وطن عزیز میں گذشتہ مہینوں سے قومی سلامتی کے اداروں
کیخلاف مذموم مہم جاری ہے اور اس کا سہرا پی ٹی آئی چیئرمین سابق وزیر اعظم
عمران خان کے سر پے ہے جنہوں نے کرسی اور اقتدار کے حصول کے چکر میں ملکی
سا لمیت کو ہی داؤو پر لگا دیا ہے اور ملک میں ایک مخصوص بیانیہ پروان
چڑھایا جا رہا ہے جس میں عساکر پاکستان کی مسلسل ٹرولنگ کی جارہی ہے ۔ جب
انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخل کیا گیا تو دن رات امریکی
سازش کا واویلاا مچایا گیا ۔ آرمی چیف جیسے ایک بڑے اور اہم عہدے کی توہین
کی گئی ۔ اپنے جلسوں میں نوجوانوں کو اپنی ہی فوج کے خلاف بڑکایا جاتا رہا
اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کی گئی کہ ہم جہاد کر رہے ہیں اور حقیقی آزادی
کے لئے لڑ رہے ہیں ۔عمران خان سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ تین صوبوں میں آپ
کی حکومت پھر آخر آزادی کس سے اور کیسی آزادی چاہتے ہیں؟ کہ جس کیلئے آپ نے
پورے ملک کو ہی آگ میں دھکیل دیا ہے ۔ ہر جانب ایک فتنہ و فساد برپا ہے ۔
یہ سڑکوں کو مظلوم جوجوانوں کے خون سے نہلانے کا منصوبہ ہے اور ملکی یک
جہتی کیلئے زہر قاتل ہے ۔کہ ہمارے سرحدوں کے نگہبانوں جانبازوں کی شہادت کا
تمسخر اڑا کر ہمارے ازلی دشمن کا کام آسان کر دیا ہے ۔ توشہ خانہ کیس میں
نا اہلی ، آرمی چیف کی تقرری کو بھی اپنے سیاسی مفادات کی خاطر متنازعہ بنا
دیا گیا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی کو منظر عام پر آکر
اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے پریس کانفرنس کرنا پڑی ۔ جو ایک المیہ سے کم نہیں
کہ انہیں خود آکر وضاحت کرنا پڑی جو خوش آئند نہیں ہے ۔ اس میں کوئی دو
رائے نہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال پر
کھل کر بات کی اور ملک دشمن عناصر کی قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھیلا
جانے والے گھناؤنے کھیل کوو بے نقاب کر دیا ۔بے شک اس پریس کانفرنس سے
عمران خان کا سازشی بیانیہ زمین بوس ہو گیا ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم
کی اہم پریس کانفرنس میں تہلکہ خیز انکشافات نے لانگ مارچ سے قبل تحریک
انصاف کے غبارے سے ہوا نکال دی ، کئی سیاسی اکابرین ، راہنما، صحافی اور
مشیروں کی کانپیں ٹانگنے لگیں ہیں کیا فتنوں کو جڑ سے ختم کرنے اور ان کے
بیانیہ کو قلع قمع کرنے کا وقت آن پہنچا ہے؟؟؟۔ جبکہ دوسری جانب خاموشی کا
دورانیہ طویل ہوتا جا رہا ہے۔ PTI کے کسی اسپوک پرسن نے اب تک اس اہم پریس
کانفرس کی جزئیات کے جواب میں زبان نہیں کھولی۔۔۔ عوام منتظر ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے
ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ آپ لوگ مجھے اپنے
درمیان دیکھ کر حیران ہیں، میری ذاتی پالیسی ایک سال سے واضح ہے اور میرے
کام کی نوعیت ایسی ہے جس کیلئے میں پس منظر ہی ہوتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ
الزامات اس لئے ہیں کہ آرمی چیف ، ادارے نے غیر آئینی کام سے انکار کیا،
میرے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو میں خاموش نہیں رہ سکتا، اتنی
روانی سے جھوٹ بولاجائے کہ فتنہ فساد کا خطرہ ہوتو چپ رہنا ٹھیک نہیں، میرے
سینے میں بہت سی امانتیں ہیں جوسینے میں ہی رکھ کر قبر میں چلا جاؤں۔انہوں
نے کہا کہ اپ کسی کومیرجعفرمیرصادق کہیں اورکوئی شواہد نہ ہوں، یہ بالکل
100 فیصد جھوٹ پر بنایا گیا نظریہ ہے، میر جعفر، میر صادق، غدار، نیوٹرل
اور جانور کہا گیا۔ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ مارچ میں آرمی چیف کو
غیرمعینہ کیلئے مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی گئی لیکن آرمی چیف جنرل
باجوہ نے غیرمعینہ مدت کیلئے پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ
سال Establishmentنے فیصلہ کیاکہ ہم نے خود کوآئینی حدود میں رکھنا ہے، ہم
اس نتیجے میں پہنچنے کہ ملک اورادارے کامفاداسی میں ہے کہ سیاست سے باہرنکل
