رشی سونک : دیوالی کا بہترین تحفہ

دیوالی کے موقع پر’’ ڈبل دھماکہ‘‘ کا اعلان کس نے نہیں دیکھا ہوگا۔ پہلے تو ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں ہندوستان کو پاکستان پر فتح ملی ۔ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر پاکستان کو ہرانا ہندوستانی شائقین کے لیے گولڈ میڈل جیتنے سے زیادہ اہم ہے۔ پاکستان کے نہایت کم اسکور پر ڈھیر ہوجانے سےجس یکطرفہ جیت کی توقع کی جارہی تھی اگروہ آسانی سے مل جاتی تو اتنا مزہ نہیں آتا جتنا آخری اوور میں دو نوبال کے بعد ملنے والی فتح نے دیا۔ یہ اس دیوالی کا سنگل بڑا دھماکہ تھا ۔ اس کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم کا استعفیٰ آیا تو ہند نژاد رشی سونک کے قسمت کھلنے امید پیدا ہوگئی ا ور دیوالی کے موقع پر ان کے خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔ اس طرح ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے دل کھول کر مبارکباد دی ۔ ملک کے بڑے اخبارات نے اپنے اپنے انداز میں اپنی مسرت کا اظہار کیا ۔

ٹائمز آف انڈیا نے اس موقع پر سرخی لگائی ، ’برطانیہ دیوالی پر رشی راج لایا‘۔نوبھارت ٹائمز نے بھی لکھا ’برطانیہ میں رشی راج‘۔ تاہم کلکتہ کے ٹیلی گراف نے ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاہ سرخی لگائی کہ ’سابق ہندوستانی کمپنی برطانیہ کو چلائے گا‘۔سونک کی تاجپوشی پر ششی تھرور کا یہ ٹویٹ بڑی بحث کا موضوع بنا کہ ’میرے خیال میں ہم سب کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انگریزوں نے دنیا میں ایک بہت ہی نایاب کام کیا ہے، ایک ظاہری طور پر اقلیتی رکن کو سب سے زیادہ طاقتور عہدہ سونپا ہے۔ ہندوستانی نژاد رشی سونک کے عروج کا جشن مناتے ہوئے آئیے ایمانداری سے سوال کریں: کیا یہ یہاں (ہندوستان میں) ہو سکتا ہے؟‘ تھرور کے ٹویٹ کا طنز کے جواب میں لوگ باگ سابق مسلم صدور اور سکھ وزیر اعظم کا حوالہ دینے لگے لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی مسلمان اقلیت آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہیں اور آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی کبھی کوئی مسلم وزیر اعظم نہیں بن سکا۔

ملک میں فی الحال ایوان پارلیمان کے اندر مسلم نمائندگی تاریخی سطح پر کم ترین ہے اور پہلی بار مرکزی حکومت کی کابینہ مسلمان سے خالی ہے۔پنیاب نامی صارف نے اس تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہندو برطانیہ کی آبادی کا صرف 1.5 فیصد ہیں۔ اور مسیحی اکثریتی ملک میں ایک ہندو وزیر اعظم ہے۔ مسلمان انڈیا کی آبادی کا 15 فیصد ہیں، مسلم وزیر اعظم تو چھوڑیں، انھیں 543 سیٹوں میں سے صرف 27 (5 فیصد) لوک سبھا (پارلیمانی) سیٹیں ملیں‘۔ اس موقع پر سب سے اچھا پیغام سینیئر صحافی مرنال پانڈے نے لکھا۔ انہوں نے لندن کے مئیر صادق خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ’ایک مسیحی بادشاہ، ایک مسلمان میئر اور ایک ہندو وزیر اعظم کے ساتھ لندن ’امر اکبر انتھونی‘ کے ریمیک کے لیے تیار ہے‘۔وطن عزیز کے مسلمانوں کا اس خبر پر خوش ہونا توقابلِ فہم ہے کیونکہ وہ پورے عالمِ انسانیت کو ایک خدا کا کنبہ مانتے ہیں ۔ ان کے دین میں کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں ہے۔ وہ سفید فام نسل کو اعلیٰ اور دیگر قوموں کو حقیر نہیں مانتے ۔ اس لیے ان کو دوہری خوشی حاصل ہوئی ہے۔ ایک تو ان کا ہم وطن ایک بڑے ملک کا سربراہِ مملکت بن گیا دوسرے نسلی تفاخر کا بت ٹوٹ گیا ۔

