تحریک انا: میڈیا کا کھیل، مسلمانوں کا دور رہنے پر مجبور

میڈیا کی تازہ کرشمہ سازی تحریک انّا کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔دہلی کی سڑکوں پر چہل پہل معمول کے مطابق ہے مگر خبروں سے لگتا ہے کہ ہر طرف بس انا کی ہی دھوم ہے۔کسی وقت کوئی چینل کھولئے،مقامی زبان کا اخبار اٹھائے، بس ایک ہی خبر کی جگالی نظر آتی ہے، باقی خبریں پسِ پشت ڈال دی گئیں ، حالانکہ میڈیا کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے قاری کومعروضی انداز میں ، بغیر رنگ آمیزی تمام واقعات سے باخبر رکھے۔ لیکن اس اصول کوقطعی بھلا کر مفاد خصوصی کے تحت خودہی مستغیث، خود ہی عدالت اور خود ہی نافذہ کا بھونڈا کردار ادا کرنے کی راہ نکال لی گئی ہے۔یہ صحافت نہیں بدعنوانی ہے، جس کو’پیڈ نیوز‘یا ’لابیئنگ‘کہا جاتا ہے۔افسوس کہ عوام ہی نہیںخواص بھی اس کی رو میں بہے چلے جا رہے ہیں اور اُس مفاد خصوصی پر نظر نہیں جاتی جو اس مہم کااصل محرک ہے۔شہرت کی چاہ میں انا ہزارے بھی یہ نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ ان کوکس مفاد خصوصی نے چالاکی سے اپنا آلہ کار بنا لیا ہے۔

اس تحریک کا اعلان شدہ ہدف بدعنوانی اور رشوت ستانی ہے۔چنانچہ عوام جو رشوت کے راج سے چور ہیں، اس آواز پرمسحور ہوگئے۔ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ لوک پال بدعنوانی کا شرطیہ علاج ہے، حالانکہ عام آدمی کو عام طور پر جس بدعنوانی سے واسطہ پڑتا ہے وہ ریاستی سرکاروں سے متعلق دفاترمیں پنپتی ہے۔ اس کے خاتمہ کےلئے لوک پال نہیں ہرریاست میں مضبوط لوک آیکت کی ضرورت ہے، جس کی بدولت ابھی حال ہی میں کرناٹک کے وزیراعلا کو استعفا دینا پڑا ہے۔ایک تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ پوری تحریک انا ہزارے کی انااور اروند کجریوال کی پراسرار مصلحت کی اسیر ہوکر رہ گئی ہے۔ ہر چند کہ دنیا دیکھ رہی ہے مرکزی حکومت نے اپنے وجود کو خطرے میں ڈال کر کئی لوگوں کو بدعنوانی کے معاملات میں جیل بھیجا ہے اور اس کے قابو پانے کی تدابیر پر تبادلہ خیال کےلئے آمادہ بھی ہے، مگرابھی تک ٹیم انا اس ضد پر اڑی ہے کہ قانون کا وہی مسودہ جو چند لوگوں نے تیار کیا ہے جوں کا توں، منظور کرایا جائے۔ وہ بھیڑ جمع کرکے مطالبہ منوانے کی ایک خطرناک روایت ڈالنا چاہتے ہیں۔ کل کو کچھ لوگ اس سے بھی بڑی بھیڑ جمع کرکے کہیں گے دلتوں اور پسماندہ طبقات کا رزرویشن ختم کرو، یکساں سول کوڈ لاﺅ، رام مندر بنانے کا قانون پاس کرو، اقلیتوں کو حق رائے دہی سے محروم کرو وغیرہ اور حکومت مان جائے گی؟ ان کے اس مطالبہ اور ان کے اس رویہ میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔ بڑھا چڑھا کر پیش کی جانے والی عوامی مقبولیت کا حوالہ دینا غلط ہے کیونکہ مقبولیت معقولیت کی دلیل نہیں ہوتی۔

