کورونا کی وباء کے دوران وزیر اعظم کا ’آپدا میں اوسر‘
یعنی ’مشکل میں موقع‘ والا جملہ بہت مشہور ہوا۔ اس کے معنیٰ انسان اپنی
مشکلات کے حل کی خاطر مواقع تلاش کرے یہ نہیں بلکہ دوسروں مشکل میں اپنا
فائدہ ڈھونڈے ہے ۔ دنیا بھر میں ذخیرہ اندوزسرمایہ داروں کی یہ قدیم حکمت
عملی ہے کہ عوام اگر دانے دانے کے محتاج ہوجائیں تووہ اپنے وارے نیارے
کرلیتے ہیں۔ کسی مقام پراگر کوئی آفت آجائے اور لاشوں کے ڈھیر لگ جائیں
تو مردہ خورگِدھوں کی دعوت ہوجاتی ہے۔ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے کہ
عوام کے مصیبت میں گرفتار ہوتے ہی وہ لوگ اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے لگ جاتے
ہیں ۔ اس معاملے وزیر اعظم نریندر مودی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ موربی حادثے
کے بعد تیسرے دن ان کے وہاں پہنچتے ہی سڑکوں کی مرمت شروع ہوگئی ۔ اسپتال
کی رنگائی ہونے لگی۔ شہر کو اس طرح سجایا جانے لگا جیسے کوئی دولہا بارات
کے ساتھ آنے والا ہے۔ کیا تعزیت ایسے کی جاتی ہے؟
گجراتی میں ایک دوہے کے معنیٰ ہیں کسی کی تعزیت کے لیے پگڑی باندھ کر یا
گھوڑی پر چڑھ کر نہیں جاتے بلکہ سادگی کے ساتھ سرجھکا کر پیدل جاتے ہیں۔ اس
موقع پر سوگوار پسماندگان کسی مہمان کے استقبال میں اپنے گھر رنگائی پوتائی
نہیں کرتے۔ اسی لیے لوگ وزیر اعظم پر تنقید کررہے ہیں لیکن وہ بیچارے نہیں
جانتے کہ مودی جی وہاں تعزیت کے لیے گئے ہی کب تھے؟ وہ تو ایک تماشہ کرنے
کی خاطر گئے تھے۔ انتظامیہ جانتا تھا اس لیے اس نے اپنا فرض منصبی نبھاتے
ہوئے ان کی خاطر سرخ قالین بچھانے کا اہتمام کردیا ۔ بہترین سیٹ پر چہار
جانب لگے کیمروں کے درمیان مودی جی نے خوب اداکاری کی۔ گودی میڈیا ان کے پل
پل کی خبر اس طرح نشر کررہا تھا جیسے انتخابی مہم کو کوور کیا جاتا ہے اور
کیوں نہ کرتا وہ دراصل انتخابی مہم ہی تھی ۔ یہی گجرات کا وہ سیاسی ماڈل ہے
جس کی دہائی دن رات دی جاتی ہے۔
ایک زمانہ ایسا تھا جب ایک ریل گاڑی کے حادثے پر وزیر ریلوے لال بہادر
شاستری نے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن اب کوئی وزیر استعفیٰ تودور معذرت کرنے
کا روادار بھی نہیں ہے۔ ممبئی میں حملے کے وقت دن میں تین چار بار کپڑے
بدلنے کے جرم میں وزیر داخلہ شیوراج پاٹل سے استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔ وزیر
اعظم مودی ہر دن نت نئے لباس زیب تن کرکے اداکاری فرماتے ہیں لیکن کسی حیرت
نہیں ہوتی کیونکہ ان کا یہی طرز حیات ہے ۔ممبئی حملے کے وقت زبان کے پھسل
جانے سےمہاراشٹر کے صوبائی وزیر داخلہ آر آر پاٹل کی زبان سے ایک جملہ
’بڑے بڑے شہروں میں چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں‘ نکل گیا ۔ اس گناہ کی
پاداش میں ان کو استعفی ٰ دے کر گھر جانا پڑا لیکن موربی حادثے کےفوراً بعد
گجرات کے وزیر صحت رشی کیش پٹیل کی سالگرہ کا جشن منظر عام پر آیا۔ اس کی
