سماجی المیہ تجزیہ کار

سماجی المیہ
تجزیہ کار ۔۔۔ساجدہ فرحین فرحی

نیٹ فلیکس پر ایک ڈاکیومینٹری “ دی سوشل ڈیلیما “ یا سماجی المیہ نے کافی مقبوليت حاصل کی اِس ڈاکیومینٹری میں بات چِیت کرنے والے وُہ لوگ ہیں جو گوگل فیس بک یوٹیوب اور دوسرے سوشل نیٹ ورک کمپنیز میں بڑے عُہدوں پر خدمات انجام دے چُکے ہیں انکے خیالات اور تجربات وتجزیات کو کسی صورت رد نہیں کیا جاسکتا

نیٹ فلیکس پر ایک ڈاکیومینٹری “ دی سوشل ڈیلیما “ یا سماجی المیہ نے کافی مقبوليت حاصل کی اِس ڈاکیومینٹری میں بات چِیت کرنے والے وُہ لوگ ہیں جو گوگل فیس بک یوٹیوب اور دوسرے سوشل نیٹ ورک کمپنیز میں بڑے عُہدوں پر خدمات انجام دے چُکے ہیں انکے خیالات اور تجربات وتجزیات کو کسی صورت رد نہیں کیا جاسکتا

ڈاکیومنٹری کی ابتدإ میں ایک فکشن فیملی کی کہانی دیکھائی گئی ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے ڈاکیومنٹری کے شروع میں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلیاں میں بات کی جاتی ہے

مگر سوشل میڈیا کا دوسرا رخ جس کو ہم منفی رخ کہتے ہیں وہ بہت ہی ڈراؤنا ہےاور اگر ہم نے ایسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ ہمارے حال کے ساتھ مستقبل کو بھی خراب کر سکتا ہے ہماری موجودہ نسلیں خراب ہو سکتی ہیں اور ان کا مستقبل بھی خطرے میں ہے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے بچے ذہنی مسائل کا زیادہ شکار ہو جاتے ہیں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں فلٹرڈ سیلفیز کا اِستعمال اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ پلاسٹک سرجنز نے ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی ہے جس کو سنیپ چیٹ ڈسمورفیا کا نام دیا ہے کیونکہ یہ نوجوان بچے اور بالخصوص بچیاں پلاسٹک سرجری کے ذریعے اپنا چہرہ اپنی فِلٹرڈ سیلفیز کی طرح بنوانا چاہ رہے ہیں ۔
موبائل فون کا عمل دخل ہماری زندگی میں بہت بڑھ گیا ہے

دوسری چیز جس کے بارے میں اس ڈاکومنٹری میں بتایا گیا ہے وہ فیک نیوز ہے۔دُنیا کے تمام ممالک میں ملینز کی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا سے جُڑے ہیں جو کہ مجموعی طور پر بلینز کی تعداد میں بنتے ہیں ۔سوشل میڈیا کی دُنیا میں بظاہر لوگ ایک دوسرے جُڑے ہُوئے ہیں جو کہ درحقیقت اک سراب سے زیادہ کُچھ نہیں ہیں ۔ سوشل میڈیا میں تواتر سے آنے والی خبریں ہمارے ہیجان میں اضافہ کرتی ہیں اور بہت زیادہ تعداد ایسی خبروں کی ہے جو فیک نیوز کہلائی جاسکتی ہیں اور یہی فیک نیوز سوشل میڈیا کے ٹرینڈز بناتی ہیں ۔

گُوگل کے سابقہ ڈیزائن ایتھسسٹ ٹریسٹان ہیرس کہتے ہیں کہ “ اگر آپ لوگوں سے پوچھیں کہ آج کی ٹیکنالوجی سے انھیں کیا شکایت ہے کہ تو ان کا جواب کیا ہوگا ؟ ان کا جواب ہوگا فیک نیوز زیادہ ہوگئی ہے ان کا ڈیٹا اور پرسنل انفارمیشن چوری کی جا رہی ہے الیکشنز چوری کیے جا رہے ہیں ۔ الیکشنز چوری کرنے کی مِثال شاید ہمارے ممالک میں اور قِسم کی ہے یا ہوسکتی ہے لیکن ماڈرن جمہوری ممالک میں رویوں اور ری ایکشنز کو ایک خاص سِمت میں موڑ لینا ہی دراصل الیکشن مینپولیشن ہے ۔ میٹریکس فِلم اکثر لوگوں نے دیکھی ہوگی ؟ اُس فِلم میں لوگ ایک جِناتی میٹریکس میں زِندہ ہوتے ہیں لیکن اُنھیں اِس کا احساس نہیں ہوتا بالکل اِسی طرح ہم سب بھی ٹیکنالوجی کے میٹریکس میں بُری طرح پھنسے ہُوئے ہیں لیکن ہمیں اِس کا احساس نہیں ۔