شکایت یہ کی جارہی ہے کہ مسلمان اس تحریک میں شریک نہیں۔اس کی معقول وجوہ ہیں۔ہماری شکایت ہے کہ اس تحریک اول دن سے مسلمانوں کو نظر انداز کیا ۔ نہ ٹیم میں شریک کیا اور نہ کسی مشورے میں۔ البتہ حمایت ضرور طلب کی۔دوسرے سوامی اگنی ویش کو چھوڑ کر انا ٹیم کے کسی بھی فرد نے کبھی مسلمانوں کے دکھ درد میں دو بول بھی نہیں کہے۔ تیسرے یہ تحریک رمضان میں شروع کی جس میں مسلمان اپنے روزمرہ کے کام کاج بھی تکلف کے ساتھ پورا کر پاتے ہیں۔سب سے اہم پہلو جو ہمارے پیش نظر ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کو اس ملک میں جو کچھ بھی حقوق حاصل ہیں ان کا سرچشمہ ہمارا آئین ہی ہے ۔ ہم ہرگزکسی ایسی تحریک کی تائید نہیں کرسکتے جو آئین اور پارلیمانی نظام کو کمزور کرے۔اس تحریک نے جو روش اختیار کی ہے وہ بھی قابل اعتراض ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے مقصد بدعنوانی کو مٹانا نہیں ، مرکزی سرکار کو ہٹا نا ہے۔ ایسی سرکار کو کمزورکرنا قومی مفاد کے منافی ہے جو فرقہ پرست طاقتوں اور سنگھی دہشت گردی کو بے نقاب کررہی ہے۔ جس نے آزادی کے بعد پہلی مرتبہ اقلیتوں کی بہبود کی کچھ فکر کی ہے اور جس کے کچھ ثمرات بھی نظر آنے لگے ہیں۔

ہرچند کہ جنتر منتر پر انا کی سابق بھوک ہڑتال کے وقت ’بھارت ماتا‘کا بینر لگا تھا ،اوررام دیو سمیت کئی سنگھ نواز لیڈر اسٹیج پر نظر آئے تھے، مگر اس بارپردہ بدل دیا گیا ہے اورگاندھی جی کی شرن لی گئی ہے۔تاہم یہ ایک ایسی سیاسی تحریک ہے جس کا فائدہ گاندھی کے حامیوں کو نہیں قاتلوں کو ہی پہنچے گا۔ بدعنوانی کو بہانہ بناکروزیر اعظم کی شخصیت اور سرکار کو کمزور کرنے کی سازش صاف نظر آتی ہے تاکہ آئندہ چناﺅ میںبھاجپا کے امکانات کو بڑھایا جاسکے۔دھمکی دی جارہی ہے کہ مطالبہ نہیں مانو گے تو سرکار گرا دیں گے۔ ہم حیران ہیں کہ سرکار بدلنے سے بدعنوانی کیسے ختم ہوجائے گی؟ جن پارٹیوں نے اپنی زیر حکومت ریاستوں کو سیاسی اور مالیاتی بدعنوانیوں کی تجربہ گاہ بنا رکھا ہے، اور جن کے لیڈر مرکز میں اپنے دور اقتدار میں رشوت وصول کرتے ہوئے کیمرے پر پکڑے گئے، وہ کیسے بدعنوانی کو ختم کردیں گے؟ ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر ایک ہی طرح کے مشعل جلوس، ایک ہی طرح کے بینر ، ٹوپیاں اور وزیروں اور ممبران کے گھروں پر ہنگامہ آرائی ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی ہے ۔ یہ کام انا ہزارے کا بس کا نہیں کیونکہ نہ تو ان کے پاس اتنے افراد ہیں اورنہ ملک گیر پیمانہ کی تنظیم ہے جو ان سرگرمیوں کو اس طرح منظم کر سکے۔ یہ کون کررہا ہے اور اس سے کس کا مفاد وابستہ ہے؟اے وی بی پی پیش پیش کیوں ہے؟امریکا اس کی تائید کیوں کررہا ہے؟ کجریوال کو یہودی ادارہ فورڈ نے چار لاکھ ڈالر کا عطیہ کیوں دیا؟ ان پہلوﺅں کو دیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یاد کیجئے 1974 میں جب جے پرکاش نارائن نے مکمل انقلاب کا نعرہ لگایا اور بدعنوانی کو موضوع بناکر مرکز کے خلاف مہم چھیڑی تب اندرا گاندھی ایسی مضبوط پوزیشن میںتھیں کہ راجستھان میں برکت اللہ خان، مہاراشٹرا میں عبدالرحمٰن انتولے اور بہار میں عبدالغفور وزیر اعلا بنائے جاسکتے تھے۔ جے پی کی تحریک سے بدعنوانی توختم نہیں ہوئی، ملک کا سیاسی منظر نامہ ضروربدل گیا، جس کا فائدہ سیدھے سنگھ پریوار کو پہنچا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سنگھ کے سیوم سیوک وزیر بن گئے۔ 1988میںوی پی سنگھ نے راجیو گاندھی کے خلاف مہم چھیڑی، تب بھی سنگھ پریوار اس کی پشت پر تھا۔ بھاجپا (سابق جن سنگھ)نے باہر سے وی پی سنگھ سرکار کو حمایت تو کی مگر ان کو خوب تنگ بھی کیا۔ منڈل کے جواب میںکمنڈل کی تحریک چلی۔ بابری مسجد کے انہدام کی راہ ہموارکی گئی اور آخر کار مرکز میں اورآدھی سے زیادہ ریاستوں میں بھاجپا اقتدار میں آگئی اور بیشمار سوئم سیوک وزیر اور گورنربن گئے ۔آر ایس ایس کے ہمنواافسران کلیدی منصبوں پربٹھادئے گئے ۔ مرکز میں 8 سال سے یو پی اے سرکار ہونے کے باوجود انتظامیہ پرسنگھیوں کی گرفت کمزور نہیں ہوئی ہے۔