تصاویر ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں لیکن کسی کی کان پر جوں نہیں رینگتی ۔ یہ
مودی جی کا نیا بے حس بھارت ہے۔
موربی حادثے میں نو پیادوں کی گرفتاری تو عمل میں آگئی لیکن بساط کے اصلی
بادشاہ جئے سکھ پٹیل کا نام نامی بھی کسی کی زبان پر نہیں آیا ۔ جئے سکھ
پٹیل کو موربی پُل کی مرمت کا ٹھیکہ دیا گیا تھا حالانکہ اس کا آبائی پیشہ
گھڑی بنانا ہے۔ اس نے اپنے سیاسی رسوخ کا استعمال کرکے ٹھیکہ تو لے لیا
لیکن چونکہ مرمت کی صلاحیت سے عاری تھا اس لیے اسے دیو پرکاش سولیوشن کو
دوکروڈ میں ٹھیکہ دے دیا ۔ اس معمولی رقم میں ایسا ناقص کام ہوا کہ فی
الحال مرنے والوں اور زخمیوں کی نقصان بھرپائی سرکاری خزانے سے ۶؍کروڈ خرچ
کیا جارہا ہے حالانکہ یہ رقم جئے سکھ کے اوریوا گروپ سے وصول کی جانی چاہیے
تھی ۔ اوریوا گروپ کو پندرہ سال تک اس پُل کی دیکھ ریکھ کا کام سونپا گیا
ہے اور وہ اس پر سے گزرنے والے ہرفرد سے سترّ روپیہ فی وصول کررہاتھا۔ پُل
کی مرمت کے بعد جئے سکھ نے اس کے لیے انتظامیہ سے فٹ نیس سرٹیفیکیٹ لینے کی
زحمت بھی نہیں کی اور کسی میں اس کو روکنے کی ہمت نہیں تھی۔ پُل کو تہوار
کے موقع پر زیادہ روپیہ کمانے کی لالچ میں قبل از وقت کھول دیا کیونکہ جب
سیاں ّ بنے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا؟
موربی پُل کی افتتاحی تقریب میں کی جانے والی جئے سکھ کی تقریر اب بھی یو
ٹیوب موجود ہے۔ اس نے 24؍ اکتوبر کو کہا تھا اب اس پُل کو آئندہ پندرہ سال
تک کچھ نہیں ہوگا ۔ اس نے دعویٰ کیا تھا اس جھولتے پُل کی مرمت کے لیے
مخصوص آلات اور بہترین تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کام کے لیے جندل
جیسی کمپنی کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ اب آئندہ پندرہ سالوں تک
اس کی مرمت ، چلانے اور حفاظت کی ذمہ داری اس کی ہے۔ اس بلند بانگ دعویٰ کے
پانچ دن میں پُل ٹوٹ گیا اور جھوٹے دعووں کی قلعی کھل گئی۔ گھڑی اور بلب
بناتے بناتے تعمیری کمپنی کا مالک بن جانے والا اوریوا گروپ سوراشٹر کو
سیراب کرنے کی خاطر ’رن سرور پروجکٹ‘ کے خواب دیکھ رہا تھا اور اس مقصد کے
لیے وہ وزیر داخلہ امیت شاہ سے بھی ملاقات کرچکا ہے۔ جئے سکھ اپنے سیاسی
رسوخ کے سبب ہنوز آزاد گھوم رہا ہے۔
جئے سکھ پٹیل کو بچانے کی خاطر پہلے سازش کی افواہ اڑائی گئی اور نو ماہ
پرانی دو ویڈیو ذرائع ابلاغ میں دکھائی جانے لگی ۔ ایک وائرل ویڈیو میں کچھ
لوگ پل کو زور سے ہلاتے ہوئے نظر آ رہے تھے اور دوسرے میں کچھ نوجوان پل کے
تاروں کو پاؤں مارتے ہوئے دکھائی دیئے۔ اس کے ساتھ یہ جھوٹا دعویٰ کیا گیا
کہ یہ دونوں ویڈیوز حادثے سے کچھ پہلے کی ہیں۔ ان ویڈیوز کا مقصد حادثے کے
لیے سازش کو ذمہ دار ٹھہرا کر عوام کو گمراہ کرنا تھا ۔ یہ افواہ اگر چل
جاتی تو جئے سکھ بے قصور ثابت ہوجاتاسانحہ کے ڈانڈے پی ایف آئی، القائدہ ،
داعش اور پاکستان سے جوڑ دئیے جاتے ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ پولیس اور مقامی