تیسری بات جو ڈاکیومنٹری میں بتائی گئی ہے وہ سوشل میڈیا ایڈکشن ہے کہ سوشل میڈیا ہمیں اپنا عادی بنا دیتا ہےہمیں پتہ بھی نہیں چلتا اور ہم اس کے عادی بن جاتے ہیں جو کیمیکل ڈرگ استعمال کرنے پہ دماغ سے نکلتے ہیں وہی کیمیکل سوشل میڈیا استعمال کرنے سے ہمارے دماغ سے خارج ہوتے ہیں جب کوٸی ہماری پوسٹ کو لاٸیک کرتا ہے اس پر اچھے تبصرے کرتا ہے تو ہمارے دماغ میں ڈوپامین ہارمون خارج ہوتا ہے۔مگر ایسا نہیں ہے کے ہر وقت ہماری سب پوسٹ سب کو پسند آٸیں اور ہمیں اپنی مرضی کے تبصرے اور پسندیدگی نہیں ملتی تو ہم ڈیپریس ہونا شروع ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم پسندیدگی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں آپ نے شاید سوچا بھی نہ ہو کہ زیادہ تر سوشل میڈیا یُوزرز کے لئے لائیکس ، کوومنٹس اور تعریف کِسی آکسیجن سے کم نہیں اور لائیکس کی کمی اُنھیں نفسیاتی طور پر ڈپریس کر سکتی ہے ۔ سوشل میڈیا پر عدم توجہی کا شِکار خُود کُشی تک کر سکتے ہیں ایک نئی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ سوشل میڈیا اس کا اِستعمال ، نفسیاتی اور دماغی عارضوں کا براہِ راست تعلق بنتا ہے ۔
سوشل میڈیا بالکل بھی فری آف کاسٹ نہیں ہیں یہ سب سوشل میڈیا نیٹ ورک آپ کی توجہ پانے کے لئے ایک دوسرے سے مقابلے کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں

