طارق ٹیڈی اور الحمرا

 اسٹیج اداکار طارق ٹیڈی کی ہسپتال میں داخل ویڈیو دیکھی تو حیرت کا شدید جھٹکا لگا معروف شوبز رپورٹر زین مدنی نے انکے بارے میں بتایاکہ طارق ٹیڈی ٹیڈی گذشتہ کئی روز سے ایک پرائیوٹ ہسپتال سے اپنا علاج کروا رہے ہیں مگر حالت سنبھل نہیں رہی جس پر وہاں کے ڈاکٹروں نے انہیں پی کے ایل آئی جانے کا کہہ دیا ہے لیکن ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ ہسپتال کا بقیہ بل ادا کر سکیں طارق ٹیڈی کی حالت اس وقت خراب ہوئی تھی جب وہ مال روڈ پر تھیٹر میں رات گئے ڈراما پرفارم کررہے تھے جس پر انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے آئی سی یو وارڈ میں شفٹ کیا تھا طارق ٹیڈی پاکستان کے تھیٹر کے مقبول مزاح نگاروں میں سے ایک ہیں جو اپنے تندو تیز جوابات کے لیے مشہور ہیں وہ پنجابی اسٹیج ڈراموں میں پرفارم کرتے ہیں اور فلم سلاخیں میں بھی اداکاری کر چکے ہیں ان کا تعلق فیصل آباد سے ہے طارق ٹیڈی مزاح نگار مستانہ کے سخت حریف رہے حالانکہ دونوں اسٹیج سے باہر گہرے دوست تھے 2015 میں ان کی اہلیہ عاصمہ نے عدالت میں ایک کیس دائر کیا جس کے نتیجے میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے طارق ٹیڈی کے مشہور ڈراموں میں چالاک طوطے( تین حصوں پر مشتمل)، ماما پاکستانی، سب کہو بارہ روپیہ ، ربا عشق نا ہووے، حسن میری مجبوری، جی کردا، اصلی طائی نقلی جھوٹ بولدا، مرچ مسالہ، گھونگھٹ اٹھا لوں، عید دا چن، ابھی تو میں جوان ہوں، کریزی ، مٹھیاں شرارتاں، خوش آمدید اور دوستی یادگار ڈرامے ہیں اب وہ بیماری سے لڑ رہے ہیں تو حکومت شائد انکی موت کا انتظار کررہی ہے کہ کب وہ دنیا سے کوچ کریں اور پھر حکومتی اہلکار تعزیت کے بہانے جاکر معمولی سی رقم کا چیک ان کے اہل خانہ کو تھما سکیں اور انکی تصویریں اخبارات اور ٹی وی کی زینت بنیں بعض اوقات گدھ اور ہمارے بے حس افراد کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا دونوں مردہ جسموں کا انتظار کرتے ہیں اور پھر نوچ نوچ کر مزے لیتے ہیں ببو برال ،مستانہ اورمحمود خان تو ہمارے سامنے اس دنیا سے گے ہیں یہ فنکار جب زندہ تھے تو ہماری سیلفیاں رکنے کا نام نہیں لیتی تھی مگر جیسے ہی حالات کے جبر کے نیچے آئے تو پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ محمود خان لاہور پریس کلب کے باہر اپنے گھر کے سامان سمیت فٹ پاتھ پر کئی دن بیٹھے رہے مگر کسی نے نہ سنی آخر کار موت نے انکی سن لی مگر موت سے پہلے انہیں ایسی اذیت دیکھنی پڑی کہ مالک مکان نے گھر کا کرایہ نہ دینے پر گھر سے نکال دیا اور یہ بے سروسامانی کے عالم میں سڑک پر رہنے پر مجبور ہوئے کچھ فنکار تو دردناک زندگی گزارنے کے بعدزندگی سے گزر گئے محمود خان کی وجہ شہرت انکا موٹاپا تھا وہ سٹیج پر اپنے پیٹ سے کامیڈی کرنے والے پہلے فنکار تھے محمود خان ساتھی فنکاروں کو پیٹ مار کر گرا دیا کرتے تھے اور یہ عمل عوام میں بے حد مقبول ہوا یہاں تک کہ ان کے فن کو بھارت میں بھی بہت پسند کیا گیا محمود خان کوجب مختلف بیماریوں نے گھیرا تب انکی کمائی اپنے علاج پر لگنا شروع ہوگئی جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا اور پھر پیسے بھی ختم ہوگئے حکومت نے بھی کوئی مدد نہیں کی ایسا فنکار جس نے تقریبا 40سال شوبز