔
کلن نے کہا ہاں اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ جب ہم کام کرنے لگیں گے تو ہماری
تربیتی ضرورتیں بڑھ جائیں گی ۔
للن بولا جی ہاں لیکن اس مثال میں ایک اور عجیب نکتہ پوشیدہ ہے۔
کلن نے کہا یار ان چار دنوں میں تو تم خوب نکتہ داں ہوگئے ہو ۔ بڑے دور دور
کی کوڑی لے کر آتے ہو۔ عقب میں بیٹھے جمن چچایہ سن کر خوش ہوگئے ۔
للن بولا میں سمجھتا تھا کہ تربیت کی ضرورت ہم جیسے نوجوانوں کو زیادہ ہے
لیکن سچ یہ ہے کہ میرے پرانے موبائل کو نئے سے زیادہ چارج کرنا پڑتا ہے۔
جمن بیچ میں بول پڑے ۔ دیکھو للن ویسے تو تربیت کی ضرورت اور نئے اور پرانے
دونوں کو یکساں ہے لیکن پرانے لوگوں کی حاجت دوچھٹانک زیادہ ہے۔
کلن نے پوچھا وہ کیوں ؟ بات سمجھ میں نہیں آئی ۔
جمن بولے اس لیے کہ پرانے لوگوں کی دوہری ذمہ داری ہے۔ ایک تو اپنا کام
بحسن و خوبی کرنا اور اس کے ساتھ دوسروں کی تربیت بھی کرنا۔
کلن بولا مجھے یہاں مربیّ حضرات کا شب و روز ساتھ ہمارےرہنا بہت اچھا لگا
ورنہ وہ لوگ نہ جانے کہاں سے نمودار ہوتےاور کس خلامیں غائب ہوجاتے
للن نے تائید کی جی ہاں ، اس خشک اور بے جان ماحول پر تو علامہ اقبال کا یہ
شعر صادق آتا تھا کہ ؎
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک نہ زندگی، نہ محبّت، نہ معرفت، نہ
نگاہ!
للن نے کہا تمہاری بات درست ہے لیکن ہمارے ساتھ رہنے کے سبب ان بزرگوں کوجو
زحمت ہوئی ہوگی اس کا تمہیں اندازہ نہیں ہے شاید؟
جمن چچابولے کس زحمت کی بات کررہے ہو میاں ۔ اگلی نسل کے ساتھ رہنا زحمت
نہیں سعادت ہے اس سے ہمیں نئے آئیڈیاز اور حوصلہ بھی ملتاہے
لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ للن نے سوال کیا ۔ آپ لوگ ہمارے درمیان سے
جاکر تقریر کریں یا کہیں سے آکر درس دیں ؟
کلن نے کہا فرق کیوں نہیں پڑتا پہلے بتایا جاتا تھاکہ اچھے اخلاق کیسے ہوتے
ہیں اور ہمیں تصور کرنا پڑتا تھا ۔ اب ہم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیاہے۔
للن نے کہا جی ہاں پہلے نہ ہمیں خدمت کا موقع ملتا اور نہ شفقت کی دولت
ہاتھ آتی لیکن یہاں تو خدمت وشفقت اور محبت ومعرفت کا دریا رواں تھا۔
کلن بولا سچ پوچھو تو اِس تربیت گاہ میں ہم نے سیب کی تصویر کو دیکھ کر اس
کے اوصاف کو نہیں جانا بلکہ اسے دیکھ اور چکھ کر اس کو پہچانا ہے۔ الحمدللہ
۔
|