اس ڈاکومنٹری میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر آپ کسی پروڈکٹ کے لئے قیمت ادا نہیں کرتے تو آپ خود ایک پروڈکٹ ہیں آپ کا گزارا ہوا وقت سوشل میڈیا پران کے لیے پروڈکٹ ہے جسے وہ سیل کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا نیٹ ورک آپ کے دماغ میں اپنی مرضی کے خیالات داخل کرتے ہیں اس کے ذریعے آپ کے رویے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے آپ کا نظریہ اور آپ کی سوچ کو بدلا جا سکتا ہے
اور چوتھی چیز جو اس ڈاکومنٹری دیکھاٸی گٸی ہے کہ ہمیں پتا ہی نہیں ہے وہ ہمارا ڈیٹا ہماری معلومات حاصل کرکے اسے ہمارے ہی خلاف استعمال کرتے ہیں
آپ جو چیز بھی سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہوتے ہیں اس پر نظر رکھی جاتی ہے اسے ٹریک کیا جاتا ہے اور اس کو ناپا جاتا ہے جانچا جاتاہے آپ کی ہر چھوٹی سے لے کر بڑی ایکٹیویٹی کو ریکارڈ کیا جاتا ہے اسے مانیٹر کیا جاتا ہے
جب آپ کسی بھی سوشل میڈیا نیٹ ورکس فیس بک وغیرہ پر اسکرول کر رہے ہوتے ہیں تم وہ بھی نوٹ کیا جا رہا ہوتا ہے کہ آپ کیا چیز دیکھ کے کتنی دیر کے لے رکے
کیا پسند یا کیا نا پسند کیا شٸیر کیا
تاکہ وہ آپ کی شخصیت سمجھ سکیں وہ اسکے ذریعے آپکو جانچتے ہیں اور پہچانتے ہیں وہ آپ کے موڈ کو جان رہے ہوتے ہیں کب آپ خوش ہیں کب ناخوش ہیں کب ڈپریس ہیں وہ سب سے واقف ہوتے ہیں یہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہم سے زیادہ ہمارے بارے میں جانتے ہیں
سوشل میڈیا نیٹ ورکس آپ کا نیٹ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے آپ کی معلومات استعمال کرکے آپ کا ایک ڈیجیٹل خاکہ تیار کرتے ہیں جیسے Artificial Intelligence AI کہا جاتاہےجو آپ کے آن لائن نظرٸیے کی پیشگوئی کرتا ہے اور پھر اسی لحاظ سے آپ کو کونساکونٹینٹ دیکھانا چاہیے تجویز کرتا ہے اور اسے آپکے سامنےپیش کیا جاتا ہے
اور جو سوشل میڈیا کمپنی ہمارا جتنا مکمل ڈیجیٹل ماڈل تیار کرتی ہے اسکی کماٸی اتنی اچھی ہوتی ہے انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کب کیا کرنے والے ہیں
Artificial Intelligence ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جو
خود سے سیھکنےکی صلاحیت رکھتا ہے
اور خود سے مزید آگے بڑھتاجاتا ہے اور سسٹم سوشل میڈیا کمپنيوں کو پیسے کماکر دےرہا ہے
اکثر یہ AI ہمیں ایک ہی جیسا کونٹینٹ باربار دیکھاتا ہے اور انھیں اس سے کوٸی غرض نہیں کہ اسکا اثر ہم پر مثبت ہورہا ہے یا منفی انکار صرف ایک ہی مقصد ہے ہمیں اسکرین کےساتھ مصروف رکھنا جسمیں وہ کامیاب رہتے ہیں۔آپ نے نوٹ کیا ہوگا کبھی ہم ایک منٹ کا سوچ کا فون استعمال کرنے کےلے اٹھاتے ہیں اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا ہم ایک گھنٹہ فون استعمال کرلیتے ہیں دراصل ان چیزوں کو کچھ ڈیزائن ہی اسطرح سے کیا جاتا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوۓ بھی ان پر اپنا وقت لگادیتے ہیں
گُوگل کے سابقہ ڈیزائن ایتھسسٹ ٹریسٹان ہیرس
کہتے ہیں “ جِس وقت میں گُوگل میں تھا اس وقت میں جی میل کے سیکشن میں تھا اور وہاں ہر وقت ہم یہی ڈسکس کرتے تھے کہ اس کا انباکس کیسا دِکھنا چاہئیے اس کا فرنٹ کیسا ہو اس کا بیک گراؤنڈ کلر کیسا ہونا چاہئیے اِس کی وجہ یہی تھی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اپنا وقت جی میل پر گُزاریں ۔ وہاں موجود لوگوں کے فیصلے دنیا کے اربوں لوگوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں ۔ میری روٹین تھی روزانہ آفس سے گھر آکر لگ بھگ دو سے تین گھنٹے لگا کر میں جی میل کے اوپر پریزنٹیشن بناتا تھا کہ جی میل کیسا دکھے کہ ہم لوگوں کو مصروف رکھیں مگر اس کے عادی نہ ہوں اور میرے کولیگز بھی اس سوچ سےمتفق تھے اور یہ بات کسی نہ کسی طرح گوگل کے سی ای او “ لیری پیج “ تک پہنچی جنھوں نے میری سوچ کی تائید بھی کی مگر دن گُزرتے گئے اور اس کوئی عمل نہ ہوسکا ۔
گُوگل پر آپ کُچھ سرچ کرنے کے لئے ٹائپ کریں تو گُوگل آپ کو مُختلف آٹو فِل اوپشنز دیتا ہے جیسے آپ سرچ کریں
درحقیقت جو آپ سوچ رہے ہوتے ہیں آپ وُہی تلاش کرتے ہیں ، آپ وُہی پڑھتے ہیں یا پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ کیا ہے ؟ پہلے سے طے شُدہ ۔ ہر شے ۔ اچھا دلچسپ بات یہ ہے گُوگل بھی ہر خِطے کے اعتبار سے سرچ ریزلٹس الگ الگ دِکھاتا ہے ، یہی حال ہماری یُوٹیوب پر سامنے آنے والی ویڈیوز کا ہے کیونکہ یہ اے آئی ہمیں اور ہمارے رُجحانات کی خبر ہم سے بھی بہتر رکھتا ہے ۔
پانچویں چیز کے بارے میں اس ڈاکیومنٹری میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے دماغ کی کنڈیشنگ کی جاری ہے
سوشل میڈیا نیٹ ورک ہمارے دماغ کی پروگرامنگ کر رہے ہیں یہ لوگ ہمارے لاشعور کی بھی پروگرامنگ کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا ہم بار بار اپنا انسٹاگرام اپنا فیس بوک اپنا واٹس اپ چیک کر رہے ہوتے ہیں اور اپنا بہت قیمتی وقت لگا رہے ہوتے ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا ہم کتنا وقت لگا چکے ہوتے ہیں جو بھی عمل جو آپ غیرارادی طور پر کرتے ہیں یہ جب تک ممکن نہیں جب تک آپکی لاء شعوری طور پر پروگرامنگ نہ کی گٸی ہوآپکے دماغ کو کنٹرول کرکے آپکے رویے کو تبدیل کردیا جاتا ہے آپکے خیالات نظریات اور سوچ کو تبدیل کردیا جاتا ہےاور آپکو اسکا احساس بھی نہیں ہوپاتا۔اور یہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس اپنے فاٸدے کےلے آپکا استعمال کرتے ہیں اور کہنا ہے ان افراد جو ان سوشل میڈیا کے ادروں کافی عرصے تک اعلی عہدوں پر فاٸز رہے ہیں
سینڈی پاراکلاس جو فیس بُک کے سابق آپریشن مینجر اور اُوبر کے پراڈکٹ مینیجر رہے ہیں اُن کے بقول فیس بُک ، ٹوئیٹر یا دیگر کمپنیز میں بس مُٹھی بھر لوگ ہی سمجھ رکھتے ہیں کہ یہ سسٹم کیسے کام کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی مکمل طور پر اِس نظام کو سمجھنے سے قاصِر ہیں کہ کِسی خاص فارمولے کا خاص حِصہ کیسے کام کر پا رہا ہے یا کام کر رہا ہے ۔ اِس کا منطقی نتیجہ یہ سمجھ لیں کہ بطور اِنسان ہم اِن سسٹمز پر کنٹرول تقریباً کھو چُکے ہیں اور ہم سے زیادہ سسٹم ہمیں کنٹرول کر رہے ہیں چلا رہے ہیں ۔

