اکتوبر کے وسط میں یہ خبر شائع ہوئی کہ مرد اور خاتون
امیدواروں کیلئے اگنی ویر وایو 2023 بیچ میں تقرری کے لئے اندراج کا عمل
نومبر کے پہلے ہفتے میں شروع ہوگا۔ فضائیہ کے مطابق آن لائن امتحان اگلے
برس جنوری کے وسط میں منعقد ہوں گے۔ اس خبر کو پڑھ کر ملک لاکھوں بیروزگار
نوجوانوں کے اندر امید کی ایک کرن پیدا ہوئی اور ان لوگوں نے روشن مستقبل
کے خواب سجانے شروع کردئیے لیکن کیا وہ کبھی شرمندۂ تعبیر ہوں گے ؟ کیونکہ
ڈیڑھ سال قبل منعقد ہونے والے امتحانات کے نتائج کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا
ہے۔ حکومت کے اشتہار اس کی وجہ اگلے دوماہ کے اندر ہماچل پردیش اور گجرات
میں ریاستی انتخاب کا انعقاد ہے۔ فی الحال بیروزگاری ایک مدعا ہے ایسے وزیر
اعظم کا ہنستا ہوا نورانی چہرا کے ساتھ اشتہار چھاپ کر مایوس نوجوانوں کے
زخموں پر مرہم رکھا جائے گا۔ ان کی جیب سے فیس کے نوٹ اور انگلی سے مع اہل
عیال ووٹ نکال کر اپنی تجوری میں بھر لیے جائیں گے اور آگے ٹائیں ٹائیں فش
۔ اس حکومت کا یہی شعار ہے۔
گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے 9؍سال قبل ’وکاس‘(ترقی) نامی بچہ کے
جنم لینے کی خوشخبری سنا کر اس کو اپنی انتخابی کامیابی سے مشروط کردیا ۔
ان کا مطالبہ تھا کہ اگر اقتدار کی شہزادی کے ساتھ بیاہ رچا دیا جائے تو ہر
آنگن میں وکاس نامی پھول کھل جائے گا ۔ اس دلفریب جملے کے جھانسے میں آ
کر عوام نے مودی جی کے ساتھ پھیرے کرواد یئے۔وہ ترقی کرکے وزیر اعلیٰ سے
وزیر اعظم بن گئے لیکن عام لوگ وکاس نامی لڑکے کو تلاش ہی کررہے ہیں کہ جس
کا نام و نشان غائب ہے۔ وکاس کو گوتم اڈانی نے اغوا کرکے یرغمال بنا رکھا
ہے۔زعفرانی اس کی محلوں میں پرورش پر خوش ہیں کیونکہ وہ کبھی کبھار کھڑکی
سے چند ٹکڑے ان کی جانب اچھال دیتا ہےاوریہ لوگ اسے اپنے لیے باعثِ سعادت
سمجھ کر آنکھوں سے لگا لیتے ہیں ۔ عام رائے دہندگان سمیت وزیر اعظم تک ہر
کوئی ’وکاس‘ کو پوری طرح بھول چکاہے ۔ اب نہ کوئی اس کا نام لیتا ہے اور نہ
’امیدسے ہے‘۔
وکاس گمشدگی کے معاملے میں اکیلا نہیں ہے۔اس کا چھوٹا بھائی نوٹ بندی ہے۔
ملک کے سارے ماہرین معاشیات اس پر متفق ہیں کہ نوٹ بندی اپنے اعلان کردہ
مقاصد میں ناکام ہوگئی۔ اس کے ذریعہ غریبوں کو زحمت دے کر امیروں کا سارا
کالا دھن سفید کردیا گیا اس کے باوجود ملک کی عوام نے بھرے چوراہے پر وزیر
اعظم کی انتخابی کامیابی سے گلپوشی کردی ۔ وہ وزیر اعظم جو ہاتھ جوڑ کر کہہ
رہا تھا کہ ’ میں تو فقیر آدمی ہوں جھولا اٹھاوں اور چلا جاوں گا ‘ سرجیکل
اسٹرائیک کرنے کے بعد پھر سے اقتدار میں لوٹ آیا۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور
اگنی ویر جیسے نہ جانے کتنے لاوارث بچے فی الحال بے یارو مددگار در در کی
ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔ اس کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی دو مرتبہ قومی
انتخاب جیت چکی ہے ۔ الیکشن جیتنے کے علاوہ ہر کام کو کیسے خراب کیا جاتا
ہے یہ تو کوئی مودی سرکار سے سیکھے لیکن چونکہ سارے تماشوں کا مقصد ہی
انتخاب جیت کر اقتدار پر فائز رہنا ہے ۔ اس لیے کمل والوں کو کوئی حزن و
ملال نہیں ہے۔
نوٹ بندی کی چھٹی سالگرہ پر جب لوگ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ان کے رونگٹے
کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کورونا تو خیر ایک آسمانی آفت تھی لیکن نوٹ بندی تو
اپنے ہاتھوں کی کمائی تھی۔ اس نے اس قدر تباہی مچائی کہ وزیر اعظم کو مگر
مچھ کے آنسو بہا کر کہنا پڑا میری نیت ٹھیک ہے ۔ آپ لوگ مجھے ۶؍ ماہ دیں
اور اگر یہ اسکیم ناکام ہوجائے تو جس چوراہے پر چاہیں پھانسی چڑھا دیں۔
حکومت نے نوٹ بندی کی یہ دلیل دی تھی کہ اس سے بدعنوانی پر لگام لگے گی اور
نقلی نوٹ بازار سے باہر ہوجائیں گے کیونکہ بڑے نقلی نوٹ چھاپنے سے سے زیادہ
فائدہ ہوتا ہے لیکن دوہزار کا نوٹ چھاپ کرکے سرکار نے اپنے دعووں کی تردید
کردی۔ نوٹ بندی کے وقت 86 فیصد کرنسی پانچ سو اور ہزار کے نوٹ میں تھی
جنھیں ایک رات میں ردی کردیا گیا۔ اس کے بعد دوہزار کے گلابی نوٹ آئے اور
انہیں بھی بدعنوانی کو کم کرنے کے لیے ہٹا دیا گیا۔ اس احمق حکومت کو معلوم
ہونا چاہیے کہ بدعنوانی کا خاتمہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس طرح بدعنوانی میں
کمی تو نہیں ہوئی ہاں حکومت کی نااہلی پھر ایک بار عیاں ہوکر سامنے آگئی۔
ایک دعویٰ یہ تھا نقدی کا چلن گھٹے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ 6 سال بعد عوام
کے پاس موجود نقدی 2016 کے مقابلے میں 72 فیصد زیادہ ہے۔ اس لیے سرکار کے
نام نہاد ماسٹر اسٹروک کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’کھایا پیا کچھ
نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ‘۔ نوٹ بندی کے دوران سرکار نے پانچ سو اور ایک
ہزار کے نوٹ بند کرنے کے بعد دوہزار کی کرنسی جاری کی تھی۔ اس کے اندر ایک
ایسی ’چِپ‘ کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ جس سے دہشت گردوں کو پکڑنے میں بھی
آسانی ہوجائے لیکن حالت یہ تھی کہ کوئلے کی دلالی میں جیسے ہاتھ کالے
ہوجاتے ہیں اسی طرح نوٹ کو چھونے سے انگلیاں گلابی ہو جاتی تھیں۔ ملک کی
تاریخ میں ناقص ترین کرنسی نوٹ شائع کرنے کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد وہ بھی
ننھے وکاس کی مانند بازار سے غائب ہونے لگے۔
نئی نوٹ کی پیدائش کے نو ماہ کے بعد ایوان بالا میں سماج وادی پارٹی کے
رہنما نریش اگروال کو اس پر تشویش ہوئی تو انہوں استفسار کیا کہ کیا حکومت
نے ریزرو بینک کو دو ہزار روپے کے نوٹ کی اشاعت بند کرنے کی ہدایت دی ہے۔
اس پر سابق مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایوان میں یقین دہانی کرائی کہ
دو ہزار روپے کا نوٹ بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس کے تین سال بعد
پھر سے دو ہزار کی نوٹ کے مفقود ہونے پر ایوان زیریں میں تشویش کا اظہار
کیا گیا تو وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر نے تحریری جواب میں بتایا کہ حکومت کا
ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حکومت کے اس بیان شکوک و شبہات کا اظہار اس لیے
کیا جارہا تھا کیونکہ 2017 میں تو 2000 کے نوٹ کی تعداد 328.5 کروڈ تھی مگر
اگلے ایک سال میں اس کے اندر صرف 80 کروڈ کا اضافہ ہوا ۔ اس کے فیصد کا
تناسب50سے گھٹ کر 37پر آ چکا تھا ۔ پچھلے دو سال میں تو ریزرو بنک آف
انڈیا نے دوہزار کا ایک نوٹ بھی نہیں چھاپا۔ پہلے اسے اے ٹی ایم سے ہٹایا
گیا پھر بنک سے غائب کردیا گیا اور اب وہ گدھے کے سر سے سینگ کی مانند
ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔
نئے نوٹ کی طرح اگنی ویر اسکیم نے بھی خوب تباہی مچائی ۔ بلند شہر کےطالب
علم محمد کامل نے ایک آرٹی آئی کے ذریعہ انکشافات کرکے حکومت کو برہنہ
کردیا ۔ سرکاری جانکاری کے مطابق انڈین ایئر فورس میں ایئرمین ‘ایکس’ اور
‘وائی’ گروپ کی بھرتی کے لیے گزشتہ سال کل 634249 امیدواروں نے درخواست دی
تھی۔ جولائی 2021 میں ان کا امتحان لیا گیا تھا، لیکن ان امتحانات کے لیے
معاہدہ پر مبنی ‘اگنی پتھ ملٹری ریکروٹمنٹ اسکیم’ کے پیش نظر نتیجہ جاری
کرنے کےعمل کوروک دیا گیا ۔ ہندوستان میں تین سال قبل بیروزگاری نے چالیس
سال کا ریکارڈ توڑ دیا تھا ۔ فوج کی بھرتی سے بھی بیروزگاری میں کمی آتی
تھی۔ پہلے سال میں دو بار اس کا امتحان ہوتا تھا، لیکن 2020 اور 2021 میں
صرف ایک بار ہوا تھا۔ سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق، ایک ماہ کے اندرنتیجے کا
اعلان کیا جانا تھا، لیکن اس مدت کے ختم ہونے کے بعد ویب سائٹ پر یہ اعلان
کردیا گیا کہ ‘انتظامی وجوہات سے نتائج کے اعلان میں تاخیر ہورہی ہے‘ اور
اب تو متعلقہ ویب سائٹ کو انٹرنیٹ سے ہٹا ہی دیا گیا تاکہ نہ رہے بانس اور
نہ بجے بانسری۔
یہاں مسئلہ صرف اتنے سارے طلباء کے مستقبل سے کھلواڑ ہی کا نہیں بلکہ ان کے
ذریعہ وصول کی جانے والی 158562250 روپے کی فیس کا بھی جس کو یہ بے حس
سرکار نہایت بے حیائی کے ساتھ ڈکار گئی۔اس امتحان کے نتیجے کی بابت جانکاری
طلب کرنے والے سوال پر ڈائریکٹوریٹ نے تسلیم کیا کہ اگنی پتھ اسکیم کے پیش
نظر یہ عمل روک دیا گیا اور ہندوستانی فضائیہ میں شامل ہونے کے لیے انتخاب
کا عمل فی الحال ‘اگنی پتھ اسکیم’ کے ذریعہ کیا جا رہا ہے۔ مرکز کی مودی
حکومت نے 14 جون کو ‘اگنی پتھ یوجنا‘ کا اعلان کیا تھا، جس میں ساڑھے 17 سے
21 سال کے بیچ کے نوجوانوں کو صرف چار سال کے لیے فوج میں بھرتی کرنے کا
اہتمام ہے۔ چار سال کے بعد ان نوجوانوں میں سے 25 فیصد کی ملازمت کو مستقل
کرکے باقی 75فیصد کو در بدر ٹھوکر کھانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ اس کے
خلاف کئی ریاستوں میں پرتشدد مظاہرے بھی ہوئے مگر سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی
۔
موجودہ سرکار وقفہ سے نت نئی حماقتیں کرتی رہتی ہے لیکن عوام اسے انتخاب
میں کامیاب کرکے اس کی حوصلہ افزائی فرماتے رہتے ہیں ۔ کورونا جیسی وبا کا
مقابلہ کرنے کے لیے مودی جی تالی اور تھالی بجانے کی تلقین فرماتے ہیں ۔
اچانک لاک ڈاون لگا کر لاکھوں مزدوروں کو پیدل ہزاروں کلومیٹر کے سفر پر
مجبور کردیتے ہیں ۔ ٹیلی ویژن پر بھاشن پر بھاشن تو ملتا ہے لیکن آکسیجن
سیلنڈر کے لیے لوگ در بدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں ۔ شمسان گھاٹ میں جگہ نہ
ملنے پر راستو ں اور میدانوں میں انتم سنسکار ہونے لگتا ہے۔ گنگا کے اندر
لاشوں کو تیرتے ہوئے دیکھ کر عوام کے ہوش اڑ جاتے ہیں مگر پھر اسی اتر
پردیش میں انتخاب کے آتے ہی سارے پاپ دُھل جاتے ہیں ۔ لوگ اپنا دکھ درد
بھول کر پھر سے کمل کھِلا دیتے ہیں۔ جس ملک کے عوام اس قدر صابر و شاکر یا
بے حس ہوں وہاں سرکار کو کام کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ نوٹ
بندی نے وکاس کو اگنی ویر بنا دیا پھر بھی حکومت کے کان پر جوں نہیں
رینگتی۔ دیش میں سب کچھ چنگا ہے۔
|