اپنے ہوئے پرائے ۔ ۔ ۔ مشترکہ خاندانی نظام سے جڑے ایک گھر کی سچ مچ کی سچی کہانی


آج میں آپ کو ایک مجبور، لاچار اور بےکس انسان کی ایسی کہانی سنانا چاہتا ہوں جو دردناک بھی ہے اور سبق آموز بھی، بلکہ 100٪ حقیقت پر مبنی بھی۔ اسے سُن کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آدمی حالات کے ہاتھوں کتنا مجبور ہوجاتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ بچوں سے بےزار ہوجاتا ہے اور موت کا انتظار کرنے لگتا ہے، مگر وہ بھی ملتوی ہوجاتی ہے۔ موت کی جتنی خواہش کرتا ہے وہ اتنی ہی دور ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر زندگی کچھوے کی چال کی مانند گزرتی رہتی ہے۔ میں عموماً بزرگان دین کے مزارات پر جاتا رہتا ہوں، جس سے مجھے روحانی تسکین میسر آتی ہے۔

ایک دن میں ضلع قصور کے ایک مشہور بزرگ کے مزار پر حاضر ہوا۔ وہ جمعرات کا دن تھا اور محفل سماع ہورہی تھی۔ مجھے قوالیاں سننے کا بہت شوق ہے۔ میں نے وہاں ایک بزرگ کو دیکھا جو مسلسل روئے جارہے تھے۔ جب قوالیاں ختم ہوئیں تو میرا دل چاہا کہ بزرگ سے حالات معلوم کیے جائیں۔ میں نے انہیں سلام کیا اور حال احوال پوچھا۔ تھوڑی گفتگو کے بعد میں نے اندازہ لگا لیا کہ بزرگ دکھی ہیں۔ میرا جی چاہا کہ ان سے تفصیل سے گفتگو کی جائے۔ میں انہیں اپنے گھر لے آیا اور جو کچھ ہوسکتا تھا خاطر تواضع کی۔ معلوم ہوا کہ آپ للیانی کے نزدیک ایک قصبہ ستوکی سے تشریف لائے تھے۔ ستوکی لاہور سے قصور جاتے وقت للیانی کے نزدیک فیروزپور روڈ پر واقع ہے۔ للیانی ضلع قصور میں آتا ہے اور لاہور سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ چونکہ میں للیانی کا رہنے والا ہوں اسلیے ستوکی سے اچھی طرح واقف ہوں۔ ستوکی کیلیے راستہ للیانی ہی سے جاتا ہے، جو کہ آگے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بابا جی سے تعارفی گفتگو کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آیا اور ان سے مزید حال احوال دریافت کیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ اتنے غمگین کیوں ہیں مجھے ضرور بتائیے۔ بابا جی پھٹ پڑے اور آنسووں کا سیلاب رواں ہوگیا۔ مجھے ان سے دلی وابستگی ہوگئی۔ میں نے انہیں اپنے گھر ہی پر چند روز قیام کی دعوت دے دی جسے انہوں نے حیل و حجت کے بعد قبول کرلی۔ ان کے آرام کا خاص خیال رکھا۔ بابا جی نے مجھے جو واقعات سنائے وہ میں انکی ہی زبانی سنانا چاہوں گا تاکہ بیان کرنے میں آسانی رہے۔

بابا جی نے اپنی روداد کچھ اس طرح بیان کی:۔
میں ہندوستان کے شہر ساگر میں 1944 میں پیدا ہوا۔ قیام پاکستان کے وقت میری عمر تین سال تھی۔ اچھا کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ میرے والد صاحب تین بھائی تھے۔ دادا دادی سب لوگ اکٹھے ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ اتنا چھوٹا ہونے کے باوجود مجھے بچپن کے کافی واقعات یاد ہیں۔ والد صاحب کے ایک بھائی بڑے اور ایک چھوٹے تھے۔ سب کا مشترکہ کاروبار تھا۔ پاکستان بننے کے دو سال بعد میرے والدین پاکستان منتقل ہوگئے۔ دادا دادی اور باقی چچا اور تایا ہندوستان ہی میں مقیم رہے۔ پاکستان میں ہم لوگ پہلے لاہور میں مقیم رہے اور اسکے بعد ستوکی منتقل ہوگئے۔ یہاں زمینداری شروع کردی۔ حالانکہ اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ساتھ ہی کاہنہ کاچھا میں کپڑے کی دکان کھول لی۔ اللہ کے فضل سے دوکانداری خوب چلی اور زمینداری بھی خوب پھلی پھولی۔ والد صاحب نے مجھے قریبی سکول میں داخل کروادیا۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ میری اپنی سگی والدہ کا ہندوستان میں ہی انتقال ہوگیا تھا اور والد صاحب نے دوسری شادی کرلی تھی۔ سگی والدہ کا نام کرم ممتاز تھا۔ جب تک ہندوستان میں رہا میری پرورش میری دادی اماں نے کی۔ وہ مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔ جب میں والدین کے ساتھ پاکستان آرہا تھا تو وہ بےحد اداس تھیں۔ ہندوستان میں تو میں آرام سے رہا، لیکن جونہی پاکستان پہنچا پریشانیوں نے گھیر لیا۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں بھی مجھے احساس تھا کہ میری اپنی والدہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ پاکستان پہنچ کر میں احساسِ محرومی میں مُبتلا ہوگیا۔ اب میرا خیال رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ مجھے پیار کرنے والا کوئی نہ تھا۔ حد تو یہ تھی کہ اپنی بپتا کس کو سناتے؟ والد صاحب کو ہماری کوئی پرواہ ہی نہ تھی۔ اسی طرح دو سال گذر گئے۔ اس دوران ہمارا ایک بھائی اس دنیا میں آگیا۔ اب ہم پر پریشانیاں مزید بڑھ گئیں۔ اپنے کپڑے خود ہی دھونا پڑتے۔ نومولود کیلئے ایک نوکرانی رکھ لی گئی جو کہ اسکے کپڑے وغیرہ دھوتی تھی اور گھر کے کام کاج کرتی تھی۔ اس دوران والد صاحب کے چھوٹے بھائی اور ہمارے دادا دادی بھی پاکستان آگئے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رہنے لگے۔ اب ہمیں کچھ راحت، آرام اور سکون میسر ہوا۔ گویا کہ ہماری ماں آگئی ہو۔ اسی دن سے ہم اپنے دادا دادی کے ساتھ الگ کمرے میں سونے لگے۔ ہمارے چچا شادی شدہ تھے، وہ بھی کاروبار میں شریک ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد ہمارے تایا بھی اپنے بچوں کے ساتھ آگئے اور ہمارے ساتھ ہی رہنے لگے۔ اس طرح ہمارا پورا خاندان آگیا۔ تایا کی بڑی بیٹی سے ہماری دادی کو بڑی انسیت تھی۔ اسی دوران ہمارے چچا کے ہاں بھی بچے پیدا ہوگئے۔ پہلے ایک بیٹی اور پھر مزید بچے۔ اب ہماری دادی کی توجہ منقسم ہوگئی۔ تایا کا ایک بیٹا بھی تھا جو کہ مجھ سے بڑا تھا۔ تایا زاد بہن اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھی اور ہر کام میں مجھ سے اسکا مقابلہ کرتی رہتی تھی۔ باقی گھر والے بھی میرے کزن کی تعریفیں کرتے رہتے تھے۔ اب میں بالکل محرومیت کا شکار ہوگیا۔ یہ سچ ہے کہ میں شروع ہی سے بالکل شریف واقع ہوا ہوں، مجھ میں کسی قسم کی کوئی چالاکی نہیں تھی۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا۔ ہم تمام بچوں کی ضرورت کی ذمہ داری ہمارے چچا کے پاس تھی۔ چونکہ ہمارا مشترکہ کاروبار اور مشترکہ رہائش تھی اسی لئے گھر کے ایک فرد کو یہ ذمہ داری دے دی گئی تھی۔ جب ہم لوگ یعنی میں اور میرا کزن چھوٹے تھے تو ہم لوگوں کے لیے کپڑے سلوائے جاتے تھے، جب ہم لوگ بڑے ہوگئے میٹرک میں پہنچ گئے تو ہمیں چچا نے اجازت دے دی کہ ہم لوگ مشترکہ کپڑے استعمال کرسکتے ہیں۔