انڈسٹری میں کام کیا وہ فٹ پاتھ پر آگیا اسی طرح ٹی وی پر کام کرنے والی اداکارہ نرگس کو بھی مالک مکان نے گھر سے نکال دیا تھاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کا بہت بڑا نام تھا لیکن حکومت اور پی ٹی وی اسے ایک چھت بھی نہ دے سکا پر سب نے مل کر پی ٹی وی کی روشنی میں اپنا حصہ ڈالا تو اس دور کے تمام ڈراموں کا حصہ تھی ناقابل فراموش ،عمومی پیاس، لنڈا بازار اور خواہش انکے مشہور ڈرامے تھے لیکن انہوں نے انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزاری کھانے کو دو وقت کی روٹی میسر تھی اور نہ ہی گھر کا کرایہ دینے کو پیسے مالک مکان نے گھر سے نکالا تو وہ اپنے ایک بیٹے اور بیٹی کو لیے سڑکوں پر سوتی اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتی رہی حکومت سے امداد بھی مانگی مگر سب بے سود رہا اور وہ غم اٹھاتی ہو ئی دنیا سے رخصت ہوئی اسی طرح عالیہ چوہدری نے بدترین دن دیکھے کرونا میں جب تھیٹروں کو تالے لگ گئے تو وہ بے بسی کی تصویر بنی رہی کسی حکومتی نمائندے نے انکی مدد نہیں کی اور جو ادارے فنکاروں کی فلاح و بہبود کیلیے بنائے گئے ہیں وہ بھی صرف فنکاروں کے ساتھ بیٹھ کر تصویریں ہی بناتے رہتے ہیں ہمارے پاس فنکاروں کے حوصلہ افزائی کے لیے الحمرا آرٹ کونسل ہے جوالحمرا ہال، الحمرا کلچرل کمپلیکس، الحمرا آرٹ گیلری اور لاہور آرٹس کونسل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جسکاڈیزائن نیئر علی دادا نے بنایا تھا جو 1992 میں مکمل ہوا تھا الحمرا آرٹس کونسل لاہور، پاکستان میں نوآبادیاتی دور کی ایک سڑک پر واقع ہے جو پہلے مال روڈ کے نام سے مشہور تھی اوراب اس کا نام شاہراہ قائداعظم رکھ دیا گیا ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں پر تعینات ہونے والے کسی بھی سربراہ کا شوبز سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا جس طرح ہمارے ہسپتالوں میں ایم ایس ڈاکٹر ہوتا ہے جو مریضوں کے ساتھ ساتھ اپنے سٹاف کے مسئلے مسائل کو بخوبی سمجھتا ہے مگر الحمرا جیسے عظیم ادارے میں ہمیشہ ایسے افراد کو تعینات کیا گیا جو احساس محرومی کا شکار رہے انہیں صرف تصویریں کھنچوانے کے سوا اور کوئی کام نہیں یہ اداروں فنکاروں کی فلاح بہبود کی بجائے لوٹ مار کے مشن پر گامزن ہے یہاں چھتوں ،دیواروں اور مختلف کاموں کی ٹیپ ٹاپ کے لیے کروڑوں روپے خرچ کردیے جاتے ہیں یہاں کا آڈٹ اگر کسی ایماندار آ ڈیٹر سے کروایا جائے تو سوائے گھپلوں اور فراڈ کے کچھ نہیں ملے گا اور تو اور یہاں پر غیر قانونی طور پر تعینات ہونے والوں کو بھی کوئی پوچھتا نہیں کیونکہ کرپشن اور چور بازاری کے حمام میں سبھی ننگے ہیں اگر یہی ادارے اپنا کام صحیح انداز میں کرنا شروع کردیں تو ہمارے فنکاروں کی حالت کبھی خراب نہیں ہوسکتی وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی فنکاروں سے پیار اور محبت کرتے ہیں اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ الحمرا میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کسی فنکار کو لگائیں تاکہ یہاں کی رونقیں بحال ہوں اور ساتھ فنکاروں کی حوصلہ افزائی بھی ہوسکے گی
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 510101 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.