فریب کاری تو فریب کاری ہی ہوتی ہے مگرعام طور پر وہ اس
قدر صفائی سے کی جاتی ہے کہ کسی کو اس کا علم نہیں ہوپاتا۔ ویسے کچھ لوگ
دھوکہ دھڑی ایسے بے ڈھنگے طریقہ سے کرتے ہیں کہ فریب کھل جاتا ہے اور
بدنامی بھی ہاتھ آتی ہے۔ الیکشن کمشنر کے تقرر میں یہی ہوالیکن موجودہ
سرکار اتنی ڈھیٹ ہے کہ اس کوعدالت کی ڈانٹ پھٹکار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
حساس افراد معمولی سرزنش سے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں مگر کچھ بے حس ایسے بھی
ہوتے ہیں کہ جنھیں لاکھ جوتے پڑیں وہ ہنستے ہوئے دامن جھاڑ کر چل دیتے ہیں۔
مودی سرکار کا شمار دوسرے قماش میں ہوتا ہے ورنہ عدالتِ عظمیٰ میں سماعت کے
دوران اس قدر پھوہڑ طریقہ پر ارون گویل کا الیکشن کمشنر کے طور پر تقرر نہ
ہوتا ۔یہ جلدبازی شاہد ہے کہ حکومت کو خوف لاحق ہوگیا تھا کہیں عدالت کوئی
ایسا ضابطہ نہ طے کردے جس سے سرکار کے لیے اپنا من پسند الیکشن کمشنر مقرر
کرنا مشکل ہوجائےیا کوئی ایسا باضمیر اور نڈر فرد کا تقرر کرنا پڑے کہ جو
اس کے سُر میں سُر ملانے سے انکار کردے۔ اس اندیشے کے سوا عدالتی فیصلے سے
قبل اپنی من مانی کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ یہی سبب ہے
کہ عدالت میں اٹارنی جنرل کی بحث پر’عذرِ گناہ بدتراز گناہ ‘ والا محاورہ
صادق آتا ہے۔
جمہوری نظام میں عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے کا نعرہ
بلند کیا جاتا ہے لیکناس میں بھی منتخب شدہ حکمراں اپنی مرضی سے اپنے مفاد
کی خاطر ہی سرکار چلاتے ہیں البتہ حکومت سازی میں عوام کی رائے ضرور لی
جاتی ہے۔ اس رائے کو متاثر کرنے کی خاطر جو ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں
وہ ایک الگ بحث ہے لیکن عوام کی مرضی سے جوحکومت بنتی ہے اس کو چلانے میں
لوگوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ عوامی فلاح و بہبود کے کام جس طرح دیگر
نظامہائے حکومت میں ہوتے ہیں اسی طرح کم و بیش جمہوری طرزِ حکومت میں بھی
ہوتےہیں لیکن سرکاری نااہلی ٹھیکرا ہمیشہ جمہور کے سر پھوڑا جاتا ہے۔ فی
الحال جمہوری نظام کا تشخص متعینہ مدت کے بعد انتخاب کے انعقاد سے وابستہ
ہوکر رہ گیا ۔ اس لیے صاف ستھرا الیکشن جمہوری طرز حکومت کا ایک ناگزیز
ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطرالیکشن کمیشن کا قیام عمل میں آتاہے جو
انتخابات کاذمہ دار و نگہبان ہوتاہے۔
الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی مانند ایک آئینی ادارہ ہے اس لیے اسےخود مختاری
اور مکمل آزادی سے اپنا کام کرنا چاہیے۔ صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کی
خاطر الیکشن کمیشن ضابطۂ اخلاق نافذ کرنے کا مجاز تو ہے لیکن اس پر عمل
درآمد میں جانبداری کی شکایت عام ہوگیا ہے۔یہ ضابطۂ اخلاق گوکہ مخصوص
قوانین کے تحفظ سے محروم ہے اس کے باوجود بظاہر ہاتھ پیر مارتا ہے مگر اس
کی اثر پذیری محدود ہی ہوتی ہے۔ انتخابی عمل میں جرائم، دولت اور عہدے کے
غلط استعمال سے روکنا الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن گوں ناگوں
وجوہات کی بناء پر اس کو قابو میں رکھنا فی الحال اس کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس لیے دیگر سرکاری ادارے مثلاً سی بی آئی اور ای ڈی کی مانند یہ بھی بڑی
حدتک سرکار کا خدمتگار اور آلۂ کار ادار ہ بن کر رہ گیا ہے۔