رشی سونک کی ترقی پر وہ لوگ زیادہ خوش ہورہے ہیں جن کے نظریہ ٔ حیات کی بنیاد ہی ذات پات کے تفاوت پر ٹکی ہوئی ہے۔ ملک میں اٹھارہ سال قبل جب کانگریس پارٹی کو سونیا گاندھی کی قیادت میں کامیابی ملی اور ان کے وزیر اعظم بننے کے امکانات پیدا ہوگئے تو ان لوگوں نے ہنگامہ برپا کردیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کو اچانک ان کا اطالوی ہونا یاد آگیا حالانکہ ایک ہندوستانی وزیر اعظم کے ساتھ شادی کرنے کے بعد وہ کئی سال پہلے اس ملک کی شہریت اختیار کر چکی تھیں ۔ اوما بھارتی نے تو اس پر خود سوزی تک کی دھمکی دے ڈالی تھی اور مجبوراً انہیں ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزیر اعظم بنانے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رویہ پر شرمندہ ہوں اور معافی مانگیں۔ وہ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو انہیں رشی سونک کے وزیر اعظم بننے پر خوشی منانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس دنیا میں ایسے دوہرے معیار کو پاکھنڈ یا منافقت کہا جاتا ہے۔

چند ماہ قبل سابق وزیر خزانہ رشی سونک نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ استعفیٰ دے کر ایک ایسا سیاسی بحران برپا کہ بورس جانسن کو گدیّ چھوڑنی پڑی۔ اس کے بعد وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں لِز ٹرس کے مقابلہ رشی سونک کو ناکامی ہوئی مگر وہ کامیابی دیر پا نہیں ہوسکی۔ وہ محض 45 دن کے اندر استعفیٰ دے کر برطانیہ کی تاریخ میں مختصر ترین مدت کی وزیر اعظم بن گئیں ۔ ان کے بعد سابق وزیر اعظم جارج کینِنگ آتے ہیں جو 119 دن تک وزیراعظم رہنے کے بعد سنہ 1827 میں وفات پاگئے تھے۔ لز ٹرس اگر انتخاب ہار جاتیں یا اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہتیں تب بھی ان کا استعفیٰ چل جاتا مگر اس طرح اچانک چلے جانا حیرت انگیز تھا۔ اُن کے بھائی نے بی بی سی سے کہا تھا کہ لز ٹرس جب چھوٹی تھیں تو انہیں ہارنے سے نفرت تھی اور اگر اُنہیں لگتا کہ وہ ہار جائیں گی تو وہ کھیل چھوڑ کر چلی جاتی تھیں۔ اسی مزاج کا مظاہرہ انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑتے ہوئے بھی کیا ۔
سابق وزیر اعظم برطانیہ لِز ٹرس کا وعدہ پورا نہیں کر نے کے سبب مستعفیٰ ہوجانا یہ ایماندارانہ سیاست کی ایک مثال ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ملک کے حکمراں بڑے بڑے سبز باغ دکھا کر انتخاب جیت کر انہیں بھول جاتے ہیں۔وعدہ خلافی کے باوجود انہیں کرسی چھوڑنے کا خیال تک نہیں آتا۔ اچھے دنوں کا وعدہ یکسر بھلا دیا گیا۔ دوکروڈ نوکریاں فی سال ملازمت دینے کی بات کرنے کے بعد بیروزگاری کو چالیس سال کی سب سے خراب حالت پر پہنچا دیاگیا مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ بڑے طمطراق سے یہ اعلان کیا گیا کہ اگر نوٹ بندی ناکام ہوجائے تو جس چوراہے پر چاہو پھانسی چڑھا دینا لیکن زبردست ناکامی کے باوجود اسے بھلا دیا گیا۔ اس کے باوجود نہ کسی نے جھولا اٹھایا اور نہ کوئی چل دیا۔ اس شرمناک صورتحال میں لز ٹرس کا یہ کہہ کر اپنا عہدہ چھوڑ دینا کہ جس کام کے لیے پارٹی نے انہیں منتخب کیا تھا اس کو پورا کرنے کی ناکامی کے سبب وہ استعفیٰ دے رہی ہیں ہمارے سیاستدانوں کو آئینہ دکھاتا ہے۔

