انسان یا شیطان۔۔۔۔؟

تمہیں اللہ ،رسولﷺ کا واسطہ میرے بیٹے کو مت مارنا۔۔!!
تمہیں جو چاہیئے وہ لے لو۔۔۔میرے بیٹے کو چھوڑ دو۔۔۔اَسے کچھ مت کہنا!!
ممتا کے درد سے چُور ایک ماں اغواءکا روں سے اپنے بیٹے کے لیے زندگی کی بھیگ مانگتی۔رندھی ہوئی آواز میں التجائیں اورفریادیں کرتی اپنے بیٹے کی جان بخشی کے لیے اپنی ساری متاع دینے کوتیارہے،رہ رہ کر وہ انھیں کہتی ہے :”میرے بیٹے کو چھوڑ دو۔۔!!“سامنے کوئی درندہ ہوتا توبھی پِگھل جاتا،وہاں توانسان کے بھیس میںدرندگی اور سفاکی کا نمائندہ تھا،قہروغضب کی علامت بنا ہوا تھاتبھی ایک ماں کی فریادوں کا اس پر کچھ اثر نہیں ہو سکا۔۔ہیلو!ہیلو!۔۔دوسری طرف خاموشی پا کراس کی بے چینی اور اضطراب دوچند ہوگیا،وہ ہیلو ہیلو کہہ کر رسیور کان سے لگاتی اور نمبرڈائل کرتے مسلسل زیرِلب اپنے بیٹے کی سلامتی کے لیے دعا کرتی جاتی۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی کہ جب زمین پرنا انصافی،بے حسی ،بد امنی اور انارکی پھیل جائے تودعائیں بھی کچھ نہیں کرپاتیں!!

اگلے روز کسی ویرانے سے بوری بند نعش ملتی ہے۔۔۔اِک ہنستابستا گھر برباد ہو جاتا ہے۔۔ایک اور ماں کی گود اُجڑ جاتی ہے۔پتہ چلتا ہے اردو اسپیکنگ ہونا مرنے والے کاجُرم تھا۔ماں کی ساری عمر کی مشقتوں، محبتوں کو لسانی تعصب نے موت کی گھاٹ اُتار ڈالا تھا ۔ماں اپنے بیٹے کی نعش سے لپٹ لپٹ کر پوچھ رہی تھی:”اس کا قصور کیا تھا ۔۔۔؟؟کیا اردو اسپیکنگ ہونا اس شہرِبے امان میں اتنا بڑا گناہ ہے کہ جس کی پاداش میں زندگی ہی چھین لی جائے۔۔۔تم میرے بیٹے کی زبا ن کاٹ ڈالتے۔۔اُسے جان سے نہ مارتے۔۔۔اُسے جان سے نہ مارتے!!“

یہ دلخراش منظر نہیں ہے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ،حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے اور انسانیت پر ایک بڑا سوال۔۔۔!اس ماں کی طرح کراچی شہر میں روز ہی ان گنت مائیں اپنے بیٹوں کی نعشوں پر فریاد کنعاں ہوتی ہیں،بہنیں اپنے بھائیوں کی ناگہانی موت پر روتی اور بلکتی ہیں،بچے اپنے پا پا کے آنے کا پوچھتے نہیں تھکتے۔۔۔لیکن حیوانیت کے مقتل پر لہو نہیں سُوکھتا،مرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہوتی۔۔۔حکومت اور سیاسی جماعتیں بیانات کی حد تک جتھے رہتے ہیں۔۔۔قانون ساکن کھڑا محوِتماشہ رہتا ہے اور جب پانی اپنی حد سے گزر جا تا ہے لاشوں کے انبار لگ جا تے ہیں توحکومت سرجیکل آ ُپریشن کا شوشہ چھوڑ کر عوام کے زخموں پر مرہم پٹی کرتی ہے لیکن تب تک لہو لہو رستے زخم ناسور بن چکے ہوتے ہیں۔۔۔قانون اصل مجرموں ،شرپسندوں اور دہشت گردوں کو پکڑنے کے بجائے عام آدمی سے کوٹہ پورا کرتا نظر آتا ہے اس میں زیادہ داخل کرپشن کا ہے حکومت،پولیس،رینجرز ہر جگہ ایسے عناصر موجود ہیں جو شرپسندوں،دہشت گردوں،ٹارگٹ کلرز،بھتہ خوروں اوربد امنی پھیلانے والوں کی پشت پناہی کررہے ہیںجن کے طفیل کراچی لہولہاں ہے۔انجانی موت کے خوف نے کراچی کی گلی کوچوں ویران کر دیا ہے ایک ایسا شہر جہان زندگی دن رات مسکراتی تھی آج کھنڈروں میں گُم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔۔کراچی کئی مہینوں سے سیاسی،لسانی چپقلشوں کی آگ میں جِل رہا ہے حکومت کا مجموعی کردار عوام کے لیے مایوس کُن ہے۔