2009کے پارلیمانی الیکشن میں بھاجپا نے دہشت گردی کوانتخابی موضوع بنایا۔ لیکن جلد ہی سنگھی دہشت گردی کی پرتیں کھلنے لگیں اور تفتیش سنگھ کے ایک بڑے لیڈراندریش کمار کے دروازے تک پہنچ گئی ۔ ادھر حالیہ اسمبلی انتخابات میںبھاجپا نے625 امیدوار کھڑے کئے مگر صر ف پانچ جیتے۔ کیرلہ میں اس نے138، تمل ناڈو میں 131 ، پانڈیچیری میں19اورمغربی بنگال میں 287 امیدوارکھڑے کئے مگر ایک بھی نہیں جیتا۔ آسام میں 50میں سے صرف پانچ جیتے ۔ دہشت گردی میںپکڑے جانے اور عوام میںمسترد کردئے جانے کے دونوں واقعات نے سنگھ پریوار کے سامنے موت اور زندگی کا سوال پیداکردیا ہے۔اس دوران پارٹی صدر نتن گڈکری ایک بڑا وفد لیکرخود اسرائیل گئے اور دو ہفتہ قیام کے دوران اپنے صہیونی دوستوں سے مشورے کئے ۔ اس کے بعد اچانک انا ہزارے کی یہ تحریک شروع ہوگئی اور کارپوریٹ میڈیاکی مبالغہ آرائی سے بڑھتی چلی گئی۔ تحریک ناکام ہوئی تو شور مچائیں گے کہ یو پی اے سرکار نے بدعنوانی کے خلاف مہم کو کامیاب نہیں ہونے دیا ااور اگر حکومت دباﺅ میں آگئی تو یہ ڈھنڈورہ پیٹا جائے گا کہ دیکھو ہم نے یہ کارنامہ انجام دیدیا۔ اس طرح یہ تحریک دراصل بھاجپا کی گمشدہ سیاسی زمین واپس دلانے اور حکومت پر یہ دباﺅ بنانے کےلئے ہے کہ سنگھی دہشت گردی کا پیچھا کرنا بند کردے۔ اسی لئے وزیر داخلہ پی چدمبرم سے بار بار استعفا مانگا جارہا ہے، حالانکہ چھتیس گڑھ میں نکسلی حملے میں سی آر پی ایف کے 27جوانوں کی ہلاکت کے بعد جب چدمبرم نے استعفے کی پیش کش کی تھی تو اسی بھاجپا نے ان کی تعریف کرتے ہوئے اصرار کیا تھا وہ استعفا نہ دیں۔

