'' مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی کی دینی،علمی اور سیاسی خدمات '' تحقیقی جائزہ،
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
'' مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی کی دینی،علمی اور سیاسی خدمات '' تحقیقی جائزہ، محترمہ راحت جہاں صاحبہ ( پی ایچ ڈی مقالہ)
|
|
|
'' مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی کی دینی،علمی اور سیاسی خدمات '' تحقیقی جائزہ، |
|
'' مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی کی دینی،علمی اور سیاسی خدمات '' تحقیقی جائزہ، محترمہ راحت جہاں صاحبہ ( پی ایچ ڈی مقالہ) صدرالافاضل حضرت مولاناحافظ سید نعیم الدین نعیمؔ مرادآبادی چشتی اشرفی قادری برکاتی قدس سرہٗ ، حضرت سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہما کے خلیفہ تھے۔ آپ کی ولادت ۲۱؍ صفرالمظفر۱۳۰۰ھ بمطابق یکم جنوری ۱۸۸۳ء بروز پیر کو شہر مرادآباد میں ہوئی، اور آپ نے ۱۸؍ ذی الحجہ ۱۳۶۸ھ بمطابق ۲۳؍اکتوبر ۱۹۴۸ء بروز جمعہ کووفات پائی۔ آپ کاخانوادہ علم و فضل میں یگانہ تسلیم کیا جاتا تھا ۔ والد ماجدمولانا سید محمد معین الدین المتخلص بہ نزہتؔ مرادآبادی (م ۱۳۳۹ھ) اور جد امجد مولانا سید محمد امین الدین راسخؔبن مولانا سید محمد کریم الدین آرزوؔاپنے عہد کے مشاہیر علما و شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔ حضرت صدرالافاضل کی ابتدائی تعلیم و تربیت والد ماجد مولانا سیدمحمد معین الدین نزہتؔ مرادآبادی کی آغوش میں ہوئی۔ محض آٹھ سال کی مختصر سی عمر میں حافظ سید نبی بخش اور حافظ حفظ اللہ خاں کے پاس حفظِ قرآن کی تکمیل کی ۔ بعدہٗ مولانا شاہ فضل احمد امروہوی سے استفادہ کیا۔ دارالعلوم امدادیہ، مرادآباد میں مولانا سید گل محمد علیہ الرحمہ سے دورۂ حدیث مکمل کیا ۔ ۱۳۳۰ھ بمطابق ۱۹۰۲ء میں اس زمانے کے جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ سے آراستہ ومزین ہوکرتعلیم سے فراغت حاصل کی حضرت صدرالافاضل مولاناسید محمد نعیم الدین نعیمؔ مرادآبادی نے سلسلۂ عالیہ قادریہ میں اپنے استاذِ مکرم حضرت مولانا سید گل محمد علیہ الرحمہ سے شرفِ بیعت حاصل کیا ۔حضرت مولانا سید گل محمد علیہ الرحمہ نے بیعت کے بعد آپ کو حضرت سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہٗ (م ۱۳۵۵ھ) کے سپرد کردیا۔ حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ نے آپ سے روحانی اکتسابِ فیض کیا اور آپ ہی سے خلافت و اجازت حاصل کی۔ حضرت سید علی حسین اشرفی میاں کی اجازت سے صدرالافاضل علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ (۱۳۴۰ھ) سے بھی خلافت و اجازت حاصل کی۔ جہاں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے وہیں حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمیت اور نظریاتی برتری کو صدقِ دل سے قبول کیا کرتے تھے۔ اور آپ کے مخالفین و معاندین کا مسکت جواب دیتے تھے۔ اعلیٰ حضرت نے اپنے اس عقیدت مند اور جاں نثار کو بریلی میں طلب کیا ۔ اور زندگی بھر اپنا رفیقِ کار بنائے رکھا۔ حضرت صدرالافاضل نے بھی اعلیٰ حضرت کے مشن کو خلوص و للہیت کے ساتھ بڑی کامیابی و کامرانی سے آگے بڑھایا اور مسلمانانِ ہند کی سیاسی و مذہبی امور میں رہنمائی فرمائی۔ اعلیٰ حضرت کے مشہورِ عالم ترجمۂ قرآن ’’کنزالایمان ‘‘ پر ’’خزائن العرفان‘‘ کے نام سے جو تفسیری حاشیہ ہے وہ آپ ہی کے موے قلم کا ایک علمی شاہ کار ہے۔ آپ نے ۱۳۲۸ھ میں مرادآباد میں ’’مدرسۂ اہل سنت و جماعت ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ۱۳۵۲ھ میں اسی مدرسہ کو وسعت دیتے ہوئے ’’جامعہ نعیمیہ‘‘ کے نام سے مُعَنوَن کیا گیا۔ یہ دارالعلوم ہندوستان بھر میں تکمیلِ علومِ دینیہ کی ایک اعلیٰ درس گاہ تھی۔ اسی دارالعلوم کے فارغ طلبا آگے چل کر برصغیر میں دینی مدارس کے بانیان بنے۔