کراچی کو کبھی مکمل امن وامان نہیں مل سکا ہر دور میں قتل وغارت گری کی شرح دوسرے شہروں کی نسبت یہاں زیادہ رہی ہے اور ہر دور میں کراچی میں بد امنی،خونریزی،انتشار،دہشت گردی ،شرانگیزی میں بلا واسطہ اور با واسطہ حکومت کا کردار رہا ہے ،گویا یہ کوئی سیاسی رسم ہے جو ہر نئی آنے والی حکومت دُہرانا لازمی سمجھتی ہے اور اسی رسم کی مہربانی سے آج کراچی دنیا کے غیر محفوظ تر ین شہروں میں تیسرے نمبر پر آموجود ہو ہے۔یہ با ت معاشی لحاظ سے خاصی تشویش ناک ہے کیوں کہ کراچی معاشی صنعتی سرگرمیوں کا پاکستا ن کا حب ہے سیاسی طور پر بھی اس کے اثرات سامنے آرہے ہیں عالمی میڈیا اس تناظر میں پاکستان کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہا ہے،پاکستانی میڈیا پر حکومت کی سیاسی حکمت عملیوں پر زور شور سے تبصرے ہو رہے ہیں،مارشل لاءکی بات ہو رہی ہے کہا جا رہا ہے کہ اگر کراچی میں امن وامان قائم نہیں کر سکتی تو فوج کو اس کا نظم ونسق سنبھال لینا چاہیےدوسری طرف کچھ لوگ مملکت کی ناکامی کی باتیں کر رہے ہیںباقی باتوں پر میں ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتی ماسوائے مملکت والی بات کے۔دراصل یہ ناکامی جسے مملکت سے ذبردستی جوڑا جا رہا ہے اصل میں حکومت کی اور حکومتی ڈھانچے کی ناکامی ہے۔۔۔مملکت نا تو کل ناکام تھی نا آج ناکام ہے!خیر سے ماہِ مبارک کا تیسرا عشرہ تیزی سے اپنے پَر سمیٹ رہا ہے۔رمضان المبارک سے قبل میں سوچ رہی تھی کہ ”اس مہینے میں لوٹ مار، بدامنی، دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں کمی ضرور واقع ہوگی کیونکہ ہمارے یہاں تمام بُرے کاموں کا الزام شیطان کے سر لگایا جاتا ہے اور ”شِر سے شیطان کا گہرا ہی نہیں ازلی تعلق رہا ہے“چونکہ اس مہینے سارے شیطانوں کو اللہ تعالٰی زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے تو لازمی امر تھا کہ شِر کے امکانات ازحد معدوم ہو جاتے۔۔!!لیکن میں حیران ہوں کہ اس مہینے میں کراچی میں دہشت گردی۔خون ریزی لوٹ مار اور سفاکی انتہائی حدووں کو پہنچ گئی ہے۔عام طور پر اگر کو ئی جرم،یاپھر غلط کام سرزد ہو جا تا ہے توہم کہتے ہیں ”بس شیطان نے بہکا دیا تھا“یا کچھ تو بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں ”سارا کیا دھرا منحوس شیطان کی وجہ سے ،جب با باآدم ؑاوراماں حوا کو نہیں اس نے بخشا تو میں کس کھاتے اس کے شَر سے بچ جا تا۔۔!!اس جیسے جملے یقینا آپ نے اپنے اردگرد سُنے ہونگے۔۔۔سارا الزام شیطان پر ڈال کر ہم صاف بچ نکلتے ہیں۔۔۔اب تو شیطان بیچارا آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے،اس کے ہاتھ پاﺅں بھی حرکت نہیں کر سکتے۔۔۔پھر بوریوں میں نعشیں کوں پھینک رہا ہے۔۔؟؟ٹارچرسیلز میں کون بے گناہ شہریوں کے جسموں کو داغ رہا ہے۔۔؟؟بد امنی،جلاﺅ گھیراﺅ اور ٹارگٹ کلنگ جیسے گھناﺅنے کام شیطان کی عدم موجودگی میں کون کر رہا ہے؟کیا ہم انسان درندوں سے بھی گئے گزرے ہو چکے ہیں؟؟کیا مذہبی ،انسانی اور اخلاقی قدریں زمیں میں دفنا دی گئی ہیں؟؟سوچئے!

اس مقدس مہینے میں بجائے اس کے ہم اپنی سرکشیوں کو لگام ڈال کر بھائی چارے کو فروغ دے کر ”ایک“ہوجاتے،منتشر صفوں میں اتھاد پیدا کرتے،دلوں سے نفرت،کدورت اورسیاسی اور لسانی تعصب کو نکال کر اخوّت اور محبت کی فصل کاشت کرتے،ہم نے اُلٹا نفرتوں کو ہوا دے کر اپنے ہی ہاتھوں اپنے گلشن کو جلانے کی قسم اُٹھا رکھی ہے۔۔۔۔ہڑتالیں ،مظاہرے اور جلاﺅ گھیراﺅ میں کہیں کوئی شیطان نہیں۔۔۔سب انسان کے سب انسان ہیں۔۔۔جو مر رہے ہیں وہ بھی اور جو مار رہے ہیں وہ بھی۔اب عام آدمی درندوں سے یا شیطانوں سے نہیں ڈرتا وہ تو اپنے جیسے انسانوں سے سہما ہوا ہے۔کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر شیطان بھی اللہ تعالٰی سے کہتا ہوگا:”دیکھ تیرے بندوں نے زمیں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے۔۔تُو نے ناحق مجھے زنجیروں میں جکڑا،شرانگیزی میں وہ مجھ سے چار ہاتھ آگے ہیں۔۔!!“واقعی اللہ شیطان کو رِہا کر دے تا کہ ہم انسانوں کے کردہ گناہوں میں سے کچھ کا قصوروار اسے ٹھہرایا جاسکے۔۔۔!!اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو!
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.