ممبئی کی شیوسینا سے تو ہر کوئی واقف ہے اور اب تو اس کا
ایک ہمزاد (کلون) بھی جنم لے چکا ہے۔ پنجاب کی شیوسینا(ٹکسالی) کا علم کم
لوگوں کو ہے۔ پچھلے دنوں امرتسر کے اندر پنجابی شیوسینا کے رہنما سدھیر
سوری کو ایک مندر کے باہر نامعلوم حملہ آور نے پانچ گولی مار کر ہلاک کر
دیا۔ مہذب سماج میں سزا دینے کا حق عدالت کو ہوتا ہے اس لیے سدھیر سوری کی
غلطی پر سزا دینے کا اختیار کسی فرد کو نہیں ہے۔ اس حوالے سے یہ قتل قابلِ
مذمت ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے کو سزا ہونی چاہیے۔ اس واردات کے سماجی
اور سیاسی پہلو کو سمجھنے کی خاطر تفصیلات کی معلومات ضروری ہے۔ قتل کا یہ
واقعہ دن دہاڑے ایک مندر کے باہر پیش آیا۔ سوری وہاں پر اپنی پارٹی کے دیگر
رہنماوں سمیت دھرنے پر بیٹھ کر احتجاج کر رہے تھے۔ ان کو وائی کیٹیگری کی
سیکیورٹی حاصل تھی یعنی پندرہ پولیس والے ساتھ رہتے اور پانچ گھر کی حفاظت
کرتے ہیں ۔
ابتدائی معلومات کے مطابق حملہ آور ایک ایس یو وی میں تین دیگر افراد کے
ساتھ اس مقام پر آیااور سوری پر پانچ گولی چلا کر فرار ہونے میں کامیاب
ہوگیا۔ اس کے بعدحالات پر قابو پانے کے لیے پولس نے عوام سے پرسکون رہنے
اور فرقہ وارانہ اپیلوں پر دھیان نہ دینے کی استدعا کی ۔ آگے چل کر امرتسر
پولیس نے ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرکےبتایا کہ مبینہ طور پر فائرنگ
کرنے والا سندیپ سنگھ جائے واردات کے قریب دوکان چلاتا ہے۔ اس کے پاس
لائسنس یافتہ اسلحہ تھا۔ پولیس کے مطابق سوری کوڑے دان میں ملنے والی ہندو
مورتیوں کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ یہ مندر شہر کے مصروف ترین
علاقہ مجیٹھا روڈ پر ہے۔ حملے سے قبل سدھیر سوری کا گوپال مندرمیں انتظامیہ
کے کچھ لوگوں سے مبینہ مورتیوں کی بے حرمتی پر یہ جھگڑابھی ہوا تھا۔ اس
حملے سے بمشکل ایک گھنٹہ پہلے وہ فیس بک پر لائیو تھا۔ اس نے اپنی ویڈیو
میں کہا تھا کہ اس طرح کی بے حرمتی کو برداشت نہیں کیا جائے گا ، چاہے ا س
کا ارتکاب کرنے والا ہندو ہی کیوں نہ ہو۔
سدھیر سوری انتخابی سیاست نہیں کرتے تھے لیکن اپنی متعصب تقاریر کی اور
ویڈیو پیغامات کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ اپنے اشتعال انگیز بیانات میں سکھ
تنظیموں اور خالصتان کے حامیوں کو تنقیدکا ہدف بناکربہت سارے سکھوں کو
ناراض کر رکھا تھا۔ سدھیر نے سکھ عقیدے اور برادری کے متعلق توہین آمیز
بیانات دے رکھے تھے۔ ان کو 2020 میں مدھیہ پردیش کے شہر اندور سے گرفتار
کیا جاچکا تھا۔ ان پر سوشل میڈیا میں وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی ایک
ویڈیو میں خواتین اورسکھوں کے عقیدے کو بدنام کرنے کا الزام لگایا گیا ۔ اس
سے ہندوستان اور بیرون ملک سکھ برادری میں ناراضی پھیل گئی تھی اور احتجاج
ہوا تھا۔ امسال جولائی میں بھی سدھیر کو اسی طرح کے الزامات میں دوبارہ سزا