فیس بک کے سابقہ ایگزیکٹو ، پرنٹ رسٹ کے سابقہ صدر اور موومنٹ کے سی ای او ٹِم کنڈال کہتے ہیں کہ “ 2006 میں مجھ سمیت فیس بک پر موجود ہر شخص گُوگل سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ اس نے جِس طرح اپنے آپ کو بلٹ کیا اور جس طرح وہ پیسہ بنانے کی ایک مشین سا بن چُکا تھا ہمیں اس پر رشک آتا تھا اس وقت فیس بک کو لانچ ہوئے دو برس گزر چکے تھے تب مجھے وہاں بہ طور مونٹائزیشن کا ڈائریکٹر لایا گیا تاکہ میں فیس بُک کو مونیٹائیز کر سکوں ۔
ورچوئل رئیلٹی کمپیوٹر سائنس کے بانی جیرن لینئیر کہتے ہیں فیس بُک یا گوگل وغیرہ جیسی کمپنیز دُنیا کی امیر ترین اور کامیاب ترین کمپنیز ہیں ۔ اِن کی کامیابی کی ماضی میں کوئی مِثال نہیں مِلتی ۔ دِلچسپ بات یہ ہے کہ اِن کمپنیز کے مُلازمین کی تعداد کوئی بُہت زیادہ نہیں ہے کیونکہ یہ سُپر کمپیوٹرز پر اِنحصار کرتی ہیں ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن کو پیسہ کِس چیز کا مِل رہا ہے ؟ یہ کیا بیچتی ہیں ؟
راجر میکنیم فیس بُک میں ابتدائی سرمایہ لگانے والوں میں سے ایک ہیں اُن کے بقول سلیکون ویلی کے پہلے پچاس سالوں میں کمپنیز پراڈکٹس بناتی اور بیچتی تھیں ۔ پراڈکٹس جیسا کہ ہارڈ وئیر ، سافٹ وئیرز وغیرہ اِن کو اپنے کسٹمرز کو بیچتی اور پیسہ کماتی تھیں لیکن اب پچھلے دَس سالوں سے سلیکون ویلی میں موجود ٹیکنالوجی کمپنیز اپنے صارفین کو فروخت کر رہی ہیں ۔