مولاناسیدابوالحسنات احمد قادری، مولاناابوالبرکات شیخ الحدیث مرکزی حزب الاحناف لاہور، مفتی محمد عمر نعیمی دارالعلوم امجدیہ کراچی، حکیم الامت مفتی احمد یار خاںسالکؔ نعیمی گجرات، پیر محمد کرم شاہ دارالعلوم محمدیہ بھیرہ شریف، فقیہ اعظم مولانا محمد نور اللہ بصیر پوری، مفتی غلام معین الدین نعیمی(سوادِ اعظم، لاہور)مفتی محمد حسین نعیمی جامعہ نعیمیہ لاہور، مولانا غلام فخر الدین گانگوی ، مفتی عبدالرشید خاں فتح پوری وغیرہم علیہم الرحمۃ والرضوان حضرت صدرالافاضل کے گلستانِ نعیمیہ کے گل ہاے سرسبد ہیں۔حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ مفسر، فقیہ، محقق، شاعر، مصنف، مدرس، مہتمم اورمناظر کی حیثیت سے عالمِ اسلام میں مشہور ہوئے۔ عیسائی، آریہ ، روافض، خوارج، قادیانی اور غیر مقلدین کے مناظرین کو کئی بار شکست دی۔ آپ نے ملک کے سیاسی اور دینی مسائل میں عملی حصہ لیا ۔ ہر تحریک میں پیش پیش رہے۔ ماہ نامہ ’’سوادِ اعظم، مرادآباد‘‘ کے ذریعہ ایک عرصہ تک بالغ نظر دینی و عصری صحافت کا روشن نقوش مرتب فرماتے رہے۔ تاریخ سازآل انڈیا سنی کانفرنس کے بانی تھے اور آپ نے بنارس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آل انڈیا سنی کانفرنس اور اس سے وابستہ علماء و مشائخ نے قیام پاکستان کی تحریک میں بھر پور کردار ادا کیا۔اور تحریک پاکستان کی آخر تک حمایت جاری رکھی۔ آل انڈیا سنی کانفرنس برطانوی ہند میں اہل سنت کی ایک سیاسی جماعت کا نام تھا۔ مولانا نعیم الدین مرادآبادی نے 1925ء کومراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا ۔اور اس کے زیرِ اہتمام کئی اجتماعات منعقد کیے گئے۔ 17، 18 اور 19 مارچ 1925کو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔اور آل انڈیا مسلم لیگ کو تحریکِ پاکستان کے لیے مکمل حمایت دی گئ۔1946ء میں اہل سنت کے علما و مشائخ نے تاریخی آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں منعقد کی اور تحریکِ پاکستان کی مکمل حمایت کرنے کے لیے سنی علما کرام نے شرکت کی۔ محدث کچھوچھوی صدر آل انڈیا بنارس کانفرنس سید اشرفی جیلانی اہل سنت کے بہت بڑے رہبرورہنما تھے۔ تحریک آزادی کے دوران مسلمان علماء اور سیاستدان مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے کچھ انگریز نواز تھے تو کچھ انگریز دشمنی کے نام پر کا نگریس کے دوست اور اتحادی تھے۔لیکن مولانا احمد رضا بریلوی اور ان کے مکتب فکر کے علما و مشائخ کا یہی مؤقف رہا کہ برطانوی حکومت اور ہندو دونوں ہمارے دشمن ہیں ان کے مطابق، "ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں تھیں۔ " اصل میں یہی دو قومی نظریہ تھا۔بعد ازاں علامہ اقبال اور قائد اعظم نے یہی موقف اپناا اور پاکستان سنی علماء کے نظریے پر وجود میں آیا۔ آپ کی تصانیف میں سے خزائن العرفان، الطیب البیان، رد تقویت الایمان، الکلمۃ العلیائ، ہدایت کاملہ، التحقیقات، کتاب العقائد، سوانح کربلا، زادالحرمین ، آداب الاخیار، اسواط العذاب، الفرائد النور، گلبن غریب نواز، فیضانِ رحمت اور ریاض نعیم قابلِ ذکر ہیں۔دینی وملی، سیاسی وسماجی، تدریسی اور تبلیغی خدمات کے باوجود صدر الافاضل نے تقریباً دودرجن کتابیں بطور یاد گار چھوڑی ہیں۔ مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی کی حیات و خدمات پر جامعہ کراچی شعبہ علوم اسلامیہ سے 2000ء میں بعنوان ''مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی کی دینی،علمی اور سیاسی خدمات کا تحقیقی جائزہ'' کے نام سے محترمہ راحت جہاں صاحبہ نے اپنا پی ایچ ڈی تھیسسز مکمل کیا تھا۔جو استاذ العلماء حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی ناظم تعلیمات جامعہ نعیمیہ کی کوششوں اور کاوشوں سے پہلی بار 19 سال بعد کتابی شکل میں شائع ہوا۔
|