سنائی گئی تھی۔اب پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ قتل کے ملزم سندیپ سنگھ کی کار
پر خالصتان کے حامی امرت پال سنگھ کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ وہ وارث پنجاب دے
گردوارہ کا سربراہ ہے ۔ امرت پال کو جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کا پیروکار
مانا جاتا ہے ۔سرکاری تحویل میں آنے والی گاڑی سے ایک ٹارگیٹ لسٹ بھی
برآمد ہوئی، جس میں کچھ اور نام بھی درج ہیں ۔ پولیس کے ذرائع اسے منصوبہ
بند حملہ بتا رہے ہیں ۔
سدھیر سوری کے حامیوں کا الزام ہے کہ یہ قتل خالصتانیوں نے کرایا ہے اور وہ
مزید کئی لوگوں کو مارنے کی سازش کررہے ہیں ۔ امرتسرمیں شری بالاجی دھام کے
مہامنڈلیشور اشنیل جی مہاراج کو کافی عرصے سے دہشت گردوں کی طرف سے دھمکیاں
مل رہی ہیں، لیکن پولیس نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔یہ الزام بھی
لگایا جارہا ہے کہ جب حملہ آور نے سدھیر سوری پر گولی چلائی تو موقع پر
موجود ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وریندر گوسا حملہ آور کو قابو میں کرنے کے
بجائے موقع واردات سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ سدھیر سوری کے حامی بھی امرت پال کا
نام لیتے ہیں جو ابھی حال دبئی سے ہندوستان آیا اور اس کو برسا خالصہ کا
چیف بنایا گیا تھا ۔ امرت پال پنجاب کے کئی اضلاع میں پروگرام کرچکا ہے ۔
دہشت پھیلانے والے اس انتہائی سنگین واقعہ سے دو دن پہلے مرکزی خفیہ
ایجنسیوں نے سدھیر کے نام دے خاص الرٹ جاری کیا تھا ۔ ان کی معلومات کے
مطابق پاکستانی آئی ایس آئی نے رندھاوا نیتا اور لاہور کے گینگسٹر کو
سدھیر سوری کے قتل کی سپاری دی تھی ۔ کچھ دن پہلے بھی پولیس نے سدھیر سوری
کے قتل کی سازش رچنے والے چار مجرم پیشہ افراد کو گرفتار بھی کیا تھا ۔
سدھیر سوری جیسے عظیم ہندتوا کے حامی رہنما کی ہلاکت کے اگلے ہی دن ہندو
ہردیہ سمراٹ وزیر اعظم نے امرتسر کے دورے کا منصوبہ بنایا اس میں آنجہانی
کے اہل خانہ سے ملاقات کا کہیں ذکر نہیں تھا ۔ مودی جی کی رعب داب کا یہ
عالم تھا کہ انہوں نے ہماچل پردیش جاتے ہوئے امرتسر سے بیاس میں واقع رادھا
سوامی ڈیرے پر جانے کا اعلان کیا تو اس کے جواب میں سکھ فار جسٹس نامی دہشت
گرد کہلائے جانے والے گروہ کےسربراہ گر پتونت سنگھ پنو کی دھمکی آگئی۔ ایک
ویڈیو پیغام میں اس نے وزیر اعظم کو کسانوں کا قاتل قرار دے کر خبردار کیا
کہ یہ گجرات نہیں پنجاب ہے۔ اس نے خود کو بیلیٹ ووٹنگ کا حامی بتا کر وزیر
اعظم پر بولیٹ ووٹنگ کی حمایت کرنے کا الزام لگایا۔ اس پیغام میں دھمکی دی
گئی تھی وہ جس زبان میں بات کریں گے اسی لہجے میں جواب ملے گا ۔ مودی جی کے
امریکی دوروں کے وقت وہاں جو کچھ ہوتا تھا وہ اب پنجاب دورے پر بھی ہونے
لگا ہے۔اس کے ساتھ رادھا سوامی ڈیرے کے سربراہ کو بھی وزیر اعظم سے نہیں
ملنے کی ہدایت کی گئی اور کہا گیا کہ اگر کوئی انہونی ہوجائے تو اس کے
لیےوہ خود ذمہ دار ہوگا۔ ویسے دورے کے وقت پنجاب کے کسانوں نے بھی اپنے غم
