امیت شاہ : دہلی فساد اور شاہین باغ کا سبق بھول گئے

گجرات کا انتخابی کرکٹ اب پاور پلے کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اس میں پہلے تو وزیر اعظم نے بڑی انکساری سے پوچھا ان کی کوئی اوقات ہی کیا ہے ؟ اور پھر وزیر داخلہ نے بتادیا کہ ان کی اوقات آخر ہےکیا؟ امیت شاہ نے کہا 2002 میں ایسا سبق سکھایا کہ گجرات میں مستقل امن قائم ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ کس کو سبق سکھایا ؟ اور فسادی کون ہے؟ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے متعلق کہہ رہے ہیں لیکن وزیر داخلہ نے یہ بات کئی جگہ کہی ان میں سے نرودا پاٹیہ بھی ہے جہاں وہ پوجا کلکرنی کے لیے ووٹ مانگ رہے تھے۔ پوجا کے باپ منوج کلکرنی کو فساد میں ملوث ہونے کے سبب عمر قید کی سزا ہوئی ۔ بی جے پی نے اس فسادی کی بیٹی کو ٹکٹ دے کر ثابت کردیا کہ وہ فسادیوں کی حامی ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بی جے پی نے نہ تو سبق سکھایا اور نہ سبق سیکھا ۔ ورنہ ایک فسادی کو ٹکٹ دے کر امیت شاہ فسادیوں کی تعریف نہیں کرتے ۔ جہاں تک فساد کے خاتمہ کی بات ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی والے اقتدار میں آنے کے لیے فساد کرتے تھے ۔اب سرکار بن گئی تو دنگا فساد بند کردیا ۔

امیت شاہ نے انتخابی ہار سے گھبرا کر ایک ایسا بیان دے دیا کہ خود ان کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ پچھلے دنوں تیستا سیتلواد کی گرفتاری کے وقت بہت ہی معصوم چہرہ بناکر شاہ جی نے کہا تھا کہ ان سرکار نے فساد کو روکا تھا مگر سازش کے تحت انہیں بدنام کیا گیا ۔ اب وہ خود اس کی تردید کرکے یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ 2002 کا فساد ان لوگوں نے کرایا تھااور وہ ایک قابلِ تعریف اقدام تھا ۔ امیت شاہ یہ یہ بھول گئے کہ وہ فی الحال بھارتیہ دنگا پارٹی کے صدر نہیں بلکہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ ملک میں امن و سلامتی کا قیام ان کی ذمہ داری ہے تو کیا دائمی امن قائم کرنے کی خاطر پوری قوم فساد کی آگ میں جھونک دیں گے ؟ ایسا دعویٰ تو آج تک کسی ملک کے وزیر داخلہ نے نہیں کیا ہوگا ۔ یہ وہی فساد ہے جس کے سبب دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی تھی اوراس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ وہ تو وزیر اعظم کا عہدے انہیں اس قابل بنایا کل کو اگر وہ اقتدار سے بے دخل ہوجاتے ہیں تو پھر سے امریکہ میں قدم نہیں رکھ سکیں گے اور اب امیت شاہ نے بھی اپنے لیے وہ دروازہ بند کرلیا ہے۔

اس بیان میں دوسرا جھوٹ گجرات میں مستقل امن کا دعویٰ ہے ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں اسی سال رام نومی کے موقع پر ریاستِ گجرات میں کئی کئی مقامات پر فسادات ہوئے اور بی جے پی سرکار نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر بلڈوزر بھی چلایا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی فساد ہوا ہی نہیں تو اس کارروائی کی ضرورت کیا تھی ؟ کیا وہ صرف خبر بنانے اور بے قصور لوگوں کو ستانے کی خاطر کی گئی تھی؟ اس لیے کہ امیت شاہ کا اشتعال انگیز بیان اور گجرات سرکار کی وہ ظالمانہ کارروائی دونوں درست نہیں ہوسکتی۔ اس حقیقت کو بھلا کر اگر یہ مان لیا جائے کہ 2002 کے بعد گجرات میں فساد نہیں ہوئے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1993 کے بعد ممبئی میں فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ ایسے میں اگر داود ابراہیم دعویٰ کرے کہ دھماکوں کے سبب مستقل امن قائم ہوگیا توکیا وہ درست ہوگا؟ ایسے میں امیت شاہ اورداود ابراہیم میں کیا فرق رہ جائے گا؟

