منفرد آرمی چیف اور امیدیں

جنرل سید عاصم منیر نے پاک فوج کے 17ویں آرمی چیف کی حیثیت سے فوج کی کمان سنبھال لی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا 6 سالہ دور بطور آرمی چیف اختتام پذیر ہوا بطور آرمی چیف ان کے دور میں 5 وزیر اعظم تبدیل ہوئے اشفاق پرویز کیانی کے بعد جنرل باجوہ دوسرے آرمی چیف ہیں جنہوں نے مارشل لاء کے بغیر 6 سال تک فوج کی کمانڈ سنبھالی پاک فوج میں کمان تبدیلی کی تقریب جی ایچ کیو میں ہوئی جس کے آغاز پر ریٹائر ہونے والے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سب سے پہلے یادگار شہدا پر حاضری دی ہے جنرل عاصم منیر پاک فوج کے سینئر ترین تھری سٹار آفیسرہیں جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل ہیں نو منتخب آرمی چیف لیفٹینٹ جنرل سید عاصم منیر میں وہ پانچ باتیں جو جنرل عاصم منیر کو بطور آرمی چیف منفرد بناتی ہیں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایک طویل اور تھکا دینے والے مشاورتی عمل کے بعد آرمی چیف نامزد کر دیا ہے اور ان کے نام کی ایڈوائس منظوری کے لیے صدرِ پاکستان کے پاس بھیجی وفاقی حکومت نے جنرل عاصم منیر کی مدتِ ملازمت جو 26 نومبر کو ختم ہو رہی تھی اس میں بھی توسیع کر دی ہے جنرل عاصم منیر کے پاس چند ایسے اعزازات یا خصوصیات ہیں جو آج تک کسی آرمی چیف کو حاصل نہیں رہیں او ٹی ایس سے تعلق عام طور پر آرمی چیف لانگ کورس سے آنے والے جنرل بنتے ہیں مگر جنرل عاصم منیر لانگ کورس سے نہیں بلکہ او ٹی ایس سے آئے ہیں لانگ کورس سے مراد پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں منعقد ہونے والے دو سالہ کورس سے جس سے تربیت پا کر پاکستانی فوج کے افسران فوج کا حصہ بنتے ہیں یہ لانگ کورس ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈمی میں ہوتا ہے اس کے مقابلے پر ایک اور ادارہ او ٹی ایس یا آفیسرز ٹریننگ سکول کہلاتا ہے جو پہلے کوہاٹ میں ہوا کرتا تھا بعد میں منگلا منتقل ہو گیا جنرل عاصم منیر آفیسر منگلا میں ٹریننگ سکول سے پاس آؤٹ ہوئے جس کے بعد انہوں نے فوج میں فرنٹئیر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا او ٹی ایس پروگرام 1989 کے بعد ختم کر دیا گیا تھا اور 1990 میں آفیسر ٹریننگ سکول کو جونئیر کیڈٹ اکیڈمی کا درجہ دے دیا گیا اس سے قبل جنرل ضیاء الحق کے دور میں او ٹی ایس سے پاس آؤٹ ہونے والے جنرل عارف بھی فور سٹار جنرل بنے تھے لیکن آرمی چیف نہیں جنرل عاصم منیر پاکستان کے وہ واحد آرمی چیف ہیں جو چیف بننے سے قبل دو مختلف انٹیلیجنس اداروں کے سربراہ رہے ہیں جنرل عاصم منیر 25 اکتوبر 2018 سے 16 جون 2019 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے اس کے علاوہ وہ ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں اس سے قبل آئی ایس آئی کے سربراہ تو آرمی چیف بنے ہیں مثال کے طور پر جنرل اشفاق پرویز کیانی مگر کوئی ایسا سربراہ نہیں آیا جو دو انٹیلیجنس اداروں کا سربراہ رہا ہو اور ان سے قبل کوئی آرمی چیف ایسا نہیں گزرا جس نے شمشیرِ اعزاز یا سورڈ آف آنر حاصل کیا ہو یہ وہ اعزاز ہے جو جنرل عاصم منیر کے پاس ہے شمشیرِ اعزاز وہ اعزازی تلوار ہوتی ہے جو پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹوں میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر دی جاتی ہے اس اعزاز کا حصول ہر کیڈٹ کا خواب ہوتا ہے اور اسے پانے کے لیے ان کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا ہے یہ شمشیر مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کی بنیاد پر دی جاتی ہے جنرل عاصم منیر وہ پہلے