اختراعی معشیت

 علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
پاکستان کو دنیا کا پانچواں بڑا نوجوان ملک تصور کیا جاتا ہے جاپان، امریکہ، جنوبی کوریا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں یہ ہمارامنفرد اعزازہے پاکستان کی 63 فیصد آبادی 15 سے 33 سال کے درمیان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو حکومتی سرپرستی کے بغیر دن رات محنت میں مشغول ہے اور اس وقت اکثر پاکستانی فری لانسرز 5 ڈالرفی گھنٹہ کی کم شرح سے کام کر رہے ہیں جبکہ ڈیجیٹل معیشت میں یہ شرح 50ڈالرفی گھنٹہ ہے پاکستان میں تقریبا25ہزارنئے گریجویٹ ہر سال فری لانسنگ مارکیٹ میں شامل ہو رہے ہیں ہماری حکومت جدت، ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن پر توجہ دے تو ہمارا نوجوان ٹیلنٹ دنیا کو اس شعبے میں پیچھے چھوڑ سکتا ہے کیونکہ ہمارے پاس دنیا کی سب سے زیادہ نوجوان آبادی ہے جو باصلاحیت اور ٹیکنالوجی کی ماہر ہے اور عالمی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے حکومت اگر نوجوانوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے آسان نہیں بلکہ انتہائی آسان شرائط پر قرضے دے تو ایک وقت آئے گا کہ پاکستان زیادہ پیچھے نہیں رہے گا جبکہ پاکستان ویژن 2025 کا مقصدبھی یہی ہے کہ ملک میں نوجوانوں کی بڑی آبادی کی توانائیوں کو چینلائز کرنا اور ہموار کرنا اور ان کی بے پناہ ڈیجیٹل صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر جدید اور کاروباری علم پر مبنی صنعت کا قیام عمل میں لانا ہے اس حوالہ سے حکومت نوجوانوں کی ہنر مندی کے لیے صوبوں کے ساتھ 50 فیصد شیئرنگ کی بنیاد پر ملک بھر میں 250 ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی منظوری دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس قسم کا تعلیمی نظام پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی قوموں کے لیے کافی فائدہ مند ہو سکتا ہے چھوٹے پیمانے پر ایسے ادارے جو ڈپلومہ کی صورت میں معیاری تربیت فراہم کر سکتے ہوں یونیورسٹی کے مقابلے کم خرچ پر قائم کیے جا سکتے ہیں بڑے شہروں کی بجائے پاکستان کے چھوٹے قصبوں میں ان کا بنیادی ڈھانچہ ہونا چاہیے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ کیا جائے ہرسکول کی موجودہ سہولیات کو مختلف کورسز کے لیے استعمال میں لایاجا سکتا ہے پاکستانی طلباء کو نیشنل ٹاپ ٹیلنٹ اسکالرشپس پروگرام کے ذریعے دنیا بھر کی100 بہترین یونیورسٹیوں سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں کروائی جائیں بلخصوص ایسے ذہین نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند ہیں لیکن مالی مجبوریوں کی وجہ سے اعلیٰ یونیورسٹیوں کے لیے درخواست دینے سے قاصر ہیں ہماری نوجوان آبادی ملک کی صنعتی پیداوار، مسابقت، ملکی پیداوار اور برآمدات کو بہتر بنا سکتی ہے اور ساتھ ہی بیرون ملک ترسیلات زر میں بہت زیادہ اضافہ کر سکتی ہے اگر تربیت یافتہ اور ہنر مند افراد ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں شرکت کریں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی اور بقا اس کے نوجوانوں کی ترقی میں مضمر ہے کیونکہ وہ ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں اس لیے ہمیں نوجوانوں کے ذہنوں کو جدید تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنے کے لیے ایسے اقدامات کوآگے بڑھانا چاہیے ہمارے نوجوانوں کو ذمہ داری سے اثاثے میں تبدیل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان میں ریاستی سرمایہ کاری کی نجکاری کی جائے جبکہ ہمارے نوجوانوں کے اعلی مستقبل کے تعین میں چین پاکستان اقتصادی