سبق سیکھنے سکھانے کی بات کریں تو وزیر داخلہ بہت دور بیس سال پہلے پہنچ گئے اور ابھی تین سال قبل دہلی فساد کے بعد عوام نے انہیں جو سبق سکھایا تھا اسے بھول گئے ۔ امیت شاہ نے کہا تھا کہ اتنی زور سے بٹن دباو کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ میں لگے۔ انتخابی نتائج آئے تو وہ خود ای وی ایم کے جھٹکے سے بے ہوش ہوگئے تھے ۔ دہلی کا تازہ فساد بی جے پی کو کامیاب نہیں کرسکا تو گجرات میں بیس سال پرانا فساد کس کام آئے گا؟ بظاہر اسی خطرے سے گھبرا کر شاہ جی اول فول بک رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی مدد کے لیے آسام سے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کو بلا رکھا ہے اور وہ اپنے آقا کے حکم پر گجرات کے اندر نہایت گھٹیا درجہ کی انتخابی مہم میں مصروف ہیں ۔سرما نے پہلے تو شردھا قتل کا معاملہ اٹھا کر کہا اگر ملک میں مضبوط قائد نہ ہو تو بے شمار آفتاب پیدا ہوجائیں گے ۔ اس احمقانہ بیان کو دیتے وقت وہ بھول گئے کہ گجرات میں قومی انتخاب نہیں بلکہ ریاستی الیکشن ہورہا ہے۔ وہاں پر بھوپندر پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے بی جے پی زور لگا رہی ہے۔ بھوپندر پٹیل اگر مضبوط قائد ہوتے تو ان کی مدد کے لیے ہیمنتا بسوا سرما کو آسام سے نہیں بلایا جاتا ۔ دوہفتوں تک وزیر داخلہ کو گجرات میں ڈیرہ ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور بار بار وزیر اعظم کو ریاست کا دورہ نہیں کرنا پڑتا ۔

اس بیان میں بسوا کی مراد اگر مودی جی سے ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آفتاب ممبئی کے قریب وسئی میں رہتا تھا ۔ شردھا کا قتل کرنے کے لیے وہ مودی کی ناک نیچے دہلی گیا اور شاہ سمیت کوئی اس کو روک نہیں سکا۔ مضبوط رہنما کے سبب اگر قتل و غارتگری رک جاتی تو نتیش کمار یادو اپنی بیوی کی مدد سے بیٹی آیوشی کا قتل نہیں کرتا ۔ دہلی کے پالم علاقے میں کیشو رونما ہونے والے ایک ہولناک واقعہ میں ایک شخص نے اپنی بہن اروشی، والد دنیش ،ماں درشن اور دادی دیوانو دیوانی کو چاقو مار کر ہلاک نہیں کر تا۔ اس لیے کسی قتل و غارتگری سے ڈرا کر عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنا بے حد شرمناک حرکت ہے۔ گجرات میں ایک اور ریلی سے خطاب کرتے ہوئے آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے کہا کہ اگر ہندو ایک سے شادی کرتا ہے تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی ایک ہی شادی کرنی پڑے گی۔ ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ ہونا چاہیے۔