اس میں شک نہیں کہ چاروں طرف رشوت کا بازار گرم ہے۔ یہ رشوت مانگنے والے اور دینے والے کون ہیں؟ وہی لوگ ہیں جو کہیں لے رہے ہیں اور کہیں دے رہے ہیں۔ انا ٹیم کو گھر گھر پھیلے ہوئے اس عذاب سے کوئی سروکار نہیں۔بس اس رشوت کی فکر ہے جو بڑے بڑے تاجر گھرانوں سے افسر اور وزیر وصول کرتے ہیں۔ان کو تو سب سے پہلے عوام سے کہنا چاہئے تھاکہ جس بدعنوانی کا شکار تم ہو اس کا خاتمہ اپنے گھر سے کرو۔ ان سے یہ عہد لیا جاتا کہ نہ رشوت لوگے اور نہ دوگے۔لیکن ان کو فکر صرف یہ ہے وزیر اعظم کو کیسے گھیرا جائے ؟حالانکہ وزیر اعظم کو لوک پال کے دائرے میں لانا انتہائی خطرناک ہوگا۔ کوئی بھی غیر ملکی طاقت ، کارپوریٹ سیکٹر، جرائم سنڈیکیٹ اپنے مفاد کی خاطر وزیر اعظم کے خلاف لوک پال میں الزامات عائد کراکے حکومت کو متزلزل کراسکتا ہے۔ او ر پھر لوک پال میںبھی توتقرری موجودہ افسروں میںسے ہوگی۔ فرشتے تو آ نہیں جائیںگے۔ مجوزہ جن لوک پال کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوگا۔ اسے رشوت خوری اوربلیک میلنگ سے کیسے روکا جائیگا؟ ایک ایسے وقت میں جب کہ سامراجی طاقتوں کی سازش سے پورا عالم اسلام شورش میںمبتلا ہے امریکی ترجمان کا انا ہزارے کی حمایت میں بیان دینا کی معنی رکھتا ہے؟

یہ مہم آئین اور قانون کی حکمرانی سے عوام بددل کررہی ہے۔ آئینی اداروں کمزور کرنے پر آمادہ ہے اور سرکار کے اوپر ایک سپر سرکار قائم کرنا چاہتی ہے جس پرکارپوریٹ جگت اور سنگھ پریوار آسانی سے کنٹرول حاصل کرلے گا۔ غور کیجئے کو ن سی طاقتیں اس آئین کو بدلنا چاہتی ہیں؟ یہی سنگھی طاقت جو چاہتی کہ اس جگہ ہندتوا کا آئین نافذ کیا جائے۔ یہ سوچنا ہوگا کہ کونسی عفریت زیادہ خطرناک ہے ؟ میڈیا میں شور کی بدولت اس مہم کوکچھ مقبولیت تو ملی مگر یہ ضروری نہیں کہ جہاں مقبولیت ہو وہاں معقولیت بھی ہو۔ ہم کو سوچنا ہوگا کہ بغیر سوچے سمجھے بھیڑ میںشامل ہوجائیں یا دواندیشی سے اپنے لئے کوئی فیصلہ کریں۔

اس مہم ایک بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ ملک کے دیگر مسائل پس پشت جا پڑے ہیں ۔ مثلاً اسی اتوار کو جموں وکشمیر کے ریاستی کمیشن برائے انسانی حقوق نے ایک لرزہ خیز رپورٹ پیش کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شمالی کشمیر کے صرف تین اضلاع میں ایسے 38مقامات کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں کم از کم 2730 نا معلوم افرا دفن ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان بدنصیبوں کی لاشیں ہیں جن کو پولیس اور فوج اٹھاکر لے گئی اور لاپتہ ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق ان میں اکثر لاشوں پرگولیوں کے نشان تھے۔ اس ریاست میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران آٹھ تا دس ہزار افراد لاپتہ ہوچکے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ ان سب کا بھی یہی حشر ہوا ہوگا۔ انسانی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزی اورشدید اذیت ناک خبر بھی اس مہم کے شور میں دب کر رہ گئی ۔ ایسے ہی نجانے اور کتنے سانحے ہوگزرے مگر ٹی وی چینلز نے عوام کو ان سے باخبر رکھنے کی ذمہ داری پوری نہیں کی۔یہ بھی بدعنوانی ہے جو بدعنوانی کے مہم کے حامیوں کے ہاتھوں انجام پارہی ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.