فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور

فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور
24 جولائی 1926ء تا 07 فروری 1935ء
صادر فرمودہ:۔جسٹس محمد اکبر خان ؒ
تدوین و تخریج:۔صادق علی زاہد

فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور

فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور
24 جولائی 1926ء تا 07 فروری 1935ء
صادر فرمودہ:۔جسٹس محمد اکبر خان ؒ
تدوین و تخریج:۔صادق علی زاہد
اسلامی تصور حیات میں توحید کے بعد سب سے بڑی اہمیت عقیدہ ختم نبوت کو حاصل ہے جس سے معلوم تا ہے کہ یہی وہ اصل بنیاد ہے جس کی وجہ سے اسلام دوسرے الہامی مذاہب سے ممتاز و منفردہے۔ پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ رب کریم نے کسی گزشتہ دین کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اس کی تکمیل ہو چکی ہے اور اس کی حفاظت کا میں ذمہ دار ہو ں اور نہ ہی سابقہ آسمانی کتب وصحائف کے متعلق یہ فرمایاکہ یہ خدا کا آخر ی پیغام ہے اور نہ ہی یہ فرمایااس کو پیش کرنے والا آخری نبی ہے کہ جس کا ہر قول و فعل قیامت تک لوگوں کے لیے نجات کا ذریعہ ہو مگر پیغمبر اول و آخر حضرت محمد مصطفےٰ ﷺکا پیغام آخری پیغام ہے اور آپ ﷺ کے بعد کسی اورنبی و رسول کے نہ آنے کا پیغام دیتاہے۔
رب کریم نے جس طرح دین محمدی کے متعلق (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا) (المائدہ :٣) ارشاد فرمایا اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے متعلق بھی فرمایا کہ 'مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَا(الاحزاب :٤٠) ۔حضور اکرم ﷺ نے بھی اس مضمون کو مختلف الفاظ سے بیان فرمایا جس کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے۔
اسلامی تاریخ میں بہت سے گمراہ فرقے اور فتنے پیدا ہوئے مگر ختم نبوت ،تحفظ ناموس رسالت اور جہاد من الکفار جیسے بنیادی مسائل پراُمت ہمیشہ متفق رہی۔یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اُمت محمدیہ میں سب سے پہلے جس مسئلہ پر اجماع ہوا وہ یہ تھاکہ آنحضرت ﷺ خا تم انبیاء کے بعد مدعی نبوت واجب القتل اور اس پر یقین کرنے والے مرتد اور دائر ہ اسلام سے خارج ہیں۔
انیسویں صدی کے آخر میں جب سلطنت برطانیہ کا ستارہ اقبال پورے آب وتاب کے ساتھ چمک رہاتھا تو انگریز نے جہاں دین اسلام کے خلاف اور بے شمار سازشیں کیں وہاں برصغیر پا ک وہند میں اپنے ناپاک منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک نبی پیدا کرکے مندرجہ بالا متفق علیہ مسائل کو متنازعہ بنانے کی کوششیں بھی کیں۔اور اُس نے یہ کام مسلمانان ہند میں سے ہی ایک ایسے ایمان فروش سے کرایا جس نے سلطنت برطانیہ کی غلامی میں ایک زندیق کا کردار اداکیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی اسلامی ممالک خصوصاً ہندوستان میں اس کا شدید رد عمل ہو ا پورے عالم اسلام کے علماء کرام اورقاضیان قضاء نے مرزا قادیان اور اس کے ہم خیالوں کے خلاف ارتداد اور تکفیر کے فیصلے اور فتاوی جاری کئے۔اور اپنے تمام تر فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن اس فتنہ کا سد باب کیا جس کی مثال اسلامی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
تاریخ میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعد ایک اسلامی ریاست کے طور پر مرزا قادیانی کے کافر ہونے کا سب سے پہلے ریاست بہاولپور کی عدالت نے فیصلہ جاری کیا۔یہ فیصلہ مسماۃ عائشہ بی بی کا ایک قادیانی شخص کے ساتھ نکاح کی صورت میں صادر ہوا۔عائشہ بی بی کے والد نے ایک شخص کے ساتھ اس کا نکاح کردیا لیکن بعد ازاں معلوم ہواکہ یہ شخص قادیانی ہے تو عائشہ کے والد نے اسے کے ساتھ اپنی بیٹی کورخصت کرنے سے انکار دیا۔ قادیانی شخص نے اپنی منکوحہ کو حاصل کرنے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائرکردیا ۔