جائیں ، گذشتہ سال اوراس سال مارچ میں ہم پر بہت پریشرآیا۔ڈی جی آئی ایس
آئی نے سوال کیا آپ کاسپہ سالارغدار ہے تو ماضی قریب میں تعریفوں کے پل
کیوں باندھتے تھے؟ آپ اپنے سپہ سالارکوآفرکرتے ہیں آپ ساری زندگی اپنے عہدے
پر فائزرہیں۔ان کا کہنا تھا کہ رات کی خاموشی میں ہمیں بند کمروں میں ملیں
،آئینی غیر خواہشات کا اظہارکریں، رات کی روشنی میں آپ ملیں مگریہ نہیں
ہوسکتا دن کی روشنی میں غدار کہیں۔لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ہر
شہری کا آئینی حق ہے کہ آزادی سے اظہاررائے کرے، ہمارا محاسبہ کریں کہ مگر
پیمانہ یہ رکھیں کہ میں نے ملک و قوم کیلئے کیا کیا، یہ پیمانہ نہیں ہونا
چاہئے کہ میں نے آپ اور آپ کی ذات کیلئے کیا کیا ہے۔ڈی جی آئی ایس آئی نے
کہا کہ پاکستان کو بیرونی خطرات اور عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے، پاکستان کا
دفاع اس لئے مضبوط ہے جس کی ذمہ داری 22کروڑ عوام نے خودلی ہے، پاکستان کو
جس چیز سے خطرہ ہے اور وہ عدم استحکام سے ہے۔جو معاشرے اور ملک کی بنیادیں
کھوکھلی کررہا ہے، جب میں ڈی جی آئی ایس آئی بنا تو پوچھا گیا پاکستان کا
سب سے اہم مسئلہ کیاہے، میں نے جواب دیا کہ ملک کا اہم مسئلہ عدم استحکام
ہے۔ملاقاتوں کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ صدرپاکستان کی
ملاقاتیں ہوئیں اس میں کوئی ممانعت نہیں ، ان ملاقاتوں کی نیت ملک میں
استحکام لانا تھا مگر وہ کامیاب نہ ہوئیں، بلاضرورت سچ شرہے۔ڈی جی آئی ایس
آئی کا کہنا تھا میں اکثر دیکھتا تھا کہ ایک سائیڈ پر جھوٹ کو اتنی آسانی
ہے، ہمارے نوجوان جھوٹ کو قبول کرتے جارہے ہیں، جب دیکھا ادارے اور ملک میں
فتنہ فساد پھیلنے کا خطرہ ہے تو خاموشی توڑی۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے
کہا کہ ہمیں کسی کے لانگ مارچ، دھرنے اور احتجاج سے کوئی اختلاف نہیں،
حکومت نے اختیار دیا سلامتی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کردار ادا کیا
جائے اور سیاسی و عدم استحکام لانے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے اوراگر فوج
کو حالات قابو کرنے کی ضرورت پڑی تو ضرورکرے گی ، حالات قابو کرنے کیلئے
حکومت کو ضرور پڑی تو فوج ضرور مدد کرے گی۔بدقسمتی سے پی ٹی آئی چیئرمین
عمران خان نے ریاستی اداروں کو رگیدنے کا کلچر پروان چڑھایا اور ملک کے اہم
ترین ریاستی ادارے کا تشخص خراب کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں جس کیلئے
بطور خاص سوشل میڈیا کو استعمال کیا جارہا ہے۔بلاشبہ عمران خان نے ملک کو
درپیش موجودہ چیلنجوں کو درخوراعتناء نہ سمجھتے ہوئے انتشار پھیلانے والی
سیاست کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور لانگ مارچ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے
جس کا ہدف حکومت سے زیادہ عسکری قیادتیں ہیں۔ جمہوریت کی بقاء و استحکام کا
درومدار معاملہ فہمی کے تحت مذاکرات کے راستے پر ہے وگرنہ ماضی کے تلخ
نتائج آج بھی نوشتہ دیوار نظر آرہے ہیں۔ چونکہ ملک کی مسلح افواج اپنے وطن
اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے تندہی کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ
داریاں ادا کررہی ہیں اور انہوں نے ملک کے تحفظ کیلئے اپنی جانیں نچھاور
کرنے سے بھی کبھی دریغ نہیں کیا اور ملک کے اندر دشمن کی پھیلائی دہشت گردی
کے سدباب کیلئے بھی وہ جان توڑ کوششیں بروئے کار لا رہی ہیں اس لئے پاکستان
کی سلامتی کمزور کرنے کے درپے اندرونی و بیرونی عناصر افواج پاکستان کو
اپنے ہدف پر رکھتے ہیں تاکہ انکے حوصلے توڑ کر انکی توجہ دفاع وطن کی ذمہ
داریوں سے ہٹائی جا سکے۔ ملک کے اندر موجود جو عناصر افواج پاکستان کو سوشل
میڈیا یا دوسرے ذرائع اور پلیٹ فارموں پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ وہ
دانستہ یا نادانستہ ملک کی سلامتی کمزور کرنے کے دشمن کے ایجنڈے پر ہی عمل
پیرا ہیں۔
|