اس زمانے میں چچا تایا اور ابّا کے کپڑے ایک ہی الماری میں مشترکہ ہوتے تھے اور جسکی مرضی جو کپڑے پہن لے۔ اس اجازت سے میرے کزن کو تو بہت فائدہ ہوا، کیونکہ اسکا قد مجھ سے کچھ بڑا تھا اور کپڑے اس کو بالکل فٹ آجاتے تھے، مگر مجھے ڈھیلے ڈھالے رہتے تھے۔ مجبوراً مجھے وہی کپڑے پہننا پڑتے تھے، کیونکہ الگ سے سلوانا بند کردیا گیا تھا۔ ہمارے مشترکہ کاروبار سے ہمارے چچا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ چند دن ایک جوڑا استعمال کرتے پھر نوکروں کو دے دیتے۔ جب سے یہ ہندوستان سے آئے تھے ہم لوگوں کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے تھے۔ چلتے پھرتے مارتے رہتے تھے۔ ہر وقت غصے میں رہتے۔ میرے چچا مجھے ہر وقت گندی گندی اور غلیظ گالیاں دیتے رہتے تھے۔ یہ مجھے سونگر سونگر کہتے رہتے تھے۔ سونگر ہندی زبان میں سؤر کو بولتے ہیں یعنی خنزیر کو۔ چھوٹا ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ انہوں نے ہی اٹھایا۔ ہمارے والد صاحب کو ہماری بالکل پرواہ نہ تھی، اب جوں جوں ہمارے بھائی بہن (دوسری ماں سے) بڑے ہورہے تھے انکی توجہ ہماری طرف کم سے کم تر ہوتی جارہی تھی۔ دادی اماں اگر کبھی میری طرفداری کرتیں تو انہیں چچا صاحب ڈانٹ دیتے کہ وہ مجھے بگاڑ رہی ہیں۔ اس طرح ان پر بھی پابندیاں لگنا شروع ہوگئیں۔ اسی طرح وقت گذرتا رہا، میں اور میرا کزن کالج میں پہنچ گئے۔ یہ میں بار بار کزن کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ گھر میں لڑکوں میں ہم دونوں ہی بڑے تھے اور ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ کالج میں داخلے سے پہلے ہم سب لوگ لاہور شفٹ ہوگئے تھے اور یہاں ایک بڑا سا گھر کرایہ پر حاصل کرلیا تھا۔ کاروبار بھی خوب چل رہا تھا۔ گھر میں ایک گاڑی بھی آگئی تھی۔ آہستہ آہستہ ہمارے ابا چچا اور تایا نے ایک مشترکہ گھر بنا لیا۔ اس وقت میں بی اے میں تھا۔ میرے فائنل امتحانات ہونیوالے تھے۔ گھر میں خوب شور مچا رہتا تھا۔ نئے گھر میں شفٹ ہونیکی تیاریاں ہورہی تھیں۔ میں بالکل ڈسٹرب ہوگیا تھا کہ پڑھائی کیسے کروں۔ کسی کو میری پراہ نہ تھی۔ شام کو میں اپنی کتابیں لے کر نئے گھر میں آجاتا۔ رات کو امتحان کی تیاری کرتا اور وہیں سوجاتا اور صبح کو واپس اپنے گھر آجاتا۔ کیونکہ نئے گھر میں کھانے پینے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ہمارے والد چچا اور تایا کو ہمارا کوئی خیال نہیں تھا۔

یہ وقت بھی اللہ نے خیریت سے گزار دیا اور میں پاس ہوگیا۔ ہم لوگ 1965ء میں اس دوران نئے گھر میں شفٹ ہوچکے تھے۔ ہمارا کزن سائیکل نہیں چلاتا تھا حالانکہ مجھ سے بڑا تھا۔ غالباً اس کا اپنے باپ سے کوئی جھگڑا تھا۔ خمیازہ مجھے بھگتنے پڑا۔ سب لوگوں کے کام مجھے کرنے پڑتے کیونکہ میں سائیکل چلانا جانتا تھا۔ ہمارے چچا اور تایا نے مجھ پر اتنے ظُلم کیے کہ اب سوچتا ہوں کہ یہ لوگ کتنے ظالم تھے!!!

شاید میرے والد بھی مجھ سے بدلہ لے رہے تھے۔ وہ بالکل خاموش رہتے تھے اور مجھے سب لوگوں کی غلامیاں کرنی پڑتی تھیں۔ جب میرا بی اے کا رزلٹ آیا تو کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اپنے پاس ہونے کی خبر چچا کو سنائی تو انہوں نے کوئی خاص دھیان نہ دیا بلکہ بولے کہ تمہاری چچی بیمار ہیں ٹیکہ لگوانا ہے، کمپاونڈر کو بلا لاو۔ اس زمانے میں ہمارے ہاں یہ رواج عام تھا کہ اپنا علاج خود ہی کرلیتے تھے۔ اب میں نے سائیکل اٹھائی اور محض کمپاونڈر کو بلانے پانچ میل کا سفر کیا۔ بی اے کرنے کے بعد میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور دو سال میں ایم اے کر لیا۔ ہمارا گھر ابھی بھی مشترکہ تھا۔ سب لوگوں کا کھانا ایک ہی کچن میں پکتا تھا۔ ایک وقت آیا کہ کاروبار نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔ اس لیے سب نے الگ الگ کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ والد صاحب نے بھی اپنا الگ کاروبار 1966ء میں سائنس کا شروع کردیا۔ ایم اے کرنے کے بعد مجھے بھی شامل کرلیا۔ ابھی میرے دوسرے سوتیلے بھائی چھوٹے تھے۔ کاروبار میں میرا دل نہ لگتا تھا کیونکہ یہاں اپنے ضمیر کو بیچنا پڑتا تھا۔ ان پڑھ لوگوں کو ’جی حضور!‘ کہنا پڑتا تھا۔ میرے دل پر بڑا بوجھ رہتا تھا اور اپنی بے عزتی محسوس کرتا۔ گاہکوں کو چائے بنا کر دینا پڑتی، یہ کام کوئی ان پڑھ ہی کرسکتا تھا۔ میرے ضمیر پر بڑا بوجھ رہتا۔ والد صاحب سے بھی تناو رہنے لگا۔ وہ مجھے بالکل جاہل سمجھتے اور اپنے دوستوں سے میری برائیاں کرتے رہتے تھے، تنگ آکر میں پنڈی چلا گیا۔ یہاں میرے ایک بچپن کا دوست رہتا تھا۔ اس کے ماں باپ پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ وہ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ میری طرح چھڑا چھانٹ تھا۔ اس نے نوکری دلانے کی کافی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ میں نے سوچا آخر کب تک دوست پر بوجھ بنا رہوں گا۔ اس لیئے کچھ عرصے بعد واپس لاہور گھر آگیا۔ یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ میرے تقریباً تمام دوست نوکریاں کرتے تھے اور میں انکے حالات دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور ان کو خوش نصیب سمجھتا تھا۔ میرے تمام دوست خود ہی اپنے پاوں پر کھڑے ہوئے تھے اور خوشحالی کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہاں ایک ہم تھے کہ زندگی سے بیزار، احساس محرومی میں مبتلا۔ میں بھی ایک آزاد زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ گھر کے ماحول سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میں یہاں مشترکہ فیملی یعنی مشترکہ خاندانی نظام میں خوش نہ رہ سکوں گا، مگر بے حد مجبور تھا۔ اس لیے زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لیے واپس لاہور آگیا۔ جب واپس آیا تو والد صاحب کا رویہ بدلا ہوا تھا۔ وہ کافی نرم ہوگئے تھے۔ دوبارہ ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوگیا۔ میں چونکہ پڑھا لکھا تھا اس لیے جلد ہی کاروبار کو سمجھ لیا۔ اب حالات اچھے ہونے لگے تھے۔ میرے تمام دوستوں کی شادیاں ہوگئیں تھیں صرف ایک میں ہی رہ گیا تھا۔


کچھ عرصے بعد میں نے اپنی پسند کا اظہار کردیا۔ وہ اپنے ہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ نہایت ہی شریف اور پڑھی لکھی فیملی تھی۔ گھر میں کھسر پھسر ہوئی اور تمام بزرگوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کردیا۔ مگر میری بات مان لی گئی اور شادی ہوگئی۔ یہ شادی کیا ہوئی، ہماری شامت ہی آگئی۔ ہمارے والدین چچا تایا وغیرہ بہت بڑے جہیز کی توقعات رکھتے تھے۔ مجھے گھر والوں کی توقعات کا سوچ کر بہت دکھ ہوتا تھا۔ ہماری بیوی کے والد محض ایک سرکاری ملازم تھے۔ نہایت ایماندار، نیک اور پابند صوم و صلوٰة۔ بھلا انکی اتنی آمدنی کہاں کہ وہ کاروباری لوگوں کی خواہشات پوری کرسکیں۔ جب شادی کے بعد رخصتی ہونے والی تھی اس وقت لڑکی والوں نے بلایا کہ آکر جہیز دیکھ لیں اور پیک کرلیں۔ ہمارے والد محترم اتنے افسردہ تھے کہ کہنے لگے ”ان کو“ لے جاو، یہ دیکھ لیں گے، (یعنی میری طرف اشارہ تھا کہ میں جاکر دیکھوں)، اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ جہیز کی تفصیل ان تک یعنی والد صاحب تک پہلے ہی پہنچ چکی ہوگی۔ اسی لیے وہ اب جانا نہیں چاہتے تھے۔ جہیز نہ ہونے کے برابر تھا۔ گھر والوں کی باتیں سن کر میرے دل پر کیا گزری یہ میں ہی جانتا ہوں۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ واقعی اس گھر میں میرا کوئی بھی ہمدرد نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے دادا دادی تک بہک گئے تھے۔ کسی میں ہمت ہوتی تو ان سے پوچھتا کہ اے چچا تایو! تمہاری شادیوں میں کتنا جہیز ملا تھا۔ کیا تمہاری بیویاں سونے چاندی سے لدی ہوئی آئی تھیں۔ کیا اللہ نے تمہیں پہلے ہی بہت کچھ نہیں دے رکھا تھا جو تم لالچ کررہے ہو۔