اس عدالتی معرکے کے ہیرو حضرت شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد محدث کھوٹوی ؒ تھے۔آپ نے ابتدائی مراحل سے لے کر فیصلہ صادر ہونے تک بڑی جاں فشانی اور پامردی سے اس مقدمے کی پیروی کی اور مدعیہ علیہ کے دست و بازو بن کر راستہ کی ہر مشکل کو آسانی سے تبدیل کردیا۔آپ نے پاک و ہند کے جید علماء کرام کو مقدمہ کی پیروی میں شریک ہونے کی دعوت دی اور دور و نزدیک سے آنے والے علمائے کرام کے قیام وطعام اور زاد راہ کا ان کے شایان شان اہتمام فرمایا۔آپ کے نزدیک یہ کفرواسلام کا معرکہ تھا جس میں اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے کامیابی و کامرانی بھی ملی۔
زیر نظر کتاب"فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور"برادرم صادق علی زاہد صاحب کی حالیہ تالیف ہے ۔جو اس تاریخی مقدمہ کے فیصلے کی تخریج اور اس مقدمہ کی کاروائی میں شامل رہنے والے بزرگان اُمت کے کوائف کی جدیدانداز و اسلوب میں سامنے لانے کی ایک بہت عمدہ اور کامیاب کوشش ہے۔
چھ فصول کی حامل اس دستاویز کی پہلی فصل میں مقدمہ بہاول پور کی نو سالہ عدالتی کاروائی اور اس دوران پیش آنے والے اہم امور پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھی گئی کہ کاروائی کا خلاصہ قائرین کے ذہن میں موجود رہے اور آئندہ فصول کے مواد کی تفہیم میں آسانی رہے۔اس فصل میں 24 جولائی 1926ء کو ابتدائی عدالت احمد پور شرقیہ میں مقدمہ کی ابتدا سے لے کر ڈسٹرکٹ کورٹ بہاول پور میں مقدمہ کی منتقلی ، ڈسٹرکٹ کورٹ سے مقدمہ کے اخراج ،چیف کورٹ بہاول پور میں اپیل ،اپیل کی نامنظوری اور اپیل ثانی در اجلاس خاص بغرض حصول استثناء اپیل ثانی کی اجلاس خاص میں منظوری اور مقدمہ ڈسٹرکٹ میں دوبارہ سماعت اور 7 فروری 1935ء کو تاریخی فیصلہ کے صدور تک اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
فصل دوم میں اس عدالتی و معاشرتی سطح پر اس تاریخ ساز فیصلے کے اثرات جبکہ تیسری فصل میں مشاہیر اسلام کی طرف سے اس فیصلے کی دادوتحسین کی جھلک کو پیش نظر کیا گیا ہے۔فصل چہارم میں اس فیصلہ کے اشاعتی مراحل کی روداد پیش کی گئی ہے۔اور صاحب کتاب نے اپنی تحقیق کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ گذشتہ ستاسی سالوں میں اس مقدمہ کی کل آٹھ قابل ذکر اشاعتیں منظر عام پر آئی ہیں۔جن میں سے چار اشاعتیں تفصیلی ہیں جن میں مقدمہ کے ساتھ ساتھ گواہان مدعیہ کے بیانات اور مختار مدعیہ کی تفصلی بحث شامل ہے جبکہ بقیہ اشاعتوں میں صرف فیصلہ مقدمہ کی اشاعت پر اکتفا کیا گیا ہے۔
پانچویں فصل میں مقدمہ کے اہم کرداروں کے میسر شخصی و علمی کوالف کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔اس فصل میں مدعیہ مقدمہ محترمہ غلام عائشہ ؒ ،مدعیہ کے والد مولانا الٰہی بخشؒ،مقدمہ کے روح رواں شیخ الاسلام علامہ غلام محمد محدث گھوٹویؒ،مقدمہ کے ہیروجسٹس محمد اکبرخاں،شیخ الاسلام کے دست راست ابوالعباس نعمانی محمد صادق بہاول پوری اور گواہان مدعیہ ابوالقاسم محمد حسین کوکوتارڑوی،علامہ محمد انور شاہ محدث کشمیری،مولانا مفتی محمد شفیع،مولانا سید مرتضیٰ حسین چاند پوری،مختار مدعیہ مولانا ابوالوفا شاہ جہاں پوری اور محسن مقدمہ بہاول پور و محسن پاکستان نواب سر صادق محمد خاں خامس عباسی ؒ کے کوائف پیس کیے گئے ہیں جو زیر نظر کتاب کی اہمیت وافادیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
"فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور"اس مقدمہ کی نویں اشاعت ہے جو اِس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس قبل کی کسی اشاعت میں جسٹس محمد اکبر خاں کا تعارف شامل نہیں کیا گیا۔برادرم صادق علی زاہد نے اس اہم کمی کو شدت سے محسوس کیا اور سخت کھوج کے بعد پہلی دفعہ جسٹس محمد اکبر خاں ؒ کے حالات زندگی دریافت کرے شامل کتاب کیے۔
کتاب کی آخری چھٹی فصل اس تاریخ ساز مقدمہ کے فیصلے پر مشتمل ہے۔اور یہی وہ فصل ہے جو اس دستاویز کا مغز ہے۔اس فیصلہ میں فاضل جج نے اسلامی لٹریچر کی روشنی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت و فضلیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ قادیانی مکروفریب اور کفریات کا بھانڈہ بیچ چوراہے پر پھوڑا کر قادیانیت کے خارج عن الاسلام ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ بہاولپور کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ باقاعدہ عدالتی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ختم نبوت کا پرچم بلند کر دیا ۔گواس سے قبل برصغیر پاک و ہند کے تمام جید علمائے کرام قادیانیت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے چکے تھے لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ باقاعدہ سرکاری عدالت نے غلام مرزا قادیانی کو کذاب قرار دیتے ہوئے قادیانی گروہ کو کافر قرار دیا ۔