راہداری پائیدار بنیادوں پر پاکستان میں جدید معیشت کے تصور کو متعارف کرانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے جدید معیشت ٹیکنالوجی، علم اور انٹرپرینیورشپ کا مطالعہ ہے جو ترقی کا صنعتی تصور ہے جبکہ اختراعی معیشت اگلے درجے کا ایک فریم ورک ہے جہاں خیالات کو ڈیجیٹل مصنوعات میں تبدیل کیا جاتا ہے چین اختراعی معیشت کی بہترین مثال ہے چینی کمپنیوں نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈیجیٹل معیشت پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب وہ پوری دنیا کی خدمت کر رہی ہیں ہندوستان بھی اس وقت اپنی جدید معیشت میں ترقی کر رہا ہے مالی سال 2021-22 میں ہندوستان کی سافٹ ویئر کی برآمدات 150ارب ڈالر تک تھیں سی پیک پاکستان میں اختراعی معیشت کے تصور کو متعارف کرانے کا ایک اچھا موقع ہے سی پیک چین کو پاکستان کے راستے مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور یورپ سے جوڑے گا چین پاکستانی افرادی قوت اور چینی ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے پاکستان میں ایک ہائی ٹیک انڈسٹری بھی بنانا چاہتا ہے پاکستان کو سی پیک کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منصوبوں کے مزید مواقع تلاش کرنے کے لیے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے ہمارے تعلیمی ادارے کم ہنر مند افرادی قوت پیدا کر رہے ہیں جدید ٹیکنالوجی کو دریافت کرنے کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کی جائے پاکستان میں ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کا فقدان ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے ہم سمارٹ فونز کی اسمبلنگ کر رہے ہیں جسے اعلی ٹیکنالوجی کی پہلی لہر کہا جا سکتا ہے ہائی ٹیک آئی ٹی پروڈکشن کے ساتھ پاکستانی نوجوانوں کے لیے سافٹ ویئر کی تربیت بھی ضروری ہے اب تک پاکستانی فری لانسرز 5 ڈالرفی گھنٹہ کی کم شرح سے کام کر رہے ہیں اختراعی معیشت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فارغ التحصیل افراد کو 50 ڈالرفی گھنٹہ کمانے کے قابل بنا سکتی ہے امید ہے کہ مستقبل میں فری لانسنگ انڈسٹری انتہائی اعلی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کام کرے گی اور جدت طرازی کی معیشت صنفی تفاوت کو ختم کرنے میں مدد کرنے کے علاوہ خدمات کی تجارت میں جغرافیائی رکاوٹوں کو بھی کم کر سکتی ہے فری لانسنگ انڈسٹری میں خواتین بہت بہتر انداز میں کام کرسکتی ہیں ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ فری لانسرز کو اپنا کام شروع کرنے کے لیے صرف تخلیقی جگہوں اور عمارت کی سہولت کی ضرورت ہوتی ہے حکومت کو چاہیے کہ ہر ضلع میں ایک ٹیکنالوجی پارک بنائے جبکہ ہر ہائی سکول کو سمال ٹیکنالوجی پارک کا درجہ دیکر وہاں پر نوجوانوں کی آسان اور مفت رسائی کو یقینی بنایا جائے ہمارے ہاں جدت کی معیشت کے امکانات ہر شعبے میں موجود ہیں کیونکہ ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کی شمولیت ناگزیر ہے اس وقت ہمارے ہاں 25ہزار سے زائدگریجویٹ ہر سال مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں اور انہیں آمدنی پیدا کرنے والوں میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ان سب کی ضرورت صرف ایک عمارت،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت ہے جس کے بعد اختراعی معیشت میں یہ فری لانسرز مزید مہارتوں کے ساتھ آئیں گے اور دنیا میں اپنی مصنوعات اور خدمات فروخت کرنے کے لیے اپنی کمپنیاں قائم کریں گے۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 614489 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.