جب شادی کے بعد جب گھر پہنچے تو عورتوں نے کہرام مچا یا ہوا تھا کیونکہ اب بات کرنے کی آزادی تھی، ہماری چچی، تائی، اور تایا زاد بڑی بہن بہت آگے آگے تھیں۔ طرح طرح کی باتیں میرے کانوں میں آرہی تھیں۔ سب جہیز کا رونا رو رہے تھے۔ اسی دوران ہماری تائی نے فرمایا کہ آئیندہ بارات حیدرآباد سندھ نہیں جائے گی۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بہت سے قریبی رشتہ دار حیدرآباد سندھ میں رہتے ہیں اور میری بارات بھی وہیں گئی تھی۔ سن 1970ء میں شادی ہوئ تھی۔ آگے آنے والے حالات سے میں نے اندازہ لگایا کہ دراصل ہماری چچی اور تائی اپنی اپنی بیٹیوں کا رشتہ مجھ سے کرنا چاہتی تھیں، جسمیں وہ ناکام ہوگئیں تھیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ چونکہ میرا رشتہ جہاں ہوا تھا ان سے خاندانی رنجشیں تھیں، آپس کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ میرے چچا اور تایا کو یہ دکھ تھا کہ ایک غریب گھرانے کی بیٹی ہمارے امیر گھرانے میں آکر خوب عیش کرے گی، جبکہ انکو فکر نہ تھی کہ اپنی بیٹیاں نہ جانے کہیں کسی غریب گھرانے میں نہ دینا پڑیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں شادیاں صرف انتہائی قریبی رشتہ داروں میں یا گھر کے گھر میں بزرگان کروانے کی سوچ کھتے تھے۔ ان لوگوں کا یہ رویہ دیکھ کر میں بڑا پریشان ہوتا۔ افسوس تو اس بات کا ہوتا کہ ہمارے والد صاحب بھی اپنے بھائیوں کے ہمنوا بن گئے تھے۔ ہم لوگوں کے باہر گھومنے پھرنے سے بھی یہ سب لوگ ناک بھوں چڑہاتے، ہمارے لیے کوئی الگ سے کمرہ بھی نہ بنایا گیا تھا۔ ایک جگہ خالی پڑی تھی وہاں والد صاحب نے ارادہ کیا کہ ہمارے لیے کمرہ بنادیا جائے۔ اس پر انکے بھائیوں نے اعتراض کردیا۔ اس طرح کچھ دنوں کے بعد ہی ہمارے والد چچا تایا نے گھر کو تقسیم کرلیا۔ کچن تو پہلے ہی الگ الگ ہوگئے تھے۔ گھر کا سارا کام میری بیوی کے سپرد کردیا گیا، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، صفائی کرنا، مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا۔ میں تو بھئی اپنی بیوی کی ہمت کی داد دیتا ہوں۔ مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں کرتی تھی۔ سب کچھ برداشت کرتی رہتی تھی، تاکہ گھر میں دنگا فساد نہ ہو۔ غریب گھر کی بیٹی اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ سب گھر والوں کی غلامی اسکی قسمت میں لکھا تھا۔ میں بھی بڑا مجبور تھا۔ ہم میاں بیوی اپنے گھر والوں سے اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ سیر و تفریح کیلئے بھی اکیلے نہ جاسکتے تھے۔ حتی کہ ہم دونوں میاں بیوی گھر والوں کے سامنے اکٹھے ایک صوفے پر بھی نہ بیٹھ سکتے تھے۔ چچا تایا کے بچوں اور اپنی بہنوں کو ساتھ لے جانا پڑتا تھا۔ اگر کبھی نہ لے جاتے تو سب کے منہ پھول جاتے۔ مجھے باغات میں گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا۔ بس ہماری سیر گاہ صرف باغات یا تاریخی مقامات ہوتے تھے۔ ہماری شادی میں تصاویر بھی کوئی خاص نہیں بنی تھیں، کیونکہ اس زمانے میں ایسا فیشن نہیں تھا، جیسا کہ آج ہے۔

بہرحال، ہمیں یہ شوق تھا کہ اپنی ایک تصویر یادگار کے طور پر سٹوڈیو سے بنوائیں، مگر اسکے لیے بھی اکیلے جانا مشکل تھا۔ ساتھ میں "بہن" کی تصویر بھی کھینچوائی گئی، اگر اسے شامل نہ کرتے تو والدین افسردہ ہوجاتے۔ یعنی میاں بیوی بھی اپنی مرضی سے اپنی تصویر نہیں بنواسکتے تھے۔ گھر میں کافی خوشحالی تھی۔ گاڑی تھی، ٹیلی فون تھا، جو کہ اس زمانے میں بڑی بات ہوتی تھی۔ مگر ہماری بیوی اپنے گھر والوں کو فون بھی نہ کرسکتی تھی کیونکہ ان کے گھر فون اس زمانے میں نہیں تھا۔ ہماری بیوی بےحد خوفزدہ رہتی تھی۔ اسی لیے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی تھی جس سے لڑائی جھگڑے ہوں۔ آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا کردیا۔ ماشاءاللہ تندرست و صحتمند اور خوبصورت تھا۔ اب ہمارے گھر میں رونق آگئی تھی۔ اپنے غم کو بھول کر بیٹے کے پیار میں کھو گئے۔ گویا اللہ نے ہمیں ایک کھلونا دیدیا تھا۔ سب گھر والوں کا رویہ ویسا ہی رہا جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا۔ ہمارا تایا زاد بھائی مجھ سے بڑا تھا، لیکن میری شادی اس سے پہلے ہوگئی تھی، اس لیے تایا اور انکی فیملی ہم لوگوں سے سخت متنفر تھے۔ وہ ہمارے بیٹے سے سخت نفرت کرنے لگے تھے۔

اِس وقت ایک واقعه یاد آرہا ہے۔ ’ہمارے چچا کا سب سے چھوٹا بیٹا ہمارے بڑے بیٹے سے تقریباً ایک سال ہی بڑا ہوگا، جب ہمارا بیٹا چلنے پھرنے لگا تو وہ اپنے چچا یعنی ہمارے چچا کے بیٹے کے ساتھ کھیل رہا تھا، کیونکہ گھر میں اسکا ہم عمر اور کوئی نہ تھا، ہمارے تایا اپنے بھائی کے بیٹے کی انگلی پکڑ کر لان میں اسے سیر کرانے لگے، انہوں نے ہمارے بیٹے پر کوئی توجہ نہیں دی، حالانکہ میرا بیٹا چھوٹا تھا، وہ بےچارہ کھڑا معصومیت سے دیکھتا رہا، یہ منظر دیکھ کر مجھے بے حد رنج ہوا اور میرے آنسو آگئے۔‘

اتنی شدید نفرت کرتے تھے یہ سب لوگ میرے بچے سے۔ میرا بیٹا ایک سال کا ہوگیا۔ ہم میاں بیوی نے اسکی پہلی سالگرہ منانے کا فیصلہ کیا۔ خوب تیاریاں کیں، کیک وغیرہ کا آرڈر دیا گیا، رشتہ داروں کو بھی بلایا گیا، تاکہ اچھی رونق ہوجائے۔ کیک کاٹا گیا، تصاویر بنائی گئیں، مگر ایک بات بہت بری لگی، ہمارے سگے والد اور دوسری والدہ سمیت چچا چچی، تایا تائی وغیرہ کوئی بھی ہماری تقریب میں شامل نہ ہوا، شاید وہ ہم دونوں میاں بیوی کو اکٹھا دیکھنا نہیں چاہتے تھے، انکو بڑی شرم آرہی تھی، حالات میں تناو بڑھنا شروع ہوگیا۔ ہمارے چچا ہمارے سگے والد کو ہمارے ہی خلاف خوب اکساتے تھے۔ یہاں تک کہ ہماری دادی جو ہم سے بہت پیار کرتی تھیں وہ بھی متحدہ محاذ کا حصہ بن گئیں تھیں۔ ان لوگوں کو یہ غم کھائے جارہا تھا کہ ایک غریب دشمن کی بیٹی ہمارے ہاں کیوں آرام اور سکون سے زندگی گزارے۔

ایک اور واقعہ مجھے یاد آگیا، جس کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں جو کہ ہماری شادی کے چند دن بعد ہی پیش آیا تھا: ’ہمیں شکار کھیلنے کا شوق تھا، مگر ہمارے پاس ذاتی بندوق نہیں تھی۔ گھر میں ہمارے چچا کے پاس ایک ائیرگن تھی جو کہ دراصل مشترکہ جائیداد کا حصہ تھی، اس وقت خریدی گئی تھی جب ہم لوگوں کا مشترکہ کاروبار تھا۔ میں نے چچا کے بیٹے سے کہا کہ وہ گن لے آئے ۔ ہم لوگ شکار پر جانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے والد سے اجازت لینے چلا گیا۔ مگر انہوں نے انکار کردیا ، مجھے بہت افسوس ہوا اور میں نے اسے بولا کوئی بات نہیں ہم اپنی ایک گن خرید لیں گے۔ پھر وہ واپس اپنے گھر گیا اور اپنے باپ کو یہ بات بتائی۔ وہ بڑے سیخ پا ہوئے اور میرے پاس آکر یہ طعنہ دیا ::: کیا تمہیں جہیز میں اتنے پیسے ملے ہیں جو تم گن خرید لو گے؟ ::: کہاں کی تان کہاں نکالی!!!! ‘