موزیلا فائر فوکس اینڈ موزیلا لیبس کے سابق ایمپلائی ، سینٹر فار ہیومین ٹیکنالوجی کے مُشترکہ بانی ایزا رسکن کہتے ہیں کہ چُونکہ ہم یعنی صارفین جو پراڈکٹس اِستعمال کر رہے ہیں اُن کے لئے ہم کُچھ ادائیگی نہیں کرتے بلکہ ایڈورٹائیز کرنے والے اُن پراڈکٹس کے لئے ادائیگی کرتے ہیں تو سیدھی بات یہ ہے کہ ایڈورٹائیزرز اِن پراڈکٹس ( سوشل میڈیا ) کے کسٹمر ہیں اور ہم یعنی صارفین وُہ اشیا ہیں جِن کو بیچا جا رہا ہے جیسے کہ ایک پُرانی کہاوت ہے ، “ اگر آپ کِسی شے یا پراڈکٹ کے لئے ادائیگی نہیں کر رہے ہیں تو دراصل آپ ہی وُہ پراڈکٹ یا شے برائے فروخت ہیں “
‏“ If you are not paying for the product then you are the product .”

گوگل کے سابق ڈیزائننگ ایگزیکٹیو کہتے ہیں کہ لوگوں کی زیادہ تعداد یہی سمجھتی ہے کہ فیس بُک اپنی اور دوستوں کی تصاویر لگانے کا نام ہے اور گوگل محض ایک سرچ انجن جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ دراصل یہ تمام کمپنیز ایک طرح کی ریس میں ہیں کہ کِس طرح آپ کا زیادہ سے زیادہ وقت سکرین پر حاصِل کِیا جا سکے اور آپ کی توجہ لِی جائے ۔