انتظامیہ کی تحقیقات میں یہ دعویٰ جھوٹا نکل گیا۔ راجکوٹ رورل آئی جی اشوک
یادو نے تصدیق کی وہ کہ دونوں ویڈیوز تقریباً 10 ماہ پرانے ہیں اور ان کا
30, اکتوبر کے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح گویا جئے سکھ کو بچانے
کی ایک کوشش تو ناکام ہوگئی مگر پھر بھی اس کا بال بیکا نہیں ہوا ۔
امسال اپریل میں گجرات کے ہمت نگر کے اندر رام نومی پر فرقہ وارانہ فساد
پھوٹ پڑے تھے ۔اس پر فوری انصاف دینے کی غرض سے میونسپل حکام نے غیر قانونی
ڈھانچوں کو گرانے کےلئے تجاوزات مخالف مہم شروع کی اور بلڈوزر چلا دیئے۔
حکام نے بتایا کہ سابر کانٹھا کے چھپریا علاقے میں تجاوزات کو ہٹانے کےلئے
بلڈوزروں کا استعمال کیا گیا۔ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں تو وزیر اعظم کے
فنڈ کی مدد سے بننے والے گھر پر بھی بلڈوزر چلا دیا گیا اور اتر پردیش کے
اندر یہ عام بات ہے۔ پریاگ راج میں بے قصور جاوید محمد کا گھر بلڈوزر سے
ڈھانے کے بعد ان پر این ایس اے لگا دیا گیا لیکن 140؍ افراد کی ہلاکت کے
ذمہ دار کا گھر اور بلڈوزر کے قہر سے محفوظ و مامون ہے ۔ کیا بی جے پی کو
چندہ دینے والوں کے سارے جرائم معاف ہوجاتے ہیں؟
جئے سکھ پٹیل کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اتنی بڑی تباہی مچانے کے باوجود
وزیر اعظم کے استقبال کی خاطر بہت بڑی ہورڈنگ لگاتا ہے۔ میڈیا میں ہنگامہ
کے بعد بی جے پی کو شرم آئی اور اس نے اسے ڈھانپ دیا۔ سوال یہ ہے کہ جئے
سکھ پٹیل سے بی جے پی اتنا ڈرتی کیوں ہے؟ اس کے پیچھے بھی سیاسی مفاد کار
فرما ہے ۔ یہ سانحہ شمالی گجرات میں پیش آیا ہے۔ وہاں پٹیل برادی کا
زبردست دبدبہ ہے۔ اس علاقہ سے 48؍ ارکان اسمبلی منتخب ہوتے ہیں۔ وہاں پر
24؍ حلقۂ انتخاب میں تو پٹیل ہی کامیاب ہوتے ہیں ۔ باقی مقامات پر بھی وہ
نتائج کو متاثر کرتے ہیں۔ پچھلے انتخاب میں وہیں پر بی جے پی کو سب سے
زیادہ نقصان ہوا تھا اور وہ ۹۹؍ پر آگئی تھی۔ پاٹی داروں کو خوش کرنے کی
خاطر نہایت نااہل بھوپندر پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ اب انتخاب سے قبل
جئے سکھ پٹیل کو گرفتار کرکے پاٹی دار رائے دہندگان کو ناراض کرنے کا خطرہ
بی جے پی نہیں مول لے سکتی ۔ اس لیے متاثرین کی امداد کا اعلان تو خوب
ہورہا ہے مگر قصور وار کو سزا دینے کی بات کوئی نہیں کرتا ۔ سیکولر جمہوریت
کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس میں انتخاب جیت اقتدار پر قابض ہونے کے لیے
کئی بار ظالموں کا ساتھ دینا پڑتا ہے اور فی الحال گجرات میں یہی ہورہا ہے۔
بی جے پی انتخابی فائدے کی خاطر موربی سانحہ کے اصل مجرم کو بچا رہی ہے ۔
اس غلطی کی اسے کیا قیمت چکانی پڑے گی یہ تو وقت بتائے گا۔ مودی جی نے
موربی میں جاکر جس طرح متاثرین کے زخموں پرجو نمک پاشی کی ہے اس پر غالب کا
مشہور شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
وہ آئے گھر میں ہمارے عجب مصیبت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
|