آرمی چیف ہیں جو کوارٹر ماسٹر کے عہدے پر فائز رہے ہیں فوجی اصطلاح میں کوارٹر ماسٹر وہ عہدہ ہے جو فوجیوں کو مختلف قسم کا ساز و سامان فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اس ساز و سامان میں اسلحہ، گولہ باردو، فوجی گاڑیاں، وردیاں، وغیرہ شامل ہوتی ہیں اور جو خوبی جنرل عاصم منیرکو سب سے نمایا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے آرمی چیف ہیں جو حافظ قرآن ہیں بھی جنرل عاصم کے والد بھی حافظ قرآن تھے جبکہ آپ کے دو بھائی بھی حافظ قرآن ہیں آج تک پاک فوج کی کمان کرنے والوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک پاک فوج کی کمان کس کس کے ہاتھ میں کتنی مدت کے لیے رہی 1972 میں تعینات ہونے والے جنرل ٹکا خان کی سربراہی سے قبل آرمی چیف کا عہدہ کمانڈر ان چیف کے طور پر جانا جاتا تھا۔1947 سے 1972 تک پاک آرمی کے 6 کمانڈر ان چیف رہے ملک کے سب سے پہلے کمانڈر ان چیف کا نام جنرل سر فرینک میسروی تھا دوسرے کمانڈر ان چیف جنرل ڈگلس گریسی نے 1948 سے لے کر اپریل 1951 تک اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔1951 میں تعینات ہونے والے جنرل ایوب خان پاکستان کے پہلے فور اسٹار جنرل اور فیلڈ مارشل تھے۔1958 میں تعینات ہونے والے کمانڈر ان چیف جنرل موسیٰ خان 8 سال تک تعینات رہے ملک کے پانچویں آرمی چیف جنرل یحییٰ خان 18 ستمبر 1966 سے 20 دسمبر 1971 تک ملک کے سپہ سالار رہے۔چھٹے کمانڈر ان چیف جنرل گل حسن خان قومی تاریخ کے سب سے مختصر مدت ایک سال کے لیے فوجی سربراہ بننے والی شخصیت ہیں۔جو 20 دسمبر 1971 سے 2 مارچ 1972 تک فوجی سربراہ رہے جبکہ نئے آنے والے آرمی چیف جنرل ٹکا خان 3 مارچ 1972 سے یکم مارچ 1976 تک اس عہدے پر رہے اس کے بعد یکم مارچ 1976 کو جنرل ضیاء الحق کو اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی چیف تعینات کیا جنرل ضیاء الحق نے 5 مئی 1977 کو مارشل لاء لگایا جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی جنرل ضیاء نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے یعنی 11 سال سے زائد تک آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا تھا۔17 اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق کی طیارہ گرنے سے ہلاکت کے بعد جنرل اسلم بیگ ملک کے 9 ویں آرمی چیف بنے تھے انہوں نے اگست 1988 سے لے کر اگست 1991 تک اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اس کے بعد جنرل آصف نواز کو 16 اگست 1991 کو آرمی چیف تعینات کیا گیا انہوں نے جنوری 1993 تک اپنی ذمہ داریاں ادا کیں جس کے بعد جنرل عبدالوحید کاکڑ 1993 سے جنوری 1996 تک آرمی چیف تعینات رہے۔12ویں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے جنوری 1996 سے 1998 تک ذمہ داریاں ادا کی۔13ویں آرمی چیف پرویز مشرف اکتوبر 1998 سے لے کر نومبر 2007 تک پاک فوج کے سربراہ رہے۔اس کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی 2007 سے نومبر 2013 تک فوج کے سپہ سالار رہے جس کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نومبر 2013 سے نومبر 2016 تک فرائض انجام دیے ملک کے 16 ویں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنا عہدہ نومبر 2016 کو سنبھالا تھاجو 29 نومبر 2022 تک آرمی چیف رہے پاکستانی عوام کو آرمی چیف سے بہت سی امیدیں ہیں کہ ملک کے چوروں کا احتساب کرکے لوٹا ہوا پیسہ واپس دلائیں تاکہ پاکستان خوشحالی کی منزل پر آگے کا سفر جاری رکھ سکے ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612054 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.