کہتے ہیں ایک بار ایک شکاری
جنگل سے ایک تیتر پکڑ کر لاتا ہے اوراسے اپنے گھر میں ایک الگ پنجرے میں
رکھتاہے اورخوب کاجو کشمش, بادام کھلاتاہے....
جب تیتر بڑا ہوجاتاہے تو اسے پنجرے کے ساتھ ہی لیکرجنگل جاتا ہے.....
وہاں جال بچھاتاہے اور تیترکو وہیں پنجرے میں رکھ کر خود جھاڑی کے پیچھے
چھپ جاتاہے اور تیتر سے بولتایے کہ "بول بیٹا بول" تیتر اپنے مالک کی آواز
سن کر زور زور سے چلاتا ہے....
اسکی آواز سن کرجنگل کےسارے تیتر(یہ سوچ کرکہ یہ اپنے قوم کاہے ضرورکسی
پریشانی میں ہے,چلو مدد کرتے ہیں )
کھنچے چلے آتے ہیں اور شکاری کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں.....
شکاری مسکراتے ہوئے آتاہے اور پالتو تیتر کو الگ اور سارے تیتروں کو الگ
جھولے میں ڈال کر گھر لاتاہے.....
پھر اپنے پالتو تیتر کے سامنے پکڑے گئے سب تیتروں کو ایک ایک کر کے کاٹتاہے
مگر پالتو تیتر اف تک نہیں کرتا,اسے اپنے حصہ کی خوراک کاجو,کشمش,بادام جو
مل رہاتھا...........
کم وبیش یہی حالت آج کے مسلمانوں کی بھی ہو گئی ہے........
شکاری نے ایسے نہ جانے کتنے تیتر پال رکھے ہیں جن کی وجہ سے قوم دشمن کے
جال میں پھنستی ہے اوریہ کٹتا ہوا دیکھتے ہیں مگر اف تک نہیں کرتے کیونکہ
انکو انکے حصہ کی خوراک مل جاتی ہے.......!!!
|