ٹوئیٹر کے سابق ایگزیکٹیو جیف سئیبرٹ کے مُطابق یہ سب مارکیٹنگ کی دُنیا ہے جہاں آپ کی توجہ کو بطور پراڈکٹ بیچا جا رہا ہے اور یہ سب کرنے کے لئے ڈیٹا درکار ہے ۔ آپ کا ڈیٹا ۔ آپ کیا سوچتے ہیں ، کیا پسند کرتے ہیں ، کیسی ویڈیوز دیکھتے ہیں ، کیا پڑھنا پسند کرتے ہیں ، کِس ویڈیو یا کِس فوٹو کو آپ نے کِتنی دیر تک دیکھا ۔ یہ سب ڈیٹا ہے اور یہ سب آرٹیفیشل انٹیلیجینس یا اے آئی ہے جو آپ کا یعنی بِلا مُبالغہ ہر اِنسان کا ایک ورچوئل امیج بنا کر اپنے پاس رکھتی ہے ۔ یہ مُستقبل کی پیش گوئی کرنا ممکن بنا رہی کے یعنی آپ کب کیسے سوچتے ہیں ، کب کیسا ری ایکٹ کر سکتے ہیں ، کیا پہننا پسند کرتے ہیں ، اُنھیں معلوم ہے کہ آپ کب خُوش ہیں ، کب افسردہ ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اُن کا ڈیٹا فروخت کِیا جاتا ہے ۔ فیس بُک سمیت بڑی کمپنیز کو یہ سُوٹ ہی نہیں کرتا کہ وُہ ڈیٹا فروخت کریں بلکہ جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ وُہ اِس ڈیٹا کے ذریعے آپ کا ورچوئل ماڈل تیار کرتے ہیں اور جِس کا ماڈل جِتنا زیادہ بہتر ہوگا وُہ کامیاب ہوگا ۔
آپ کِسی اِنسان کو کِس طرح اور کِتنی کامیابی سے قائل کر سکتے ہیں اور اِس قائل کرنے کی “ خُوبی “ کو ٹیک جائینٹس نے کِس قدر مہارت کے ساتھ اپنی ٹیکنالوجی اور ایپس میں اِستعمال کِیا ہے ؛ یہ قابلِ رشک و قابلِ تعریف ضرور ہے لیکن یہی اصل کہانی ہے اور یہی گیم ہے ۔ فیس بُک کی مِثال لے لیں ، ہر بار جب آپ اپنی اُنگلی کے ساتھ اِس ایپ کو یعنی “ اپنی “ نیوز فیڈ کو فریش کرتے ہیں تو کُچھ نیا ہی سامنے آتا ہے ۔ ایسا ہونا اِس لئے بھی ضروری تھا تا کہ یُوزر “ بور “ ہو کر کہیں اور مُنتقل ہونے کا نہ سوچ لے ۔ پازیٹو ری اینفورسمینٹ کا سہارا لے کر یُوزرز کو اِن ایپس کے ساتھ جیسے باندھ دِیا گیا ہے اور ہم یُوزرز اِس فیڈ بیک ( لائیک ، کوومنٹ اور شئیر ) کے اِتنے عادی ہو چُکے ہیں کہ اِس فیڈ میں کمی ہمیں ڈپریس کرتی ہے اور اِس فیڈ بیک کی زیادتی ہمارے ڈوپامین میں اِضافہ ؛ جِس سے ہمیں اچھا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کُچھ اچھا کِیا ہے ۔ ایک ہی دِن میں بار بار اپنی تصاویر لگانا ، ایک ہی جیسی باتوں کو بار بار لِکھنا ، کرنا یہ سب ایسے ہی ہے جیسے کوئی ماہر مداری اپنی اُنگلیوں پر اپنی کٹھ پُتلیوں کو نچا رہا ہو لیکن کٹھ پُتلیاں یہ سمجھ بیٹھیں کہ وُہ اپنی مرضی سے سب کُچھ کر رہی ہیں ۔ ویری فَنی ۔ تصور کریں کہ آپ یا میں جب اپنی حقیقی زِندگی میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں یا کہیں فیملی کے ساتھ تو ہمارا ہاتھ بار بار اپنی ڈیوائیس کی طرف اُٹھتا ہے کہ چیک کِیا جائے کہیں کُچھ “ نیا “ آیا ہو ! یہ ڈیزائین تکنیک ہے ۔ فوٹو ٹیگنگ بھی ایسا ہی ایک فیچر ہے ، مینشن کرنا بھی ۔ جب آپ کِسی کو ٹیگ کرتے ہیں یا مینشن کرتے ہیں تو سو فیصد چانس یہی ہے کہ وُہ اِس کو لازمی چیک کرے گا بھلے کُچھ ری ایکٹ دے یا نہ دے البتہ اگر آپ کِسی فلم سِٹار یا نہایت مشہور اِنسان کو ٹیگ یا مینشن کر رہے ہیں تو شاید وُہ زیادہ مصروفیت اور زیادہ ٹیگنگ یا مینشنز کی وجہ سے اِس کو چیک نہ کر پائے ۔
کیتھی اونیل ڈیٹا سائنٹسٹ ہیں ، پی ایچ ڈی ہیں اور ویپنز اوو میتھ ڈسٹرکشن نامی مشہور کِتاب کی مُصنفہ ہیں ۔ کیتھی کے بقول ایگوردھمز کو آپ محض کمپیوٹر میں اِنسٹال شُدہ حسابی طرز کے فارمولے نہ سمجھیں ۔ یہ رائے قائم کرنے ، رائے بنانے اور رائے تبدیل کرنے کے فارمولے ہیں ۔ ایلگوردھمز اوبجیکٹو نہیں ہیں بلکہ یہ ایک خاص لیول کی کامیابی حاصِل کرنے کی یقین دہانی رکھتے ہیں ۔ یہ تمام فارمولے تجارتی بُنیادوں پر اور مُنافع حاصِل کرنے کا ٹارگٹ ذہن میں رکھ کر بنائے جاتے ہیں اور یہ فارمولے ہر بار اپنی استطاعت کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔



 

Sajida farheen farhee
About the Author: Sajida farheen farhee Read More Articles by Sajida farheen farhee: 11 Articles with 5337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.