آخر کب تک


میرے سامنے کانچ کی گڑیا جیسی نرم و نازک دھان پان سے تقریبا 22سالہ نو جوان لڑکی بیٹھی تھی جو بار بار ایک ہی فقرا دہرا رہی تھی سر میں انسان نہیں ہو ں کیا، میں Hurt نہیں ہو تی کیا میری Feelings نہیں ہیں ، کیا مجھے درد نہیں ہوتا ، میں کو ئی بھیڑ بکری ہو ں اس کے نرم و نازک گالوں پر آنسوں کی آبشار مسلسل بہہ رہی تھی وہ بار بار اپنے دوپٹے کے پلو سے سوجھی ہوئی آنسوں سے لبریز آنکھوں کو پونچھتی اور روتی سسکتی گلو گیر آواز میں کہتی سر میں کو ئی میز کرسی ہوں سبزی منڈی میں کوئی پھل یا سبزی ہوں یا کسی سٹور میں گھر کے استعمال کی کوئی چیز ہوں میں پلیٹ بالٹی گلاس برتن ہوں میں کیا ہوں ۔ سر میں پچھلے تین سال کی ظالمانہ ڈرل سے تنگ آگئی ہوں میں ڈیکوریشن پیش کی طرح سج کر چائے اور لوازمات کی ٹرالی سجا کر رشتہ دیکھنے والوں کے سامنے آتی ہوں اور مجرم بن کر کھڑی ہو جاتی ہوں مجھے سر سے پاں تک گھورا جاتا ہے طنزیہ اور استزائیہ نظروں اور فقروں سے نوازا جاتا ہے اور بری طرح رجیکٹ کر کے دھتکار دیا جاتا ہے میں پچھلے تین سال سے روزانہ اِس پل صراط اور صحرا سے گز ر رہی تھی میرے باپ وفات پا چکے ہیں اب میں اپنی بیوہ ماں اور دو بہنوں کے ساتھ اِس اندھے بہرے معاشرے میں اپنی زندگی کی سانسیں پوری کر رہی ہوں سر میں اِن جلاد صفت عورتوں کا رویہ تحمل اور صبر سے برداشت کر رہی تھی لیکن تین دن پہلے ایک فیملی ہمارے گھر میرا رشتہ دیکھنے آئی ۔ میری ماں نے ہمارا پیٹ کا ٹ کر کچھ پیسے سمبھالے ہو ئے تھے آنے والے مہمانوں کے لیے چائے اور لوازمات تیا ر کئے اور میں حسب معمول چائے کی ٹرالی اور لوازمات لے کر اند ر گئی تو اندر ایک میا ں بیوی اور ان کی بیٹی بیٹھی ہوئی تھی پہلے تو انہوں نے ٹرالی اور اس پر پڑے لوازمات کو گہری اور تنقیدی نظروں سے دیکھا جو ہماری غربت کا منہ بولتا ثبوت تھی مختصر لوازمات ان کی طبیعت اور مزاج پر گراں گزرے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر منفی اشارے کئے میں مجرموں کی طرح بیٹھ گئی اور میری ماں حسب معمول ان کی خاطر مدارت اور خو شامد میں لگ گئی چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر لڑکے کی ماں نے پہلا حکم یہ صادر کیا کہ میں کھڑی ہو جاں میں نے حکم کی تعمیل کی اب وہ بھی کھڑی ہو گئی میرے ہا تھ پاں کو چیک کیا جس طرح جانوروں کو خریدنے سے پہلے اچھی طرح دیکھتے ہیں کہ اس کے ہا تھ پاں درست ہیں میری نظر ٹیسٹ کی اپنے سامنے چلا پھرا کر اور بٹھا کر خوب چیک کیا میرے وزن اور قد کا خوب اندازہ لگایا میرا منہ کھلوا کر میرے دانتوں کو چیک کیا اور اچھی طرح سونگھ کر دیکھا میرے منہ سے بد بو وغیرہ تو نہیں آرہی میرے بالوں کو کھینچ کھیچ کر چیک کیا کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی ہیں میری آنکھوں کو غور سے دیکھا کہ میں نے کہیں لینز تو نہیں لگا ئے ہو ئے میرے جوتے اتار کر اچھی طرح پیروں کا جائزہ لیا جب میں یہاں پاس ہو گئی تو اس نے عجیب پاگلوں والی حرکت کی مجھے بازو سے پکڑ ا اور باہر دھوپ میں لے گئی میرے چہرے پر پانی لگا کر رگڑ رگڑ کر دیکھا کہ میرا اصل رنگ کیا ہے اِس کے بعد میرے جسم کو ٹٹولنا شروع کر دیا اچھی طرح میرے جسم کو چیک کر نے کے بعد اندر آکر بیٹھ گئی اور بولی سیدھی سی بات شادی صرف لڑکی کے ساتھ نہیں ہو تی اس کے گھر والوں سے ہوتی ہے اب وہ میری ماں کو کٹہرے میں کھڑا کر چکی تھی اب اس جلاد صفت عورت نے اپنے مطالبے دہرانے شروع کر دیے وہ جہیز کے نام پر لمبے چوڑے مطالبے کر رہی تھی آخر میں اس نے جو بات کی اس نے مجھے اور میری ماں کو توڑ دیا اب اس نے ایک ایسا مطالبہ کیا جو میرے اور میرے ماں کے بس میں نہیں تھا وہ کہنے لگی عید بقرہ عید اور جو باقی تہوار آئیں گے ان دنوں پر میرے بیٹے کے لیے تحفے تحائف کو ن لائے گا کیونکہ میرے بڑے دو بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے جب بھی کوئی دن وغیرہ آتا ہے تو ان کے سسرال میرے بیٹوں کا گھر بھر دیتے ہیں تو آپ کیا کریں گی میری ماں نے التجا کی کہ میرا خاوند فوت ہو چکا ہے میرا بیٹا کوئی نہیں ہے رشتہ دار سب ہمیں چند دنوں بعد ہی چھوڑ چکے ہیں اِس لیے اب جو بھی ہو گا میں ہی کروں گی ۔ اب اس ظالم عورت نے بنک بیلنس اور جائیداد کے بارے میں انکوائری شروع کر دی لمبی چوڑی انکوائری بلکہ تفتیثش کے بعد اس نے اعلان کیا کہ ہم آپ کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے ہمارا بیٹا احساس کمتری کا شکار ہو جا ئے گا اس ظالم عورت کو اپنے بیٹے کے احساس کمتری کا احساس تھا کسی کی معصوم بیٹی کے احساس کمتری کا احساس نہ تھا اس نے بھی تین سالوں سے آتی عورتوں کی طرح انکار کیا اور جاتے جاتے کہہ گئی کہ میرے کزن کی بیوی فو ت ہو گئی ہے اس کے بچوں کو سنبھالنے والا کو ئی نہیں اگر آپ کہیں تو میں ان سے آپ کی بیٹی کے لیے بات کروں اس کے کزن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی ۔ میری ماں نے انکا ر کیا تو بکواس کر تی ہو ئی چلی گئی اور ہمیشہ کی طرح میری روح اور جسم کو ادھیڑ کر چلی گئی سر میں پچھلے تین سال سے انکا ر اور مسترد کر نے کے جہنم میں جل رہی ہوں ہر روز میری ماں کی آنکھوں میں امید کے چراغ روشن ہو تے ہیں لیکن انکار کے بعد ان کی آنکھوں کے چراغ بھی مدھم پڑھ جاتے ہیں اور ان کے سر میں چاندی کا رنگ اور گہرا ہو جاتا ہے سر کیا میں اور میری ماں انسان نہیں ہیں کیا ہمارے دل اور انا نہیں ہے کیا لڑکیاں بھیڑ بکریاں ہو تی ہیں کیا ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں ہو نا چاہیے سر کیا یتیم ہو نا غریب ہو نا جرم ہے اگر جرم ہے تو اِس میں میرا اور میری ماں کا کیا قصور ہے سر میں اور میری ماں انکار کی اِس دلدل میں ڈوبتے جا رہے ہیں ابھی تو میری ماں کے بالوں میں چاندی اتری ہے کل جب میرے بالوں میں سفیدی آئے گی تو شاید میں یا میری ماں خود کشی کر کے ہی اِس اذیت سے نجات پائیں سر آپ کے پاس اِس عذاب اور مشکل کا کو ئی حل ہے ۔ میں اور میری ماں جو دن رات دہکتے انگاروں پر لوٹ رہی ہیں کو ئی وظیفہ کو ئی عبادت ایسی ہے جو ہم اِس جہنم سے نکل سکیں سر کیا میں نا مکمل ہوں میں اپاہج ہوں میرے میں کیا کمی ہے ۔اس معصوم کا کرب دکھ اور بے بسی دیکھ دیکھ کر میں بھی بے بسی کیا انتہا پر پہنچ چکا تھا وہ سوالیہ نشان بنی میرے سامنے بیٹھی تھی اور میرے پاس اس کے سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا اس کی داستان غم سن کر میری آنکھیں نمناک ہو چکی تھیں ۔ میں نے محبت اور شفقت سے لبریز لہجے میں کہا نہیں میری معصوم بیٹی ادھوری یا اپاہج تم نہیں ہو، تم ایک مکمل اور خوبصورت بیٹی ہو تمھارا کو ئی قصور نہیں ہے، نا مکمل اور اپا ہج تو وہ لوگ ہیں جو اِس اندھے بہرے گلے سڑے معاشرے کی پیداوار ہیں ۔ جو جلادوں کی طرح انکار اور سو سو نقص نکال کر چلے جاتے ہیں مجھے وہ بے شمار بیٹیاں یا د آگئیں جو ہر روز مجھے ملتی ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ان کے چہروں پر نوجوانی کی تازگی کی جگہ جب خزاں آنے لگتی ہے اور بالوں میں چاندی اترنے لگتی ہے تو امید کے دیپ جلائے میرے یا میرے جیسے لوگوں کے پاس کشکول لے کر جاتی ہیں کہ ان کی خالی جھولی بھر جائے، مجھے بے شماروہ لڑکیا ں یاد آئیں کہ دس دس سال سے انکار کے بعد وہ نفسیاتی مریض بن گئیں پہلے تو نفسیاتی ڈاکٹروں کے پاس علاج کروا یا جب افاقہ نہ ہو ا تو چند بچیاں تو پاگل خانے تک پہنچ گئیں، وہ بے شمار بچیاں جن کا ذہنی توازن اِس شدید غم کو برداشت نہ کر سکا اور ان کو دورے پڑنے شروع ہو گئے ۔ ظالم لڑکے والے بلکل نہیں سو چتے کہ یہ نازک معصوم کانچ کی گڑیا ں جیسی اِس بے حس معاشرے کی بیٹیاں اِن کے انکار سے اِن کے ناز ک کانچ کے جسم ریزہ ریزہ ہو جا تے ہیں اور پھر پتہ نہیں کتنے دن یہ نازک بچیاں اپنے ریزہ ریزہ جسم کو اپنی نازک انگلیوں سے چنتی ہیں اپنے ماں باپ کی خوشی کے لیے پھر ظالم جلاد صفت لڑکے والوں کی ماں کے سامنے مجرم بن کر کھڑی ہو تی ہیں ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 737399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.