اب قارئین آپ ہی انصاف کیجئے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سب لوگ جہیز کے کتنے لالچی تھے۔ بہرحال، مجھے حالات سے سمجھوتا کرنا پڑا کیونکہ میرے پاس تو کوئی راستہ ہی نہ تھا۔ کاش میں اس وقت اپنا ہی کوئی کام یا نوکری وغیرہ کررہا ہوتا تو شاید میں اپنا راستہ الگ کرلیتا۔ یہ لوگ میری بیوی کو پاوں کی جوتی سمجھتے تھے اور ہم لوگ حالات کی چکی میں پستے جارہے تھے۔

کچھ عرصے بعد سن 1976 ء میں میرا ایک اور دوسرا بیٹا پیدا ہوا تو میرے اسی چچا نے اس کے اوپر تعویزات کردیے۔ وہ پیدا ہوتے ہی زبردست بیمار پڑ گیا۔ پوری میڈیکل فیل ہوگئی اس کے علاج میں۔ ہماری دکان کے ایک ملازم نے مجھے ایک مولوی صاحب کا پتہ بتایا تو ان سے اس کا روحانی علاج کروانا پڑا۔ بیماری تو ٹھیک ہوگئی مگر وہ بیٹا زندگی بھر ناکام رہا۔ میرے چچا نے میرے والد کو کہا کہ ان کے تو بیٹے پیدا ہورہے ہیں انہیں کاہے کی فکر۔۔۔

ہمارے والد صاحب نے جو نیا کاروبار شروع کیا تھا اس میں چچا کو بھی شامل کرلیا تھا یعنی سائنس والا۔ وہ اپنا بھی الگ ذاتی کاروبار بیڑی کا کر رہے تھے۔ جب ہمارا کاروبار خوب چلنے لگا تو انہوں نے ہم لوگوں سے مال بٹورنا شروع کردیا اور اپنے ذاتی کاروبار کا رونا روتے رہتے تھے۔ بس مجبوری تھی۔ وہ ہمارے سلیپنگ پارٹنر تھے۔ ایک وقت آیا کہ میرے چھوٹے سوتیلے بھائی کو بھی کاوربار میں شامل کرلیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد والد صاحب نے چچا کو کاروبار سے الگ کردیا کیونکہ اس کاروبار کو شروع کرنے اور چلانے والے ہمارے ہی والد تھے۔ چچا تو محض سلیپنگ پارٹنر تھے۔ دوسرے ہم دو بھائی بھی ورکنگ پارٹنر بن گئے۔ اس لیے کاروبار میں چچاکو شامل کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ بتاتا چلوں کہ ہم لوگ کل تین بھائی تھے۔ میں سب سے بڑا اور مجھ سے چھوٹے دو بھائی، وہ دوسری والدہ سے تھے۔ اب والد اور چچا میں دشمنی کا آغاز ہوگیا کیونکہ چچا کی مفت کی کمائی کا ذریعہ بند ہوگیا تھا۔ وہ میرے بدترین دشمن بن گئے۔ انکا خیال یہ تھا کہ میں نے ان کو کاروبار سے الگ کروایا ہے۔ مجھے شک ہے کہ میرے والد نے ان کو یہ کہا ہوگا کہ یہ بندہ چاہتا کہ تم کاروبار سے الگ ہوجاؤ یعنی میں نے کہا ہے۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جب تک ہمارے چچا ہمارے بزنس پارٹنر رہے، تب تک ہم لوگ ہی انکے اخراجات اٹھاتے رہے۔ مثال کے طور پر انکی بیٹیوں کی شادی اور تعلیم کے تمام اخراجات، انکے بچوں کو اسکولوں سے لانا لے جانا بھی میری ڈیوٹی تھی۔ انکے بچے بیمار ہوں تو میں ہی انکو لے کر ہسپتال جاتا تھا۔ میری ڈیوٹی نوکروں کی طرح تھی۔ چچا کے ذمہ اس طرح کی کوئی ڈیوٹی نہیں تھی۔

ہمارے کاروبار میں شامل رہ کر انہوں نے خوب عیش ہی عیش کیے، اتنی خدمات کے باوجود اس شخص کا رویہ میرے ساتھ دشمنوں جیسا ہی رہا، جب 1992ء میں سب سے چھوٹے تیسرے سوتیلے بھائی کو اس کی شادی کے بعد کاروبار میں شامل کرلیا گیا، پھر میرے والد صاحب کا رویہ میرے ساتھ دوبارہ تلخ ہونا شروع ہوگیا۔ مگر میں نے کوئی پرواہ نہ کی اور کاروبار میں دل و جان سے شامل رہا۔ اب وہ وقت آگیا کہ تمام کاروباری معاملات میرے پاس آگئے اور کاروبار خوب چلنے لگا۔ پھر والد صاحب مجھ سے کافی متاثر ہوئے اور میری تعریف کرتے رہتے۔ پیسے کا کنڑول انہی کے پاس تھا۔ وہ مجھے تمام معاملات سے باخبر رکھتے، یہ سن 1982ء کی بات تھی دوکان کے مالک نے تنگ کرنا شروع کردیا، وہ اپنی جائیداد بیچنا چاہتا تھا، مگر بہت زیادہ پیسے مانگ رہا تھا، کیونکہ ہماری دوکان کرائے کی تھی۔ اس لیے معاملہ طے نہ ہوسکا۔ خیر ہم نے نزدیک ہی ایک دوکان دیکھ لی اور خریدنے کا ارادہ کیا۔ پہلے تو والد صاحب اور دوسرا چھوٹا بھائی پرُجوش تھے مگر جب سودا وغیرہ ہونے لگا تو نہ معلوم کیوں دونوں پیچھے ہٹ گئے!!! انہوں نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ اب میں اکیلا رہ گیا۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور سودا طے کرکے ایڈوانس رقم دے دی۔ باقی رقم بھی والد صاحب سے لے کر ادا کرکے دوکان کا قبضہ لے لیا۔ مگر افسوس، اس موقع پر کوئی بھی میرے ساتھ نہ گیا، نہ والد صاحب نہ چھوٹا بھائی۔ مجھے اپنی دکان کے ملازم کو لے جانا پڑا۔ مجھے آج تک وجہ سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ لوگ ایک دم سے پیچھے کیوں ہٹ گئے تھے، حالانکہ دوکان ہم دونوں بھائیوں کی بیویوں کے نام ہی خریدی گئی تھی۔ دوکان کافی پرانی تھی، اس لیے توڑ کر دوبارہ بنوائی گئی۔ یہ سارا کام بھی میں نے اور ایک ملازم نے انجام دیا۔ اس کے بعد ہم لوگ نئی دوکان میں شفٹ ہوگئے۔ والد صاحب بیمار رہنا شروع ہوگئے تھے۔ انہیں دمہ ہوگیا تھا۔ اس لیے اب دوکان پر کبھی کبھی آتے تھے۔

کچھ عرصے بعد تیسرے سوتیلے چھوٹے بھائی کا رویہ مجھ سے خراب رہنے لگا۔ وہ اس کاروبار میں 92ء میں شامل ہوا تھا۔ اس دکان میں آتے ہی اسکی شادی ہوچکی تھی 1992ء میں۔ کاروبار میں میری بالکل مدد نہیں کرتا تھا اور کچھ عرصے سے مجھ سے بات چیت بھی نہیں کرتا تھا۔ میں نے والد صاحب کو تمام معاملات کے بارے میں بتایا اور عرض کی کہ آپ بھی دوکان پر تھوڑی دیر کے لیے آجایا کریں تاکہ آپ خود بھی سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کریں۔ چند دن تو وہ آئے مگر پھر چھوڑ دیا۔ آخر میں نے الگ سے اپنی نئی فرم بنالی۔ میر ی فرم کا دفتر بھی اسی بلڈنگ میں تھا۔ والد صاحب کو اس بات کا بے حد افسوس ہوا۔ مگر انہوں نے مجھے منع نہ کیا۔ میں نے ان کو بتایا کہ مشترکہ کاروبار بھی چلاتا رہوں گا اور اپنا بھی کام کروں گا۔ مگر ایسا کرنا میرے لیے مشکل ترین ہوگیا اور ہوتا چلا گیا، کیونکہ کئی معاملات میں والد صاحب مجھ سے تعاون نہیں کرتے تھے۔ ان کو میرے نئے کاروبار سے سخت رنج تھا۔ مجبوراً مجھے اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔ میں نے کوئی دو سال ہی اپنا ذاتی کام کیا تھا۔ میں نے بڑی مجبوری میں اپنا الگ کاروبار شروع کیا تھا اور اس کی وجہ بھائیوں اور والد صاحب کا طرزعمل تھا کیونکہ مشترکہ کاروبار اس طرح نہیں چلتے کہ پارٹنر آپس میں بول چال ہی بند کردیں۔

ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ایک چھوٹے بھائی نے دوکان پر آنا جانا ہی بند کردیا۔ جب والد صاحب نے وجہ پوچھی تو بولے کہ میں کوئی اور کام کرنا چاہتا ہوں اور کام کی تلاش میں ہوں۔ یہ بات والد صاحب نے ہی مجھے بتائی ۔ دراصل جب سے چھوٹا بھائی کاروبار میں آیا تھا، والد صاحب کا رویہ اسی وقت سے بدلنا شروع ہوگیا تھا میرے ساتھ۔ بلکہ ایک موقع تو ایسا بھی آیا تھا کہ والد صاحب نے مجھے چھوٹے بھائی سے ذلیل بھی کروایا تھا۔ ہوا کچھ اس طرح تھا کہ میں چونکہ بڑا تھا، میرے بچے بڑے ہورہے تھے اور مجھے مزید کمروں کی ضرورت تھی۔ میں، بیوی اور تین بچے سب ایک ہی کمرے میں رہ رہے تھے۔ میں نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ کوئی پلاٹ وغیرہ خرید لیں تاکہ گھر بنا سکیں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ چھوٹے بھائیوں کو بھی آئیندہ جگہ کہ ضرورت پڑے گی اس لیے انکے لیے بھی پلاٹ خرید لیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ ہم کل تین بھائی تھے ، دو کی شادی ہوگئی تھی یعنی میری اور میرے دوسرے سوتیلے بھائی کی۔ جبکہ تیسرے کی ابھی ابھی ہوئی تھی۔ اس وقت والد صاحب کو میرا یہ مشورہ بہت برا لگا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ شاید میں الگ ہونا چاہتا ہوں۔ پہلے تو چھوٹے بھائی کو بلاکر اسے میرے خلاف خوب اکسایا، پھر بعد میں مجھے بلا کر اس سے ذلیل بھی کروایا۔ چھوٹا بھائی والد کی آشیرواد سے اچھل اچھل کر مجھ سے بات کررہا تھا۔ حالانکہ میں اس سے تقریباً چھ سال بڑا ہوں گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ایک دن آئے گا جب تم بھی یہی مطالبہ کرو گے کیونکہ ایک ہی مشترکہ گھر میں اتنے سارے افراد نہیں رہ سکتے۔ مگر وہ تو اس طرح برتاو کررہا تھا گویا کہ وہ بڑا اور میں چھوٹا ہوں۔ یہ واقعہ اس سے پہلے کا ہے جب میں نے الگ سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔

میرے والد کے دماغ میں میرے خلاف اتنا بغض تھا کہ ایک دن وہ فرمانے لگے کہ تم ’ میرے بچوں‘ کو مار ڈالنا چاہتے ہو۔ گویا کہ میں انکا بیٹا نہیں تھا۔ یہاں انہوں نے ایک لکیر کھینچ دی تھی ’سگا اور سوتیلا‘۔ میں ان حالات میں اتنا تنگ آگیا تھا کہ خودکشی کرنے کو جی چاہتا تھا۔ دوسری والدہ صاحبہ کا رویہ بھی میری بیوی سے بہت امتیازی تھا۔ جب کسی مہمان کو دعوت دینا ہوتی تومیری دوسری والدہ حساب لگاتیں کہ کس دن میری بیوی کی کھانا پکانے کی باری ہے۔ بس اسی دن مہمان کو دعوت دیتی تھیں، اپنی چھوٹی بہو کا بہت خیال رکھتی تھیں کہ اسے کوئی کام نہ کرنے پڑے۔ جب سب سے چھوٹی تیسری بہو کی کھانا پکانے کی باری ہوتی تو ساتھ خود بھی بیٹھ جاتیں اور روٹیاں پکانے میں مدد کرنے لگتیں۔ والد صاحب بھی ایسا ہی طرزعمل رکھتے۔ میری بیوی دوپہر کو جب سورہی ہوتی تو اس کو جگا کر چائے بنواتے اور کسی بہو سے کبھی کچھ نہ کہتے۔ مجھے تو کبھی کبھی ایسا لگتا تھا کہ شاید یہ میرے سگے باپ نہیں بلکہ سوتیلے باپ ہیں۔ اور تھا بھی یہی کہ ماں سوتیلی تھی لیکن باپ تو سگا تھا۔۔۔ میں تو اپنی شادی کا ذکر کر ہی چکا ہوں۔ نہ کوئی بینڈ نہ کوئی باجا،نہ ہی تصاویر، بالکل سادگی سے ہوئی۔ لیکن اپنے دو سگے بیٹوں یعنی میرے دو سوتیلے بھائیوں کی شادیاں بڑی دھوم دھام سے کیں۔ ایک کی شادی میں تو فوجی بینڈ بھی آیا تھا اور دوسرے کی شادی پر بھی بے دریغ پیسہ خرچ کیا۔

ایک واقعہ سناتا ہوں جو میرے سینے پر کنندہ ہوگیا ہے۔ یہ 1978 ء کی بات تھی۔ ’جب میرے منجھلے سوتیلے بھائی کی شادی ہورہی تھی تو میں خود وڈیو بنا رہا تھا، کیونکہ مجھے فوٹوگرافی کا کافی شوق تھا۔ میرے پاس اس زمانے کا مووی کیمرہ تھا جو پروجیکٹر پہ چلتا تھا۔ اس زمانے میں کمرشل مووی نہیں بنتی تھی نہ وی سی آر تھے گھر میں۔ اس وقت وی سی آر والے کیمرے پاکستان نہیں آئے تھے۔ یہ صرف پروجیکٹر والا ساونڈلیس مووی کیمرہ تھا۔ اتفاق سے میرے کیمرے کا سیل خراب ہوگیا۔ میرے ساتھ ایک اور ایکسپرٹ بھی تھے۔ انہوں نے جلدی سے سیل نکال کر کپڑے سے خوب صاف کیا تاکہ کسی طرح مووی بن جائے، مگر کیمرہ تھوڑا چلتا اور پھر بند ہوجاتا۔ اب دیکھیے ہمارے والد محترم کیا فرماتے ہیں ::: کہنے لگے کہ اسے (یعنی مجھے) یہ غم ہے کہ اسکی شادی میں مووی نہیں بنی تھی اِسی لیے اِس نے جان بوجھ کر کیمرہ خراب کردیا ::: اس بات سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ آیا وہ مجھے سگا بیٹا تسلیم کرتے تھے یا سوتیلا۔ ایک تو میں مووی بنا رہا تھا جو میرا کام نہیں تھا، دوسرا ملزم بھی میں ٹھہرایا جارہا تھا۔ اگر والد صاحب کو اتنا شک و شبہ تھا تو پہلے کسی ایکسپرٹ کا انتظام کر لیا ہوتا اور اپنی مرضی کی فلم بنوالیتے۔ ‘

سب سے چھوٹا تیسرا سوتیلا بھائی بھی جب کاروبار میں شامل ہوگیا تو میرے ساتھ شروع شروع میں کچھ دن اچھی طرح پیش آیا۔ جیسا میں کہوں ویسا ہی کرتا تھا۔ میں نے اسکو بھی کاروبار کے ایک شعبے سے منسلک کردیا۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد وہ بدلنا شروع ہوگیا۔ والد صاحب دونوں چھوٹے بھائیوں سے مشورے کرنے لگے اور مجھ سے فاصلے بڑھانے لگے۔ اسی طرح اب ہم لوگوں کے درمیان تناو کافی بڑھ گیا اور کاروبار زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا۔ والد صاحب بھی بیمار رہنے لگے اور پھر فوت ہوگئے۔ یہ 1995 ء تھا جب والد فوت ہوئے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ والد صاحب کی زندگی میں ہی میں نے سب سے چھوٹے سوتیلے بھائی کو پارٹنر بنایا تھا، کیونکہ پہلے وہ پارٹنر نہیں تھا البتہ کاروبار میں کبھی کبھی ساتھ ہوتا تھا۔ حالانکہ منجلا سوتیلا بھائی مخالفت کررہا تھا۔

میرے والد کے چالیسویں پہ چھوٹے سوتیلے بھائ نے مجھے کسی بات پہ کہا تھا کہ "میں آپ کو قیامت تک معاف نہیں کروں گا"۔ یہ اس کے لفظ تھے۔ 1996ء کی بات ہوگی۔

میں نے بھی جواباً اس کو کہہ دیا کہ "ہم تم سے بڑے ہیں ہم تمہیں چانٹا بھی مارسکتے"۔ تو اسی بات پہ یہ دونوں میاں بیوی مجھ پہ تعویز کر آئے اور یہ تعویز اس کی بیوی کے اشارے پہ ہوئے تھے۔ یہ 1996ء میں ہوئے تھے۔ ان تعویزات کا مجھے کافی عرصے بعد پتا چلا تھا۔