و غصے کا اظہار کرنے کے لیے پورے پنجاب میں وزیر اعظم کا پتلا پھونکنے کا
اعلان کردیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہر انتخاب کے وقت داود ابراہیم کی یاد آتی ہے مگر
وہ ترن تارن سے کناڈا جاکر بسنے والے لکھبیر سنگھ کا نام زبان پر نہیں لاتی۔
سدھیر سوری کی موت پر اس نے ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ تو بس آغاز ہے۔ اس نے
بھی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ سکھ یا کسی اور مذہب کے خلاف بولتے ہیں
وہ تیاری رکھیں۔ سبھی کی باری آئے گی۔ سیکیورٹی لے کر یہ نہ سمجھیں کہ بچ
جائیں گے ۔ ابھی تو شروعات ہوئی ہے حق لینا ابھی باقی ہے۔ پاکستان میں
بیٹھے ہروندر سنگھ عرف رندا کا لکھبیر سے سیدھا رابطہ ہے۔ پچھلے دنوں ترن
تارن کے اندر کپڑوں کے تاجر کا قتل ہوا تو اس میں لکھبیر کا نام میڈیا میں
گونجنے لگا۔ سدھیر سوری کے قتل کاالزام جن لوگوں پر لگایا گیا وہ لکھبیر کے
گروہ میں کام کرتے ہیں ۔ پاکستان میں موجود خالصتان کے حامی گوپال چاولہ
اور دیگر لوگوں نے سوری کے قتل پر سوشیل میڈیا میں خوشی کا اظہار کیا ۔
لدھیانا کے اندر مٹھائی تقسیم کی گئی اور اس کے خلاف ایف آئی آر طگی درج
ہوئی ۔ اس قتل پر بی جے پی رہنما جگموہن سنگھ نے ایک پھسپھسے بیان میں وزیر
اعلیٰ بھگونت سنگھ مان سے وزارت داخلہ چھوڑنے مطالبہ کیا حالانکہ انہیں
وزارت اعلیٰ کی کرسی سے دفع ہونے کے لیے احتجاج کرنا چاہیے تھا لیکن سنگھ
پریوار سے ایسی جرأت کی توقع ممکن ہی نہیں ہے۔
پنجاب کے اس واقعہ نے ہندتوا وادیوں کے بیانیہ کا کچومر نکال دیا ۔ ان کی
کہانی خوف سے شروع ہوتی ہے۔ وہ لوگ اپنی سیاست کو چمکانے کی خاطر ہندو سماج
کے اندر خوف پیدا کرتے ہیں ۔ دن دہاڑے ایک ہندو رہنما کا قتل ہوجائے تویہ
خیال توانا ہوتا ہے مگر فسطائی قوتیں جس خیالی دشمن سے لوگوں کو ڈراتے ہیں
وہ مسلمان ہے جبکہ یہاں پر قاتل سکھ ہے اس لیے آدھی بات تو غلط نکل گئی۔
اب کو آدھی بچی اس کا یہ حال ہے کہ سنگھ اپنے آپ کو ہندو سماج کے محافظ
کی حیثیت سے پیش کرتاہے اور انہیں یقین دلاتاہے کہ جب تک اقتدار ان کے
ہاتھوں میں ہے کوئی ہندووں کا بال بیکا نہیں کرسکتا ۔ اس سانحہ نے اس خام
خیالی کو دور کردیا۔ اس میں شک نہیں کہ پنجاب میں بی جے پی کی صوبائی حکومت
نہیں ہے لیکن مرکز میں تو وزیر اعظم کی لال آنکھوں سے چین بھی تھر تھر
کانپتا ہے ۔ وزیر داخلہ بھی امیت شاہ جیسا جانباز رہنما ہے ۔ اس کے باوجود
پنجاب میں جو کچھ ہوریا ہے اس کو ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس
طرح کے اکا ّ دکاّ واقعات سے نہ تو کوئی قوم عدم تحفظ کا شکار ہوجاتی ہے
اور نہ سرکار کچھ کرسکتی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی اور دوسری حکومتوں پر
کوئی فرق نہیں ہے ۔ وہ بھی دوسروں کی طرح ہے۔ اس لیے عوام کو سنگھ پریوار
کے اس پروپگنڈے سے پیچھا چھڑا لینا چاہیے۔ اسی میں ہندو سماج اور ملک کی
بھلائی ہے۔
|