برطانیہ میں حالیہ سیاسی بحران کے بعد سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے پھر تقدیر آزمانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ان کے دوڑ سے باہر ہوتے ہی رشی سونک وزارت عظمیٰ کے لیے پسندیدہ ترین امیدوار بن گئے۔ ان کے سامنے دوسری امیدوار پینی مورڈنٹ تھیں لیکن وہ بھی بہت جلد مقابلے سے دستبردار ہو گئیں۔حکمران جماعت میں 1991 کمیٹی کے چیئرمین سر گراہم بریڈی نے بلآخر یہ خوشخبری سنائی کہ مقابلے میں شریک دونوں امیدواروں میں سے رشی سونک پارٹی کے 155؍ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ صرف 25؍ ارکان پینی مورڈنٹ کے ساتھ تھے۔ اس اعلان کے بعد رشی سونک نے کہا کہ وہ پوری ’دیانت داری اور عاجزی‘ سے ملک کی خدمت کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’برطانوی عوام کی خدمت کے لیے دن رات ایک کر دیں گے۔‘ اس طرح برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس پہلی بار ایک غیر انگریز وزیر اعظم کا حلف دیا۔

اس نئی صورتحال میں برطانیہ کے دانشوروں کو سوچنا چاہیے کہ جن نظریات کی بنیاد پر وہ پوری دنیا پر حکومت کررہے تھے آخر اس نے ان کے ملک کو اس مصیبت میں کیوں گرفتار کردیا کہ نومنتخب وزیر اعظم کو کہنا پڑتا ہے کہ برطانیہ ایک عظیم ملک ہے، لیکن اسے ’شدید نوعیت کے‘ معاشی مسائل کا سامنا ہے۔برسرِ اقتدار پارٹی کے سینئر رہنما سر گراہم بیلی کی جانب سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ آنے والے دن مشکل ہوں گے اور ملک کو درپیش مسائل کا حل آسان نہیں ہوگا۔ کنزرویٹو پارٹی کے اکثر ارکان نجی سطح پر یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال ان کی پارٹی کی ساکھ کو گہرا نقصان پہنچانے والی مضحکہ خیز سرکس کے مترادف ہے۔فی الحال بی جے پی کی مانند کامیاب ہونے والی برسرِ اقتدار جماعت بری طرح منقسم ہے۔ برطانیہ میں برپا موجودہ خلفشار کی بابت سابق وزیر اعظم جاتے جاتے کہتی ہیں کہ ان کی حکومت نے توانائی (بجلی، گیس) کے بِلوں میں کمی کی اور نیشنل انشورنس میں بھی رعایت دی اور 'کم ٹیکس اور زیادہ ترقی' کی سوچ کو فروغ دینے والا مِنی بجٹ پیش کیا تو برطانیہ کے بازار حصص اور معیشت میں کھلبلی مچ گئی۔

فی الحال کنزرویٹِو پارٹی میں بے چینی اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ پارلیمانی پارٹی میں غم و غصے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ان کے جماعت کے لیے لِز ٹرس کا دفاع مشکل تر ہو گیا ہے ۔ رشی سونک پر نئے انتخاب کروانے کا شدید دباو ہے ۔ حزب اختلاف لیبر پارٹی کے مطابق بڑھتی ہوئی قیمتیں اورسنگین عوامی مالی صورت حال میں حکومت کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے ۔ رشی سونک بجٹ کی میٹنگ تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی ہے۔ یہ دراصل سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی بدترین ناکامی ہے۔ اس لیے محض لیپا پوتی سے کام نہیں چلے گا ۔ اب وقت آگیا ہے اس کے متبادل اسلامی سیاسی نظام کو موقع دیا جائے ۔ ویسے علامہ اقبال نے اس صورتحال کی پیشنگوئی پہلے ہی کردی تھی ؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448360 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.