ہم بھائیوں نے والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کا کاروباری حصہ پورے کا پورا سب سے چھوٹے بھائی کو دے دیا۔ پارٹنر تو وہ پہلے ہی بنا لیا گیا تھا۔ اب الٹا اس کا حصہ ہم سب سے زیادہ ہوگیا۔ گو کہ نئی پارٹنرشپ ڈیڈ لکھی گئی۔ اب ہم لوگ برابر کے حصے دار تھے۔ ابھی نئی فرم کو قائم ہوئے فقط چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ اسی سب سے چھوٹے بھائی نے اپنے بڑے بھائی سے مل کر شور مچانا شروع کردیا کہ فرم ختم کرو اور اپنے اپنے حصے بانٹو۔ دوکان بیچو اور ہمیں حصہ دو۔ میں بڑا حیران ہوا کہ اسے کیا ہوگیا ہے۔ میں نے دونوں کو سمجھایا کہ اتنے جلدی کیوں کاروبار ختم کررہے ہو لوگ کیا کہیں گے، ابھی والد کو فوت ہوئے 6 ماہ ہی تو ہوئے ہیں اس کو دوکان بیچنے کی پڑ گئی۔۔۔ مگر میری آواز صدا بسحرہ ثابت ہوئی۔

میں یہ واضح کردوں کہ دوکان میرے اور منجلے بھائی کی بیویوں کے نام تھی، اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں بنتا تھا۔ گھر میں ہمارے چچا بہکانے والوں میں پیش پیش تھے۔ ساتھ ہی سب سے چھوٹے سوتیلے بھائی کے سسرال والے بھی میرے ان دونوں بھائیوں کے کان بھرنے لگے تھے۔ بلکہ وہ تو بہت ہی خطرناک ترین لوگ تھے۔ جادو ٹونہ تعویزات و عملیات کرنے کروانے والے لوگ اور ان کا تو ایک ایسا جادوگر بھی واقف تھا جو پیسے ہی کام ہونے کے بعد لیتا تھا۔ وہ کالا علم میں بہت ماہر تھا۔ اس کا نام سجاد عرف سجادہ تھا۔ وہ صوبہ سندھ کے شہر کوٹری کی بہار کالونی میں رہتا تھا۔ اسے بابا بہاری بھی کہتے تھے۔ پورے محلے کو معلوم تھا کہ یہ مانا ہوا جادوگر ہے جو پیسے ہی کام ہونے کے بعد لیتا ہے۔ تیسرے چھوٹے سوتیلے بھائی کا سالا اس کے پاس جاتا ہے تعویزات کروانے۔ اس کا نام شیخ اسرائیل تھا۔ وہ صوبہ سندھ کے ضلع دادو کی ضلعی زکوة کمیٹی کا چئیرمین تھا۔ پورا صوبہ سندھ اسے جانتا تھا۔ سن 2003ء کا وزیراعلی سندھ بھی اس کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اس زمانے میں ضلع جامشورو نہیں بنا تھا۔اسرائیل نے مرتے دم تک تعویزات کیے ہم لوگوں پہ۔ مر گیا مگر باز نہیں آیا۔ اس کے خلاف تو وزیراعلی سندھ نے 2003ء میں ہی سندھ کے اردو مقامی اخبارات میں باقاعدہ خبر بھی شائع کی تھی کہ وزیراعلی سندھ نے اسرائیل کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔ یہ سرخی تھی۔

ایک مقامی اخبار میں یہ خبر بھی شایع ہوئی تھی
اب میرے اردگرد گھیرا تنگ ہونا شروع ہوگیا اور بالآخر مجھے دوکان بیچنا ہی پڑی۔ 1998ء میں دوکان بیچ دی گئی۔ سارا کاروبار میں نے چلایا۔ والد صاحب تو دوکان پہ بیٹھتے تھے۔ محنت میں کرتا تھا۔ جو کماتا تھا وہ سب والد صاحب کے کہنے پہ انہی کی جھولی میں ڈالنا پڑتا تھا جبکہ ہم دونوں باپ بیٹا برابر کے پارٹنر تھے وہ کمائی تو برابر تقسیم ہونا چاہیے تھی۔ وہ مرتے دم تک اپنے پاس رکھے رہے۔ مرنے کے بعد اپنے سگوں کو نواز گئے۔ مجھے صرف دوکان بیچنے کا ملا بلکہ اس کا بھی آدھا کیونکہ وہ دو کے نام تھی۔
دراصل میرے خلاف یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ کیونکہ دونوں چھوٹے سوتیلے بھائی کوئی نیا کاروبار کرنا چاہتے تھے۔ صرف میں ہی پرانا کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے انہوں نے سوچا کہ جب دوکان بک جائے گی تو اس کے (یعنی میرے) پاؤں کٹ جائیں گے۔ یہ کہیں کا نہ رہے گا۔ میں نے بڑی محنت سے دوکان خریدی اور بنوائی تھی۔ اس کے بیچنے کا غم سوائے میرے اور کس کو ہوسکتا تھا؟؟؟ وہ بھائی جس نے دوکان خریدنے اور قبضہ لینے میں میری کوئی مدد نہیں کی تھی اب بیچنے میں آگے آگے تھا۔ حالانکہ وہ خود بھی آدھے حصے کا مالک تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے چھوٹا تیسرا سوتیلا بھائی جس نے یہ سازش تیار کی تھی، ظاہر کررہا تھا کہ گویا اسے دوکان بیچنے کا بہت غم ہو۔ میں نے اس کو دوکان بکنے پر آنسو بہاتے دیکھا۔ کتنا چالاک آدمی تھا یہ !!! اتنا ہی میسنا بنتا ہے۔ آج اس کے پاس کروڑوں کی رقم ہے۔ جو رقم کاروبار ختم ہونے کے بعد اصولی طور پر تینوں بھائیوں میں تقسیم ہونا تھی یہ دونوں سوتیلے بھائی کھا گئے۔

اسی طرح ایک بات کا اور پتہ چلا دوسرے سوتیلے بھائ کی زبانی معلوم ہوا کہ" آپ سوچ نہیں سکتے کہ آپ کے چچا کے پاس اتنی رقم کہ انہوں نے ایمنسٹی اسکیم میں پیسہ وائٹ کروایا ہے اور کروڑ کی مد میں صرف ٹیکس دیا ہے۔آپ تصور نہیں کرسکتے ان کے پاس کتنا پیسہ نہیں ہوگا؟؟؟ بیڑی کا کام کرتے تھے اس میں اتنی آمدن کہاں کہ کوئ کروڑوں کمالے!!!" یہ بات میرے اس سوتیلے بھائ نے میری بیوی کے سامنے کہی وہ خود اس کی چشمدید گواہ ہے۔ یہ سن 1990 تا 95ء کے درمیان کی بات تھی۔ ۔۔۔ اور تو اور میرے چچا نے اپنی ہی بیگم کو خود یہاں تک کہا تھا کہ ہمارے پاس اتنا پیسہ ہے ساری عمر گنتی رہو گی کبھی ختم نہیں ہوگا۔تم فکر مت کرو۔ساری عمر عیش کریں گے یہ لوگ۔ یہ خبر ہمارے گھر تک خود پہنچی تھی۔

اس تمام کارروائی کے دوران منجھلا سوتیلا بھائی بھی مجھ سے بات نہ کرتا تھا۔ ایک دفعہ تو ایسا بھی ہوا تھا کہ میرا منجلا سوتیلا بھائی مجھ سے کسی بات پہ ناراض تھا تو وہ دوکان کے اندر ہی میرے اوپر پیپر ویٹ مارنے کو دوڑا تھا۔ یہ 86ء 1987ء کی بات ہوگی، دوکان کے ملازم اکبر نے مجھے بچا لیا تھا۔ وہ ایکدم سامنے آگیا تھا۔

بس یہیں سے میری تباہی کا آغاز ہوگیا 1998 ء سے۔ میں کوئی اور کام بھی نہ کرسکا۔ بچوں کو میں نے نوکریوں کی طرف راغب کردیا۔ بڑا بیٹا انجینئیر بن گیا، لیکن اسکو نوکری آئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ملی جو اس کی لائن نہیں تھی۔ سب سے چھوٹا تیسرا بیٹا بھی نوکری پر لگ گیا۔ وہ بھی آئی ٹی میں ہی لگا۔ میرے دونوں چھوٹے بچے مکمل طور پرتعلیم یافتہ نہ ہوسکے۔ میرے تیسرے چھوٹے سوتیلے بھائی نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرے اور میرے بیوی بچوں پہ اپنے سسرال والوں سے مل کر تعویزات کردیے۔ جس کی وجہ سے میرا دوسرا بیٹا روزگار سے محروم رہا اس کی تعلیم بھی نہ ہوسکی، اس کی شادی بھی نہ ہوسکی، وہ دل کا مریض بن کر رہ گیا۔ وہی جو پیدا ہوتے ہی بیمار ہوا تھا جس پر ہمارے چچا نے تعویزات کیے تھے 1976 میں۔ یہ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں۔

ایک بڑے بیٹے کی شادی بھی بدمعاشوں میں میرے تایا کی اولادوں میں تعویزات کے ذریعے ہوئی جو کہ ہم غیروں میں چاہتے تھے۔ وہی جو بڑا بیٹا انجینئر بن گیا ہے۔ مگر ناکام انجینئیر۔ اس کی بیوی بھی بہت بےہودہ نکلی۔ ہم میاں بیوی اس کے ماموں ممانی تھے۔ وہ ہم پہ روعب جماتی تھی۔ بالآخر میرے بیٹے کو ورغلا کے بیرونِ ملک ہمیشہ کے لیے لے گئی۔ اس کا باپ یعنی میرے بیٹے کا سسر بھی مجھے کسی بات پہ بلیک میل کررہا تھا ایک دن۔ وہ ایک بلیک میلر نکلا۔ اس کا نام لائق تھا۔ دراصل وہ لائق نہیں تھا نالائق تھا۔ یہ شادی 2002 میں ہوئی تھی۔