آزادی کے بعد ابتداء میں کمیشن کے اندر میں صرف ایک چیف الیکشن کمشنر
ہواکرتا تھا۔ ترمیم ایکٹ 1989ء کے تحت الیکشن کمیشن کو سہ رکنی ادارہ
بنادیا گیا ۔ عام طور پر چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو کمشنر سبکدوش آئی
ایس آفیسر ہوتے ہیں جنھیں سپریم کورٹ جج کے برابر مراعات حاصل ہوتی ہیں۔
انوپ برنوال نے سنہ 2018میں الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے اور اس کی ساکھ کو
بچائے رکھنے کے لیے الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی ایک
تجویز سپریم کورٹ کے سامنے رکھی ۔ اس درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ
الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی میں قائد حزب اختلاف
اور چیف جسٹس کو بھی شامل کیا جائےنیز ایک آزاد اور غیر جانبدار سلیکشن
کمیٹی کی تشکیل کے لیے رہنما اصول جاری کیے جائیں۔
یہ کوئی انوکھا مطالبہ نہیں تھا ۔1975 میں جسٹس تارکنڈے کمیٹی نے سفارش کی
تھی کہ صدر مملکت الیکشن کمیشن میں تقررایک ایسی کمیٹی کے صلاح ومشورے سے
کریں جو وزیر اعظم ، ایوانِ پارلیمان میں حزب اختلاف کے رہنما اورچیف جسٹس
پر مشتمل ہو۔1990 میں دنیش گوسوامی کمیٹی نےالیکشن کمیشن میں تقرر کے لیے
چیف جسٹس اور حزب اختلاف کے رہنما جیسے غیر جانبدار لوگوں سے موثر تبادلۂ
خیال کی تجویز پیش کی ۔ انتظامی اصلاحات کے دوسرے کمیشن نے 2009 میں چیف
اور دیگر الیکشن کمشنر کے تقرر کی خاطر کالجیم تشیل دینے کا مشورہ دیا۔
یہاں تک کہ لاء کمیشن نے بھی 2015میں اپنی رپورٹ کے اندر اس کا اعادہ کیا ۔
اس لیے 23؍اکتوبر 2018 کو مذکورہ تقرری کے لیے کالجیم جیسی کمیٹی قائم کرنے
کی اس درخواست کو سماعت کے لیے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیجا تو گیا
مگر گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر پھر یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا
۔
چار سال سے زیادہ انتظار کے بعد جسٹس جوزف نے 17 نومبر کو اس معاملے کی
سماعت کا آغاز کیا۔ اس وقت استغاثہ کے وکیل پرشانت بھوشن نے عبوری درخواست
پر غور کرنے کی درخواست کی اور 22 نومبر کی تاریخ دی گئی۔ اس بات نے سرکار
کو بے چین کردیا ۔ اس نے آو دیکھا نہ تاو اور ہڑبڑاہٹ میں 19نومبر
کوسبکدوش آئی اے ایس ارون گوئل کو نیا الیکشن کمشنر مقرر کردیا ۔ ارون گوئل
60 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد 31 دسمبر 2022 کو ریٹائر ہونے والے تھے
لیکن اس کا انتظار کیے بغیر ڈیڑھ ماہ قبل 18 نومبر کو ہی ان کو استعفیٰ
دینے کے لیے کہا گیا نیزصدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری کے بعد انہیں
فوراً کمشنر کا عہدہ سونپ دیا گیا۔ یہ تقرری ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے کہ
جب گجرات میں یکم اور 5 دسمبر کو 2مرحلوں میں اسمبلی انتخابات کے بعد 8
دسمبر کو نتائج کا اعلان ہونا ہےاور فی الحال چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار
نیپال کے اندر وہاں کے انتخابی عمل کی نگرانی پر مامور ہیں۔ اس لیے حکومت
کے فیصلے پر شکوک و شبہات کا پیدا ہونا فطری عمل ہے اور یہی ہوا ۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی سے الیکشن کمشنر ارون گوئل کی
تقرری سے متعلق فائل عدالت میں پیش کرنے کو کہا تو انہوں نے عدالت کے اس
فیصلے پر اعتراض کیا۔ایڈوکیٹ جنرل تشار مہتا نے بھی حکومت کے بچاو میں کہا
