اکثر دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں ہونے والے جلسے ،
کانفرنس اور پروگرامس حالات حاضرہ اور حالات کی ضرورت کے برعکس ہورہے ہیں
اور موجود ہ وقت میں جن باتوں کے تعلق سے عوام کی رہنمائی کرنی ہے اس پر
ہماری تنظیموں ، اداروں اور انجمنوں کی نگاہ کم ہے بلکہ ان چیزوں پر ذیادہ
توجہ ہے جس سے انجمنوں ، اداروں اور تنظیموں کی واہ واہی ہو، انکو عزت ملے
یا پھر ان جلسوں اور کانفرنسوں کی آڑ میں انہیں پیسہ بٹورنے کا موقع ملے ۔
جیسا کہ آم کے سیزن میں آم کھائے جاتے ہیں ، امرود کے موسم میں امرود
کھاتے ہیں اور سیب کے موسم میں سیب کا استعمال ہوتاہے بالکل اسی طرح سے
مسلمانوں کو اب نوعیت بدلنے کی ضرورت ہے جس سے حالات بدل سکتے ہیں ۔ بھارت
میں اس وقت مسلمانوں کے جو حالات ہیں ان حالات میں مسلمانوں کی صحیح
رہنمائی کرنے کے لئے حالات کے تناظر میں ایسے عنوانات پر کام کرنے کی ضرورت
ہے۔اس وقت بھارت میں مساجد ، مدرسے اور شرعیہ قانون پر بار بار انگلیاں
اٹھائی جارہی ہیں ۔ خاص طور پر حکومتیں اور عدالتیں مسلمانوں کے پرسنل لاء
کو پرسنل نہ رکھتے ہوئے کامن لاء یا پبلک لاء میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہے
ہیں ۔ طلاق ، خلع ، نکاح جیسے معاملات پر کوئی بھی کچھ بھی بیان دے رہاہے ،
فیصلے لے رہے ہیں اور یہاں تک کہ اس میں صاف سیدھا مداخلت کررہے ہیں۔ ہر دن
کوئی نہ کوئی مسئلہ لے کر کو ئی عدالتوں کو پہنچ رہاہے اور وہاں پر اسلامی
قوانین کے تعلق سے صحیح جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے شریعت کا
مذاق بنایا جارہاہے ۔ جہاں تک غیر مسلم قانون دان یا قانون کی نمائندگی
کرنے والے وکلاء ہیں اگر ان سے ایسی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں تو الگ بات ہے
لیکن کئی ایسے معاملات سننے کو ملتےہیں جس میں خود مسلم وکلاء مسلم پرسنل
لاء کی بنیادوں پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں مثلاََ اگر کوئی خاتون خلع لے
لیتی ہے تو شریعت کے مطابق اس پر مینٹینس کا معاملہ نہیں پڑتا نہ ہی وہ
عورت اپنی بقیہ زندگی کے اخراجات کے لئے دعویٰ کرسکتی ہے کیونکہ اسے مرد کی
ضرورت نہیں تھی تو وہ مرد کی ذمہ داری سے خلع لے کر بری ہوجاتی ہے مگر یہی
عورتیں عدالتوں کارخ کرتے ہوئے مینٹینس کا معاملہ درج کرلیتی ہیں اور کئی
کئی سالوں تک سابق شوہروں سے مالی معاونت حاصل کرتی ہیں اسکا مطلب یہ ہوا
کہ عورت کو مرد نہیں بلکہ مرد کی کمائی میں سے حصہ چاہئے ۔ غور طلب بات یہ
ہے کہ یہ قانون اسلام کے عین مخالف ہے باوجود اسکے مسلم وکلاء جو شرعیہ
قانون جانتےہیں وہ بھی اس کام کے لئے سہارہ دیتے ہیں اور کبھی اس بات کی
کوشش نہیں کرتے کہ شرعیت کے خلاف ہونے والے ہر فیصلے کے لئے وہ خود بھی
برابر کے ذمہ دار ہیں ۔ ایسے میں کیرلا ہائی کورٹ نے مسلم پرسنل لاء بورڈ ،
مسلم علماء ، عمائدین اور مسلم قانون دانوں کو ایک اہم بات سوچنے کے لئے
مجبور کردیاہے جس میں عدالت نے یہ کہا ہے کہ جو عالم قانون کو جانتا نہیں
وہ کیسے کسی معاملے میں فیصلہ کرسکتاہے ۔ یقیناََ مسلمانوں کے بیشتر علماء
قانون کی ڈگری حاصل نہیں کئے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ وکلاء ہیں لیکن وہ اپنی
زندگی کا بڑا حصہ اسلامی قانون کو سمجھنے اور پڑھنے میں لگالیتے ہیں اور
شریعت کی باریک سے باریک بات کو سیکھے ہوئے رہتے ہیں ایسے میں ان سے یہ
سوال کرنا کہ کیسے آپ قانونی معاملات میں مداخلت کرسکتے ہیں جبکہ آپ کے
پاس قانون کی ڈگری نہیں ہے ۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جب ایک چائے بیچنے
والا ملک کا پردھان منتری ، دودھ بیچنے والا ریلوے منتری اور حل چلانے والا
شخص ملک کا صدر ہند بن سکتاہے ، جب ملک کے کئی علاقوں میں سرپنچ ہی سپریم
کمانڈ ر بن جاتا ہے اور کئی فیصلوں کو اپنے طورپر لیتا ہے تو کیونکر مسلم
علماء اپنی دین کے تحفظ کے لئے قانونی کارروائی نہیں کرسکتے ۔ ان حالات میں
مسلم تنظیموں ، اداروں اور انجمنوں کواس بات پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ
موجودہ حالات کے تناظرمیں وہ مسلم پرسنل لاء کے تعلق سے بیداری لانے ، طلاق
، خلع ، نکاح جیسے معاملات پر جلسے ، سمینار ، پروگرامس منعقد کریں تاکہ
مسلم پرسنل لاء کو سمجھنے کے لئے قانونی ادارے سامنے آئیں ۔
|