میرے بڑے بیٹے کی شادی بھی زبردستی میرے تایازاد کزن جو مجھ سے بڑا ہے نے زبردستی کروائ تھی جب کہ ہم لوگ غیروں میں چاہتے تھے۔ یہ شادی بھی تعویزات سے ہوئی تھی اور یہ تعویزات فیصل آباد سے ہوئے تھے۔ میرا یاتا زاد کزن اور اس کی بیوی دونوں مجھ سے اور میری بیوی سے لڑ کر گئے تھے کہ یہیں ہوگی شادی۔اس نے میرے بڑے بیٹے کی شادی اپنی بہن کی بیٹی سے کی جو راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ یہ تعویز 2001 ء میں ہوئے تھے کیونکہ منگنی ایک سال پہلے ہوئی تھی۔

اِس وقت ایک بڑے اور ایک سب سے چھوٹے کی شادیاں ہوئی ہیں۔ منجھلا بیٹا بےروزگار اور دل کا مریض ہے اس لیے اس کی شادی نہ ہوسکی۔ تیسرے بیٹے کی شادی بھی کچھ ٹھیک لوگوں میں نہ ہوسکی۔ میرے خیال میں یہ بھی تعویزات کے اثرات ہیں۔ ہمارے گھر اور زندگی کو بزرگوں نے تمام کیا۔ ہمارے بزرگ ٹھیک نہیں تھے۔

ایک اور بات کا پتہ چلا۔ میرے تایا زاد کزن جو مجھ سے بڑا ہے، نے مجھے بتایا کہ "تمہارے والد نے تو اپنی سگی اولاد تک کو نہیں چھوڑا تھا۔ اس نے اس پر تعویز کروائے تھے اور اپنے ہی سب سے چھوٹے بیٹے کو بھیجا تھا اور میں بھی ساتھ میں گیا تھا۔ میں اپنی مرضی سے نہیں گیا تھا۔ یعنی تمہارے باپ نے سگی اولاد پہ تعویز کیے تھے۔ ان کو اس کی شادی ناپسند تھی۔ اس نے پسند کی کی تھی اور یہ تعویز فیصل آباد سے ہوئے تھے۔ باپ نے کیا معلوم تم پر بھی نہ کیے ہوں تعویز کہ تم نے اپنا الگ کاروبار شروع کردیا تھا اور تمہارے والد تمہاری شادی بھی اپنے بھایئیوں کی بیٹیوں سے چاہتے تھے۔ اس بات کی کوئ گارنٹی نہیں۔۔۔"

میرے سب سے چھوٹے سوتیلے بھائ کو بھی شرم نہ آئ۔ اس نے 1985 میں حج کیا تھا او ر 1987 میں باپ کے کہنے پہ اپنے ہی سگے بھائ پہ تعویزات کیے۔۔۔ وہ حاجی نہیں پاجی نکلا۔ ایک نمبر کا پاجی۔ حج کرکے سگے بھائی کو نہ چھوڑا۔ اس پہ تعویز کیے، میں تو ہوں ہی سوتیلا مجھ پہ کیوں نہیں کرے گا۔ غالباً میرے تایا کے بیٹے کا کوئی جاننے والا جادوگر فیصل آباد میں رہتا تھا۔ "اسی طرح ایک دن ایسا بھی آیا تھا کہ میرے چچا نے والد کو کہا تھا کہ اس کا ایک بیٹا انجینئیر بن گیا ہے وہ اس کو لے کر اُڑ جائے گا، تو جواب میں میرے والد نے فرمایا کہ میں سالوں کے پر کاٹ دوں گا۔"

گھر والدین کا تھا جس میں سے کچھ حصہ مجھے مل گیا تھا۔ مگر یہاں سکون بالکل نہیں تھا۔ مجبوری میں گزارہ کررہے تھے۔ گھر میں ہر وقت پریشانی رہتی تھی۔ میں نے وقت گزارنے کے لیے ایک جگہ نوکری کرلی تھی۔ فرم کا مالک میرا جاننے والا تھا۔ میرے پاس چونکہ تجربہ تھا اس لیے انہوں نے مجھے اپنی فرم میں جگہ دے دی تھی۔ وہ میرے حالات دیکھ کر بہت تعجب کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ لوگ ہمیں ’سیٹھ صاحب‘ کہتے تھے اور مارکیٹ میں بے حد عزت تھی۔ ہم کبھی سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ حالات ایک دم اتنے خراب ہوجائیں گے کہ مجھے نوکری کرنی پڑے گی۔ کبھی کبھی فرم کے مالک سے بھی گھریلو حالات پر بات چیت ہوجاتی تھی۔ وہ میری بے حد عزت کرتے تھے۔ مگر کبھی کبھی وہ کچھ ایسی باتیں بھی کہہ جاتے تھے کہ جس سے دل کو ایک جھٹکا سا لگتا تھا اور میں اپنے آپ کو کوسنے لگتا تھا۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا ہے کہ تمہاری کوئی ’بیٹی‘ نہیں ہے۔ مجھے اس طعنے کا بے حد رنج ہوا۔ کیا یہ میرے اختیار میں تھا؟ دنیا میں میری طرح کتنے لوگ ہونگے جن کے ہاں کوئی بیٹی نہیں ہے اور ماشاءاللہ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔

میں نے تو کئی ایسے خاندانوں کو دیکھا اور سنا ہے کہ انکے ہاں ایک بھی بیٹا نہیں ہے، صرف بیٹیاں اور وہ بھی دس دس بارہ بارہ، مگر وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرا تو یہ ایمان ہے کہ بیٹا ہو یا بیٹی اسمیں انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اگر اسکے ہاں بیٹی پیدا نہیں ہوتی تو رزق تو اللہ ہی نے دینا ہے۔ ایسی باتیں عموماً وہ لوگ ہی کرتے ہیں جن کو اللہ نے بیٹیوں سے نوازا ہو۔ ہمارے دفتر میں جہاں میں نوکری کرتا تھا، یہ بات پورے سٹاف کو معلوم ہوگئی تھی، وہ لوگ بھی جانتے بوجھتے ہوئے مجھ سے بار بار یہی سوال کرتے تھے کہ آپکے کتنے بچے ہیں؟ جب میں انہیں بتاتا کہ میرے تین بیٹے ہیں، تو وہ تعجب سے پوچھتے کوئی بیٹی نہیں ہے؟ مجھے ان لوگوں کی باتوں سے سخت مایوسی ہونے لگی تھی۔ میں تو اپنا غم بھلانے دفتر آتا تھا، مگر یہاں مجھے پریشان کیا جانے لگا تھا۔ گھرمیں بھی پریشانی بڑھنے لگی۔

بچوں کی شادی کے بعد بہوؤں نے گھر کے کام کاج میں اپنی ساس یعنی میری بیوی کا کوئی ہاتھ نہ بٹایا، دو دو بہووں کے ہونے کے باوجود میری بیوی کو گھر کے سارے کام بڑھاپے میں خود کرنے پڑتے تھے اور آج تک کرنے پڑ رہے ہیں۔ دراصل آج کل کى بہو، بہو نہيں ہوتى بلکہ بھؤ ہوتى ہے۔ وہ بھوتنی کی طرح سر پر سوار ہوجاتی ہے۔ جب میری بیوی بہو بن کر آئی تھی تو اس وقت بھی اس کو سارے کام خود کرنا پڑے تھے اور اب بھی خود کرنے پڑتے ہیں۔ معلوم نہیں کن گناہوں کی سزا مل رہی تھی۔ شاید یہ پسند کی شادی کا انجام ہے۔ منجھلے بیٹے کی مجھے بےحد فکر لگی رہتی ہے۔ اسکی تو گھر میں کوئی عزت نہیں ہے آج بھی، اس کو تو کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ بے روزگار اور دل کا مریض ہے۔

اب میں دفتری حالات سے بھی تنگ آگیا اور گھریلو پریشانیوں سے بھی۔ ہمارے گھر کو ایسی نظر بد لگ گئی تھی کہ حالات درست ہی نہیں ہونے پہ آرہے۔ بچوں میں ناچاقی بڑھنے لگی ہے۔ اس لیے میں نے الگ رہنے کا ارادہ کرلیا۔ ستوکی گاوں میں ہم لوگ پہلے بھی رہ چکے تھے اور لوگ بھی واقف تھے، اسلیے یہاں میں نے ایک چھوٹا سا مکان خرید لیا ہے۔ میں بیوی اور دوسرا منجھلا بیٹا یہاں شفٹ ہوگئے ہیں۔ نوکری چھوڑ دی ہے۔ یہاں آکر ہم لوگوں نے گھر میں ہی بچوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ کافی بچے آجاتے ہیں ان کو دینی و دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے۔ درود و سلام کی محفلیں بھی ہوتی ہیں، ذکر و اذکار بھی ہوتا ہے۔ قصور میں بزرگ کے مزار پر بھی باقاعدگی سے حاضری دیتا ہوں، محفل سماع میں شرکت بھی کرتا ہوں۔ دوسرا بیٹا بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دیتا ہے۔ بس یہی ہماری آمدنی کے ذریعے ہیں۔ جو مل جائے روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں۔ ہمیں ایک اچھی اور نیک بہو چاہیے تھی اور کچھ نہیں، جو ہماری بیٹی بن کررہتی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ روتا اس لیے ہوں کہ ہم لوگوں نے زندگی بھر دکھ درد اٹھائے اور ہمارے اپنے بھی ہمارے کام نہ آئے۔ دراصل وہ ہمارے اپنے تھے ہی نہیں۔ حج کرنے کی تمنا تھی، وہ بھی پوری نہ ہوسکی۔