بسوا کی یہ عجیب منطق ہے اس کے جواب میں اگر کوئی مسلمان یہ کہے کہ چونکہ وہ صرف ایک خدا کی عبادت کرتاہے اس لیے ہندووں کو بھی بے شمار دیوی دیوتاوں کی پوجا ترک کرنی ہوگی یا کوئی ملحد یہ مطالبی کرے چونکہ وہ کسی کو معبود نہیں مانتا اس لیے کو ئی بھی خدا کی پرستش نہ کرے تو کیا ایسا ممکن ہوگا؟ ہیمنتا بسوا سرما یہ مطالبہ تو کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کی مانند ہندووں کو بھی کثرت ازدواج کی اجازت دی جائے ۔ ویسے بلا اجازت بے شمار ہندو ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلق بنائے ہوئے ہیں ۔ بسوا سرما جیسے لوگ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ دھرمیندر کی دوسری بیوی ہیمامالنی کو رکن پارلیمان بنانے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔ہیمنتا بسوا سرما کی انتخابی مہم کس حدتک گر چکی ہے اس کا اندازہ ا ن کے راہل گاندھی پر کیے جانے والے نامعقول تبصرے سے ہوتا ۔

بسوا سرما کسی زمانے میں کانگریسی تھے مگر مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد پالا بدل کر گیروا چولہ اوڑھ لیا۔ امیت شاہ کے گھر پر کانگریس سے استعفیٰ کا اعلان کر کے انہوں نے کہا تھا کہ جب وہ راہل سے ملنے گئے تو وہ کتے کو بسکٹ کھلا رہے تھے ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ راہل کے نزدیک اس کی اہمیت کتے سے بھی کم تھی۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سرما کی حرکات و بیانات نےیہ بات ثابت کردیا کہ ان کے ساتھ راہل گاندھی کا سلوک مناسب ہی تھا کیونکہ اب وہ کہہ رہے ہیں راہل نے اپنی شبیہ صدام حسین کی طرح بنالی ہے ۔ انہیں اگر شبیہ بدلنی ہی تھی تو پٹیل ، نہرو یا گاندھی جی کی طرح بدلتے ۔ بسوا سرما کو پتہ ہونا چاہیے کہ صدام حسین اگر ان کی مانند دم ہلانے والے ابن الوقت ہوتے تو پھانسی نہ چڑھتے بلکہ سنگھ کے ہیرو ونایک دامودر کی طرح معافی نامہ میں خود کو امریکہ کا زر خرید غلام لکھ کر چھوٹ جاتے ۔ انسان کو دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے قبل اپنےگریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔

سرما کے شبیہ بنانے پر مودی جی کا مغربی بنگال میں رابندر ناتھ ٹیگور کا بھیس بدلنا یاد آتا ہے ۔ وہان کے رائے دہندگان جھانسے میں نہیں آئے بلکہ اس ڈھونگ کو مسترد کردیا ۔ سرما کو راہل سے یہ شکایت بھی ہے کہ راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا لے کر گجرات کیوں نہیں آئے یا ہماچل پردیش کیوں نہیں گئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح راہل گاندھی کوئی چناو جیوی(انتخاب زدہ ) تو ہیں نہیں کہ جہاں بھی انتخاب ہو پرچار منتری بن کر پہنچ گئے۔ سرما جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سبھی اپنے اوپر قیاس کرتے ہیں ۔ اس لیے فضول بکواس کرنے کے بجائے انہیں گجرات میں بی جے پی کی ستائیس سالہ کارکردگی پر ووٹ مانگنا چاہیے لیکن چونکہ وہاں تو زیرو بٹا سناٹا ہے اس لیےعوام کی توجہ بھٹکا کر انتخابی مہم چلائی جارہی ہے۔ کبھی آفتاب تو کبھی صدام حسین کو لایا جاتا ہے۔ کوئی فساد کی مددسے اپنی دلیری جھاڑتا ہے۔ اس میں انہیں کامیابی ملے گی یا وہ ناکام ہوجائیں گے یہ تو وقت بتائے گا۔ ویسے ابھی حال میں آسام اور میگھالیہ کی سرحد پر ہونے والی اموات پر سرما اور شاہ نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا اس سے عوام نے ان کا اصلی چہرا دیکھ لیا ہے۔ بعید نہیں کہ وہ اسے یاد رکھیں اور انتخاب میں بی جے پی کو سبق سکھائیں۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449041 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.