ارشد شریف قتل کے حوالے سے اہم سوالات اٹھا دیئے
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹنینٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی ندیم
انجم نے ملکی دفاع، اندرونی و بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونے اور عدم
استحکام کی ہر سازش کوناکام بنانے کے لئے افواج پاکستان کے آئینی کردارادا
کرنے کے عزم کو دوہرایا ہے اور واضح کیا ہے کہ افواج پاکستان نے بطور ادارہ
سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی ہے فوج کے سپہ سالار کو ان کے آئینی
کردار پر منفی پراپیگنڈے کا سامنا ہے ایک غیرمعمولی پریس کانفرنس میں ڈئی
جی آئی ایس پی آر جب ٹی وی سکرینز پر نمودار ہوئے تو ا نکے ساتھ خلاف معمول
ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی موجود تھے جنہیں دیکھ کرپریس کانفرنس میں
موجود سبھی صحافی ہی نہیں بلکہ گھروں میں بیٹھے ناظرین بھی حیران رہ گئے
جنہیں یہ منظر اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا ، ملک کی موجودہ
صورتحال پر ابتدائیہ میں گفتگو کرتے ہوئے لیفٹینننٹ جنرل بابر افتخار کا
کہنا تھا کہ ملک میں سینئر صحافی ارشد شریف کی شہادت کے بعد قیاس آرائیوں
اور الزام تراشیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے اور اداروں کے بارے میں منظم
پراپیگنڈا کیا جارہا ہے ، اس ندوہناک واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے
انکا کہنا تھا کہ ارشد شریف انکے ساتھ رابطے میں رہتے تھے انہوں نے کبھی
پاکستان میں اپنے لئے خطرے کا ذکر نہیں کیا انہوں نے پاک فوج کے شہداء اور
ادارے کے بارے میں بہت سے پروگرام کئے جو ہمارے اوپر انکا قرض ہے انکے قتل
پرپراپیگنڈہ مہم میں اداروں کو ایک بار پھر نشانہ بنایا جا رہا ہے انہیں
ملک سے باہر بھجوانا اور پاکستان واپس نہ آنے دینا اور کینیا بھجوانے میں
کس کا کردار تھا، انکا پاکستان میں کس سے رابطہ تھا وقار احمد اور خرم کون
تھے ، کینیا کی پولیس ارشد شریف کی شناخت سے ناواقف تھی انکے قتل کی سب سے
پہلے خبر کس نے اور کس کو دی ، افسوسناک واقعہ کی غیرجانبدار شفاف تحقیقات
ضروری ہیں ، یو این نمائندوں کی ضرورت بھی ہو تو انہیں بھی شامل کیا جائے
اس حوالے سے سلمان اقبال کا بار بار ذکر آتا ہے انہیں پاکستان لا کرشامل
تفتیش کیا جانا چاہئے، انکوائری مکمل ہونے تک کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی
قیاس آرائی کی جائے نہ ہی حتمی رائے قائم کی جائے ، انہوں نے پاکستان میں
رجیم چینج کے حوالے سے چلائی جانے والی منظم ڈس انفارمیشن مہم کو افسوسناک
اور ملکی مفاد کے منافی قراردیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید
باجوہ نے 7مارچ کو کامرہ میں عمران خان سے خود سائفر ذکر کیا جس پر انہوں
نے کہا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں سفیروں کے سائفر آتے رہتے ہیں لیکن اسکے
بعد 27مارچ کو سب اس وقت حیران رہ گئے جب سابق وزیر اعظم نے ڈرامائی انداز
میں جلسے کاغذ لہرا کر ایک ایسا بیانیہ دیا جسکا حقیقت سے دور دور تک کوئی
تعلق نہیں تھا لیکن عمران خان نے عدم اعتما دکی تحریک کے بعد اپنے سیاسی
مقاصد کے لئے پاکستانی سفیر کی ایک رائے کو اپنے حق میں استعمال کیا
بعدازاں اس حوالے سے 31مارچ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں صاف صاف بتا دیا