جب ہم بھائی الگ الگ ہوئے، میں نے اپنا کاروبار شروع کرنے کی کافی کوششیں کی تھیں، مگر ہر دفعہ ناکام رہا تعویزات کی وجہ سے۔ میرے دل میں ہر وقت ایک خوف سا رہتا تھا۔ بچے اس وقت زیرتعلیم تھے اور چھوٹے تھے۔ جب ہم بھائیوں کا مشترکہ کاروبار ختم ہوا اس وقت پیسہ بہت محدود تھا۔ پھر بھی کئی کاروبار کیے مگر ہر بار ناکام رہا۔ جب ہم بھائیوں کا مشترکہ کاروبار تھا اس وقت میں بہت ہمت والا اور کاروبار کا مرکزی کردار تھا۔ مگر علحیدگی کے بعد نہ جانے کیا ہوگیا تھا کہ دل میں ہر وقت ایک انجانا سا خوف رہنے لگا تھا۔ کئی بار روحانی علاج بھی کروایا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ حالات جوں کے توں ہی رہے۔ میر ی قوت ارادی کم سے کم تر ہوتی چلی گئی کسی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ تم پر کافی پرانے جادو کا اثر ہے۔ جب تاریخ کا حساب لگایا گیا تو یہ وہی تاریخ بنتی تھی جب میں نے والد صاحب کی زندگی میں اپنا الگ کاروبار شروع کیا تھا اور پھر بعد میں جلد ہی وہ کاروبار بند کردیا تھا۔ کیونکہ والد صاحب ناراض ہوگئے تھے۔ کسی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ تمہیں ایک بہت بڑے حصے سے محروم کردیا گیا ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک دفعہ سب سے چھوٹے بھائی نے مجھ سے والد صاحب کی وفات کے بعد ایک سادہ کاغذ پر دستخط کروائے تھے اور یہ کہا تھا کہ یہ لیٹر بینک مینیجرخود لکھ لے گا۔ بینک میں اباجی کا اکاونٹ تھا وہاں سے پیسے نکلوانے تھے۔ مجھے یہ بتایا کہ تھوڑی سی رقم ہے۔ میں نے بلا چوں و چرا دستخط کردیئے تھے۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ اس میں کتنی رقم تھی۔

دوسرا واقعہ بھی اسی طرح کا ہے یہ ابا جی حیات میں ہوا تھا۔ یہی سب سے چھوٹے سوتیلے بھائی نے ابا جی کی حیات میں ایک کورے کاغذ پر میری بیوی سے دستخط کروائے تھے اور یہ کہا تھا کہ بینک سے ایک سرٹیفکیٹ کیش کروانا ہے جو کہ میری بیوی کے نام تھا۔ درخواست میں یہ لکھنا ہے کہ ذکوٰة نہ کاٹی جائے۔ جب میں گھر آیا تو بیوی نے مجھے یہ بات بتائی۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ میری غیر موجودگی میں بیوی سے کورے کاغذ پر دستخط کیسے کروالیے۔ اب چونکہ والد صاحب حیات تھے اس لیے خاموش رہا۔ روحانی علاج کرنے والے کی بات پر مجھے یہ دو واقعات یاد آگئے۔ خیر، مجھے اب اسکا رنج نہیں ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت چب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ جس کی قسمت میں جتنا ہوتا ہے اتنا ہی ملتا ہے۔ مگر مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ بچوں کو کاروباری نہ بنا سکا۔ نوکریوں کی وجہ سے بچے تقسیم ہوگئے اور سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ اب بڑھاپے میں سزا بھگت رہا ہوں۔ موت کی دعائیں کرتا رہتا ہوں، مگر وہ بھی دور بھاگتی جارہی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ بھی سوچتا ہوں کہ کاش میں نے شادی ہی نہ کی ہوتی۔ شادی نہ کرنے سے سب لوگ خوش رہتے ہیں اور پھر یہ ساری کہانی جنم ہی نہ لیتی۔ یہ پسند کی شادیوں کا انجام ہوتا ہے۔

نوکری کی وجہ سے ایک بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ لاہور ہی میں رہتا ہے۔ آجکل تو بےچارہ وہ بھی بےروزگار ہے۔ مشترکہ گھر کا جو حصہ مجھے ملا تھا وہ وہیں مقیم ہے اور دوسرا تو بیرون ملک چلا گیا۔ بیوی بھگا کے لے گئی اسے۔ کبھی کبھی وہ بیٹا ہم لوگوں سے ملاقات کےلئے آجاتا ہے جو لاہور میں رہتا ہے۔ بڑے بیٹے کے تین بچے ہیں ایک بیٹی اور دو بیٹے۔ بڑے ہی پیارے بچے ہیں۔ میں آپکو بتا نہیں سکتا کہ ہم لوگ اپنے پوتا پوتی کے بغیر کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ہماری آنکھوں میں ہر وقت بسے رہتے ہیں۔ بچے بھی ہم لوگوں سے بےحد مانوس ہیں۔

ہمیں بیٹے کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ گھر میں آسیب ہے۔ چیزیں غائب ہوجاتی ہیں۔ بڑے عالم دینوں سے رجوع کیا۔ وہ لوگ کہتے ہیں گھر چھوڑ دو۔ آخر ہمیں تنگ کرنے کا مقصد کیا ہے؟ معلوم ہوا ہے کہ گھر پر کوئی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں تنگ کیا جا رہا ہے۔ آخر تنگ آکر بیٹے نے ہمارے مشترکہ والے گھر کے اس حصے کو چھوڑ دیا اور پرائیویٹ سوسائیٹی میں ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا ہے۔ مشترکہ والے گھر میں تالے لگا دیئے ہیں۔ میں تو بالکل اس گھر میں نہیں جانا چاہتا اب۔ دو ڈھائی سال بعد ہم لوگ گھر کی خبر لینے گئے تو دیکھا کہ میرے دونوں سوتیلے بھائیوں نے ہمارے والے حصے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ایک بھائی اوپر اور دوسرا نیچے رہتا ہے۔ ہمارے گھر کی تقسیم کوئی تحریری شکل میں نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے جعلی کاغذات بنوالیے ہیں اور یہ ظاہر کردیا ہے کہ ہم نے اپنا حصہ انہیں بیچ دیا ہے۔

چچا اور تایا نے مرتے دم تک ان لوگوں کو سپورٹ کیا۔ ہم لوگوں میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکیں۔ اب ہم نے اس کو بھی اللہ کی مرضی جان کر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ اللہ ہی اس کا حساب کتاب لے گا۔ کیونکہ میرا ایمان ہے کہ اللہ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتا ہے۔ میں تو ہمیشہ اللہ سے ہی مدد مانگتا رہتا ہوں۔ بس اسی طرح زندگی کے دن پورے کر رہا ہوں۔ بس یہی میری کہانی ہے۔

میں نے دیکھا کہ باباجی کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ بابا جی کی یہ روداد تقریباً تین دن بعد ختم ہوئی۔ یہ واقعات سنتے سنتے میرے بھی آنسو آجاتے تھے۔ مجھے بابا جی سے بےحد پیار ہوگیا تھا اور میں نے انہیں اپنے باپ کا درجہ دے دیا تھا۔ اتفاق سے میرے بھی ماں باپ نہیں ہیں۔ میرے ماں باپ تو بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ میں نے بابا جی سے درخواست کی کہ اب وہ میرے پاس ہی رہا کریں مگر وہ نہ مانے، کہنے لگے کہ "میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ ہاں! کبھی کبھی آجایا کروں گا"۔ میں نے باباجی کی ہمت بندھائی ”اللہ پر بھروسہ کریں، اللہ ضرور آپ کو اور آپ کے بیوی بچوں کو خوشیاں دے گا“۔ باباجی نے کہا کہ "کچھ اپنے بارے میں بھی تو بتاو، کہاں کے رہنے والے ہو، کیا کام کرتے ہو؟ ماں باپ بہن بھائیوں کے بارے میں بتاو"۔

میں نے ان سے وعدہ کیا پھر کسی وقت اپنے بارے میں ضرور بتاوں گا۔

مالک و مصنف: شیخ محمد فاروق۔
کمپوزر: کاشف فاروق، لاہور سے
 

kashif farooq
About the Author: kashif farooq Read More Articles by kashif farooq: 10 Articles with 69615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.