عجیب موت
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
یہ کام اس نے اپنے مرنے کے بعد شروع کیا تھا ۔ |
|
|
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
کیفی اعظمی
اس کے جنازے میں پورا شہر ہی امڈ ۤآیا تھا ۔ علاقے میں اس کی شہرت تھی ۔ ہر
چھوٹا بڑا اس سے واقف تھا ۔ بلکہ بعض اوقات چھوٹے بچوں کے اصرار پر ان کے
والدیناس سے بچوں کی ملاقات کرانے بھی لے آتے ۔ وہ بچوں ان کے والدین کی
پانی سے تواضح کرتا۔ ملاقات کرنے کے لیے آنے والوں کو ہی نہیں بلکہ ہر
شناسا و ناشناسا کو بھی پانی پلایا کرتا تھا ۔ لوگ بھی پیاسے ہوں یا نہ ہوں
اس سے پانی ضرور پیا کرتے تھے ۔ یوں لگتا تھا اس کی زندگی کا مقصد ہی لوگوں
کو پانی پلانا تھا ۔ یہ کام اس نے اپنے مرنے کے بعد شروع کیا تھا ۔
جی آپ نے صیح پڑھا کہ یہ کام اس نے موت کے بعد شروع کیا تھا ۔ مرنے سے پہلے
تو اس نے پانی کا گلاس تو بہت بڑا ہوتا ہے پانی کا قطرہ تک کسی کو پینے کے
لیے نہیں دیا تھا ۔ اس کو اس بات کا احساس بھی مرنے کے بعد ہوا تھا ۔ یہ
حقیقت بھی مرنے کے بعد فرشتوں نے اسے بتائی تھی کہ اس نے زندگی میں ایک بار
کسی مہمان کو دودھ کا گلاس پلایا تھا ۔ حالانکہ اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس
نے کسی کو دودھ کا گلاس پلایا ہو مگر جب فرشتوں نے اسے یاد کرایا تو اسے وہ
اجبنی یاد آ گیا جو اس کے ڈنگروں والے باڑے کے پاس سے گذر رہا تھا ۔ اور
بچھی ہوئی چارپائی اور حقہ دیکھ کر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ اس وقت وہ اپنی
گائے کا دودھ دوھ رہا تھا ۔ اس نے پتہ نہیں کیا سوچ کر اس پردیسی کو دودھ
کا پیالہ پیش کیا ۔ اجنبی سے حقہ سے منہ ہٹایا ۔ دودھ کا پیالیہ لیا ۔ اور
ایک ہی سانس میں پی کر ہاتھوں سے مونچھوں پر لگے دودھ کو صاف کیا ۔ پیالہ
چارپائی پر رکھا اور چل دیا۔
اس کی زندگی بھی گوجرخان کی ڈھوک حیات علی میں دوسرے لوگوں ہی کی طرح تھی ۔
صبح اٹھتے ہی کھیتی باڑی میں مصروف ہو جاتا ۔ اس کے بعد ڈنگروں کےپٹھوں کا
انتظام کرتا ۔ شام کو دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ دوہتھا ۔ اس کی زندگی
رواں دواں تھی ۔ صحت بھی ٹھیک تھی مگر اچانک فوت ہو گیا ۔ گھر میں ماتم
کہرام برپا کر دیتا ہے ۔ حیات علی کے گھر میں بھی کہرام برپا تھا ۔ جو سنتا
اس بے وقت موت پر حیران ہوتا مگر موت سے مفر کسے ہے ۔ حقیقت کو قبول کرنا
پڑتا ہے ۔اس کی موت کی حقیقت کو بھی تولیم کر لیا گیا ۔ دور پار کے رشتے
داروں کو فوتیدگی کی اطلاع دے دے گئ۔ قبر تیار کر لی گئی ۔ جب اس کا جنازہ
اٹھایا گیا تو حیات علی اٹھ بیتھا ۔ عزاداروں نے چارپائی نیچے رکھ دی ۔
حیات علی نے بتایاوہ واقعی مر گیا تھا ۔ اور فرشتے اسے لے کر ایک لمبے
ویران صحرا سے گذر کر ایک ایسے میدان میں لے کر گئے جہاں مرے ہوئے لوگوں کا
رش تھا ۔ حیات علی کو بمعہ اس کے کاغذات کے کو لے جانے والوں نے اس میدان
میں موجود ایک منشی کے سامنے پیش کیا ۔ اس نے کاغزات دیکھ کر حیات علی کو
لے جانے والوں کو ڈانٹا کہ تم غلط آدمی کو اتھا لائے ہو ۔ جلدی سے واپس جاو
اور مانکیالہ والے حیات علی کو لے کر آو۔ ڈھوک حیات علی والوں نے یہ سنتے
ہی چالیس کلومیٹر دور مانکیالا کی طرف بندے دوڑائے انھوں نے واپس آ کر
تصدیق کی کہ جب حیات علی ذندہ ہوا اسی وقت مانکیالہ والے حیات علی کا
انتقال ہوگیا تھا۔
اصل کہانی مگر مانکیالہ والے حیات علی کی وفار کے بعد شروع ہوئی ۔ ہوا یہ
کہ حیات علی کو جب مرنے کےبعد ایک بیابان صحرا سے گذارا جا رہا تھا تو اسے
پیاس کی شدت نے پانی مانگنے پر مجبور کر دیا مگر اس کے دونوں نامانوس
ساتھیوں میں سے ایک نے کہا تم نے تو پوری زندگی میں کسی کو پانی پلایا ہی
نہیں اس لیے تمھیں پانی نہیں دیا جا سکتا۔ حیات علی کی عتش کی زیادتی پر
دوسرے ساتھی نے کہیں جھانک کر دیکھا اور پہلے ساتھی کو بتایا کہ اس نے ایک
راہ گیر کو دودھ کا گلاس پلایا تھا ۔ لہذا اسے دودھ کا ایک گلاس پیش کر دیا
گیا ۔
دوبارہ جی اٹھنے کے بعد حیات علی نے اپنی ڈھوک میں کنواں کھدوایا ۔
سارا دن اس کنویں کی منڈھیر پر بیٹھا رہتا اور ہر آنے جانے والے واقف و نا
وقف کو پانی پلاتا ۔ اسی عمل کے دوران اس کی موت آگئی علاقے بھر کے لوگ اسے
جانتے تھے ۔ اکثر نے اس کے ہاتھ سے پانی پیا ہوا تھا ۔ اس کی موت علاقے میں
بڑی موت تھی سارا علاقہ جنازہ پڑہنے امڈ ۤایا تھا ۔
یہ کہانی ہمیں بیرون ملک مقیم ایک گوجرخانی نے سنائی تھی ۔ ہم نے گوجر خان
جاکر اس محلے میں لوگوں سے معلومات حاصل کی ۔ کئی نوجوان اس کہانی سے نا
آشنا تھے ۔ اکثر بزرگوں نے مگر اس کہانی کی تصدیق کی ۔ ذاتی طور پر اس
کہانی کی صحت پر یقین ہو جانے کے باوجود اسے لکھنے پر دل مائل نہ ہوا۔ پھر
گوجرخان کی معروف صوفی شخصیت جناب پروفیسر احمد رفیق اختر نے اس کی تصدیق
کی تو ہم بھی اس کو ضبط تحریر میں لانے پر جرات کر لی ۔ |
|