گیا کہ یہ سفیر کی ذا تی رائے ہے اور رجیم چینج کی کسی سازش کے شواہد نہیں
ملے اس حوالے سے سفیر کی جانب سے جو سفارش کی گئی اسکے مطابق اسکا جواب بھی
دے دیا گیا اور آئی ایس آئی کی فائنڈنگ کو پبلک کرنے کا فیصلہ حکومت پر
چھوڑ دیا گیا تھا لیکن اسکے بعد بھی مسلسل پراپیگنڈا کیا جاتا رہا اور دنیا
کے مختلف ممالک میں امریکہ کے رجیم چینج آپریشنز کو یہاں رجیم چینج آپریشن
سے لنک کیا گیا بہت سے صحافیوں کو مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا ، سپاہ میں
نفرت کے بیج بونے ، اداروں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی،
سابق وزیر اعظم کو غیرقانونی کام کرنے سے روکنے پر نیوٹرل ، جانور، میر
جعفر میر صادق اور غدار کے القابات دئیے گئے انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر
اعظم عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کے بدلے آرمی چیف کو مدت ملازمت میں
توسیع کی بھی پیشکش کی جو ٹھکرا دی گئی وہ پہلے جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتے
نہیں تھکتے تھے سیاسی مدد نہ ملنے پر انہیں غدار کہنے لگے ، ڈی جی آئی ایس
آئی نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ شہدا جوانوں اور فوجی قیادت کے
دفاع کے لئے پریس کانفرنس میں آئے ہیں جھوٹا پراپیگنڈا اورالزامات ملک میں
انتشار پھیلانے کی سازش ہیں ،افواج پاکستان کے ترجمان اور ڈی جی آئی ایس
آئی کی پریس بریفنگ میں اٹھائے جانے والے سوالات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں
اورتحقیقات میں ان کے جوابات تلاش کرنا اشد ضروری ہیں اور ملکی سلامتی کے
اداروں بارے منفی پراپیگنڈے کی مہم کو ناکام بنانا ہر محب وطن پاکستان کا
فریضہ ہے چیئرمین تحریک انصاف جلسوں میں سیاسی مقاصد کے لئے اداروں کی
مددمانگتے نظر آتے اور آرمی چیف کو انکا آئینی کردار ادا کرنے پر ہدف تنقید
بناتے ہیں اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں کہ اپنے سیاسی مقاصد پورے نہ ہونے
پر سخت برہم ہیں لیکن انہیں پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی
جاسکتی ، انکی خواہش تھی کہ پاکستان کی تمام اپوزیشن کو جیلوں میں ڈال دیا
جائے اور آئین پامال کر کے انہیں طویل عرصے تک حکمران مان لیا جائے جمہوری
نظام میں ایک بچگانہ خواہش سے زیادہ کچھ نہیں تھی، جہاں تک ارشد شریف کا
تعلق ہے پوری قوم کو اسکا شدید رنج ہے انکے قتل کی تحقیقات جاری ہیں اور
حتمی رپورٹ آنے تک کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قومی سلامتی کے اداروں یا
کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت پر انگلیاں اٹھائے اور اپنے ڈاتی و سیاسی
مقاصد کے لئے اس افسوسناک واقعے کا سہارا لے ، پاکستانیوں کو اپنی آنکھیں
کھلی اور دماغ روشن رکھنا ہوں گے اور سیاست کی آڑ میں ملک کی سلامتی کے
ساتھ کھیلنے کی اصل سازش کو پہچاننا ہو گا ، ترجمان افواج پاکستان کی جانب
سے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف اور آئندہ بطور ادارہ آئینی کردارادا کرنے کے
عزم کا اظہار اور جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ ہر لحاظ سے خوش آئند ہے اور پر
فوجی قیادت کی تحسین کی جانی چاہئے اور ہر سطح پر انکے آئینی کردار کو
سراہا جانا چاہئے ۔
|