کہ یہ فیصلہ روایت کے مطابق کیا گیا ہے۔ ضابطہ کی عدم موجودگی اس کو غیر
قانونی نہیں بناتی۔ عدلیہ اور مقننہ کے حدود مختلف ہیں۔ عدالت قانون بنانے
کا مشورہ تو دے سکتی ہے لیکن قانون سازی ایوانِ پارلیمان کا اختیارِ کامل
ہے وغیرہ وغیر لیکن جسٹس جوزف اس سے مطمئن نہیں ہوئے اور لامحالہ مذکورہ
فائل عدالت میں داخل کرنی ہی پڑی۔ جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی والی بنچ کو
تقرری میں حکومت کی جانب سے دکھائی گئی جلد بازی پرتشویش تھی۔ عدالت کا
سوال تھا کہ ایک ہی دن میں فائل کو کلیئرنس ملنے سے لے کر تقرری تک کیسے ہو
گئی ؟ جبکہ یہ عہدہ تو15 مئی سے خالی تھا اور تقرری کے عمل سے متعلق معاملہ
سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا۔ عدالت نے پوچھا کہ ’ہم جاننا چاہتے ہیں آیا
یہ تقرری مقررکردہ ضابطے کی تعمیل کرتے ہوئے کی گئی ہے یا نہیں‘ ؟
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران درخواست گزار انوپ برنوال کےوکیل پرشانت
بھوشن نے کہا کہ الیکشن کمشنر کی حیثیت سے سبکدوش افسران کا تقررکیاجاتا ہے
لیکن ارون گوئل تو حکومت کے سکریٹری تھے۔ 17 نومبر کو سپریم کورٹ نے اس
معاملے کی سماعت کی اور ارون گوئل کو 18 نومبر کو وی آر ایس دیا گیا۔ ان کی
تقرری کا نوٹیفکیشن 19 یا 20 نومبر کو جاری کر دیا گیا۔ انہوں نے 21 نومبر
سے کام کرناشروع کردیا۔ پرشانت بھوشن نے سوال کیا کہ اس معاملے میں کون
ساطریقہ کار اپنایا گیا؟ سماعت کے دوران جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ عام
طور پر وی آر ایس لینے والا ملازم تین ماہ کا نوٹس دیتا ہے۔اس پرشانت بھوشن
نے کہا انہیں شک ہے کہ ارون گوئل نے وی آر ایس کے لیے نوٹس بھی دیا تھا یا
نہیں۔ اس لیے گوئل کی تقرری سے متعلق دستاویزات عدالت کو طلب کرنا چاہیے۔
یہ سن کر اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی گھبرا گئے اور انہوں اعتراض کیا ۔ اس
پر جسٹس جوزف نے ان سے کہا اگر آپ کے خود کو صحیح کہنے کے دعویٰ میں صداقت
ہے توفائل داخل کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں ہونا چاہیے۔
وینکٹ رمنی کا تذبذب بجا تھا کیونکہ سرکار کی کتھنی اور کرنی میں بڑا فرق
ہوتا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سےقبل جلد بازی میں من مانی کرنے والی سرکار اب
بری طرح پھنس چکی تھی۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر جسٹس جوزف اس
معاملے میں اتنے سنجیدہ اور سخت کیوں ہیں؟ دراصل ان کے مطابق الیکشن کمشنر
کو اتنا آزاد اور غیر جانبدار ہونا چاہیے کہ اگر وزیر اعظم کے خلاف بھی
کارروائی کی ضرورت پڑے تو وہ ہچکچائے نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کا
انتخاب صرف کابینہ نہ کرے بلکہ کمیشن میں تقرری کے لیے ایک آزاد ادارہ
درکار ہے۔ یہ تو عدلیہ کی خواہش ہے لیکن حکومت چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن ان
کے اشاروں پر ناچنے والا کٹھ پتلی ہو اس لیے وہ بلاشرکت غیرے اس میں تقرری
کا اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے اور ایسی ہر مداخلت کی مخالف ہے جوکمیشن
کو آزاد اور خود مختار بنائے۔ عدلیہ اور مقننہ کی یہ جنگ کس نتیجے پر
پہنچے گی اس کا پتہ آئینی بینچ کے فیصلے سےچلے گا ۔ اس سے یہ بھی معلوم
ہوجائے گا الیکشن کمیشن تو دور خود عدلیہ کس قدر آزاد اور خود مختار ہے؟
|