یہ تاریخی فیصلہ جناب محمدا کبر خان جج صاحب مرحوم کامرہون منت ہے کہ انہوں نے کمال عدل و انصاف محنت و عرق ریزی سے ایسافیصلہ لکھا کہ اس کا ایک ایک حرف قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔اور قادیانیوں اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے ہمت نہ ہوسکی ۔
جناب صادق علی زاہد نے اس فصل کے جملہ حوالہ جات جدید انداز میں فٹ نوٹس میں تحریر کیے ہیں۔فاضل جج نے جن آیات و احادیث نبوی کے چند الفاظ بطور حوالہ تحریر کیے تھے مولف نے مکمل آیات و احادیث معہ ترجمہ و حوالہ فٹ نوٹس میں درج کردی ہے۔کئی مقامات پر جوآیات قرانی بغیر اعراب کے تحریر کی گئیں مولف نے اس پر بھی اعراب لگانے کی سعی کی ہے۔فاضل جج نے معزز گواہان مدعیہ و مدعا علیہ کے بیانات میں کئی اہم اقتباسات جابجا تحریر فرمائے اور کہیں اُن کی طرف اشارہ کرکے اپنے موقف کو مضبوط کرنے کی سعی مشکور فرمائی ہے۔محققین کی سہولت کے پیش نظر صاحب مولف نے بڑی محنت اور جستجو سے ان اقتباسات و اشارات کے حوالے بھی فٹ نوٹس میں تحریر کردیئے ہیں۔مرزا قادیانی کی خرافات نما کتب اور دیگر کتب ورسائل کے اقتباسات جابجا فیصلہ میں زیر قلم آئے ہیں۔
جناب صادق علی زاہد نے ان کے بھی حوالہ جات جدید اسلوب میں درج کرکے کتاب کی اہمیت وافادیت میں اضافہ ہی نہ کیا بلکہ حوالہ جات کی تدوین و تخریج اور متن کی کمپوزنگ و پروف ریڈنگ کے جملہ امور کو بھی ذمہ داری سے ادا کیا ہے جو قابل ستائش ہے۔
محترم جسٹس(ر) میاں نذیر اختر صاحب "فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور" پر اظہار خیال کرتے ہیں اور اس کی تدوین کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں کہ"حوالہ جات کی تلاش و جستجو میں مصنف نے بہت محنت کی،کئی سفر کیے اور کئی اداروں میں پہنچ کر اصل ماخذوں کو ڈھونڈ نکلا ۔ان کی یہ کاوش قابل ستائش ہے۔۔۔زیر نظر کتاب مقدمہ بہاول پور کے حوالے سے چھپنے والی کتب میں ایک اہم اضافہ ہے۔"کار تحقیق " کے عنوان سے جناب محمد انور زاہد سُرا ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اور "قادیانیت کے خلاف اولین عدالتی فیصلہ" کے عنوان سے مفتی محمد تصدق حسین صاحب کی آراء کو شامل کتاب کیا گیا ہے جبکہ کتاب کا اشاریہ معروف اشاریہ ساز جناب محمد شاہد حنیف نے ترتیب دیا ہے۔خوبصورت سرورق اور 352 عمدہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب لاہور کے معروف اشاعتی ادارے"ورلڈ ویو پبلشرز" کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔
برادرم صادق علی زاہد رد قادیانیت کے حوالے سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔آپ درجن سے زائد اہم تحقیقی کتب کے مولف و مصنف ہیں جن میں علمائے حق اور رد فتنہ مرزائیت،تذکرہ مجاہدین ختم نبوت، عقیدہ ختم نبوت حقائق کی روشنی میں،عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت،اور سیف مہریہ بر فتنہ مرزائیہ بہت اہم ہیں۔
اس خوبصورت اور گرانقدر علمی تحفہ کی فراہمی پر ہم برادرم صادق علی زاہد کے بے حد مشکور ہیں ۔یقیناً برادرم صادق علی زاہد ستائش کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پہلی بار اس مقدمہ کے اُن اہم نقاط اور جذیات کو بھی مدنظر رکھا اور اہمیت دی جو اس سے قبل احاطہ تحریر میں نہیں آئے۔اس تاریخ ساز مقدمہ کی جدید انداز و اسلوب میں تدوین نو پر ہم اُنہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ صادق علی زاہد صاحب کے علم و عمل اورمرتبہ وکمال میں اضافہ فرمائے اور ان کی اس کوشش و کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے۔آمین بحرمۃ سید المرسلیٰن ﷺ
محمداحمد ترازی
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 361920 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More